ہوم << فلسطین اور عالمی ضمیر کی خاموشی - نقیب علوی

فلسطین اور عالمی ضمیر کی خاموشی - نقیب علوی

جب کسی قوم کی چیخیں ہوا میں گم ہو جائیں، بچوں کے کٹے پھٹے جسم زمین پر بکھرے ہوں، اور مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو کفن میں لپیٹ رہی ہوں — تب اگر دنیا خاموش تماشائی بنی رہے، تو جان لو کہ انسانیت مر چکی ہے۔

فلسطین کی سرزمین پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک سیاسی تنازع یا زمینی جھگڑا نہیں، بلکہ پوری دنیا کے ضمیر کا امتحان ہے۔ وہاں صرف جسم زخمی نہیں ہو رہے، بلکہ انسانیت، انصاف، اور عالمی اصولوں کو بموں اور میزائلوں سے چیر دیا گیا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ فلسطین کیوں جل رہا ہے، سوال یہ ہے کہ دنیا کیوں خاموش ہے؟ اور ہم — جو خود کو با شعور، مہذب اور مسلم کہتے ہیں — آخر کب تک خاموش رہیں گے؟

فلسطینی عوام سات دہائیوں سے مسلسل ظلم سہہ رہے ہیں۔ 1948 کا نقبہ، 1967 کی جنگ، اور غزہ پر ہونے والے مسلسل حملے — ہر واقعہ انسانیت کی روح پر کاری ضرب ہے۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر کیمپوں میں قید کیا گیا، ان کے بچوں کو یتیم، ماؤں کو بے سہارا، اور جوانوں کو شہید کر دیا گیا، مگر عالمی برادری نے ہمیشہ مفادات کی عینک لگا کر دیکھا۔

عالمی طاقتیں انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، مگر جب بات فلسطین کی ہو، تو ان کا پیمانہ بدل جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، عالمی عدالتِ انصاف کے اصول، اور انسانی حقوق کے چارٹر — سب فلسطینیوں کے لیے بے معنی دکھائی دیتے ہیں۔ جب ایک اسرائیلی فوجی ہلاک ہوتا ہے تو دنیا چیخ اٹھتی ہے، مگر جب سینکڑوں فلسطینی معصوم بچے بمباری میں شہید ہو جاتے ہیں، تو صرف خاموشی سنائی دیتی ہے۔

یہ خاموشی محض بے حسی نہیں، بلکہ منافقت کی بدترین شکل ہے۔ دنیا میں جب کہیں جانوروں کے حقوق پامال ہوں تو عالمی ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں، مگر جب فلسطینی بچوں کی لاشیں ملبے سے نکالی جاتی ہیں، تو کوئی ردِعمل نہیں آتا۔ یہ وہ دوہرا معیار ہے جس نے عالمی ضمیر کو مردہ کر دیا ہے۔

فلسطین کی جنگ، زمین کے ٹکڑے کے لیے نہیں، بقا، شناخت، اور خودداری کی جنگ ہے۔ فلسطینی نہتے ہو کر بھی طاقتور ہیں، کیونکہ ان کے پاس ایمان کی طاقت، صبر کا ہتھیار، اور شہادت کا یقین ہے۔ ان کے جذبے کو نہ میزائل ختم کر سکتے ہیں، نہ ٹینک، نہ پابندیاں۔

افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ عالمی میڈیا بھی سچ کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔ ظالم کو "دفاعی" اور مظلوم کو "دہشت گرد" کہا جاتا ہے۔ میڈیا کی زبان میں ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی شامل ہے، جو ذہنوں کو گمراہ کرتی ہے اور حق و باطل کی تمیز مٹا دیتی ہے۔

اس صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے: ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم صرف سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے اپنا فرض ادا سمجھ لیتے ہیں؟ کیا ہم فلسطینی بچوں کی لاشیں دیکھ کر چند لمحوں کو دکھی ہو کر اگلی پوسٹ پر بڑھ جاتے ہیں؟ کیا ہمارا ایمان اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ ہم ایک مظلوم قوم کی آہوں کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں؟

مت کیجیے برسات کی امید فلک سے
اس سال زمینوں نے لہو خوب پیا ہے

فلسطین کی صورتحال پر عالمی مسلم قیادت کی خاموشی انتہائی افسوسناک ہے۔ یہ وہ قیادت ہے جو ہر عالمی فورم پر اسلامی اخوت، امن، اور بھائی چارے کا پرچار کرتی ہے، مگر جب بات فلسطین کی آتی ہے، تو یہ قیادت اپنے مفادات اور سیاست میں ایسی گم ہو جاتی ہے کہ فلسطینی عوام کا دکھ اس کے لیے محض ایک غیر اہم مسئلہ بن کر رہ جاتا ہے۔ کئی مسلم ممالک نے فلسطینی عوام کے حق میں صرف بیان بازی کی، لیکن عملی اقدامات کی کمی رہی۔ فلسطین کی آزادی کے لیے کسی نے بھی عالمی سطح پر طاقتور اقدام نہیں کیا۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس شہر رکھنے والی مسلمان ریاستیں ایک دوسرے کے مفادات میں اس قدر جکڑی ہوئی ہیں کہ ان کے درمیان فلسطین کے معاملے پر مشترکہ حکمت عملی اپنانا محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ ان ممالک کی ریاستی سیاست کی بنیاد اسلامی اقدار پر ہو، مگر جب بات فلسطین کے مظلوم عوام کی ہو، تو ان کے لیے ایک مضبوط اور متحد آواز بلند نہیں کی جاتی۔ یہ حقیقت کہ مسلم دنیا نے کبھی بھی فلسطینیوں کے حق میں یک زبان ہو کر عملی اقدام نہیں کیا، اس بات کا غماز ہے کہ ہم نے اپنے ضمیر کو اس قدر بیچ دیا ہے کہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لیے آواز بلند کرنا، ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ دنیا کو اس وقت فلسطین کے لیے اتحاد کی ضرورت ہے، مگر بدقسمتی سے مسلم قیادت صرف عوامی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے میں مشغول ہے، جبکہ بین الاقوامی سیاست میں ایک دوسرے کے مفادات کے خوف سے خاموش ہے۔

یہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں، یہ ہماری انسانیت کا امتحان ہے۔ اگر ہم آج بھی خاموش رہے تو کل کو ظلم ہمارے دروازے پر بھی دستک دے گا — اور تب کوئی ہمارے لیے بھی نہیں بولے گا۔ ظلم کے خلاف خاموشی، دراصل ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم محض تماشائی نہ بنیں۔ ہمیں عملی طور پر مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنی ہوگی۔ تعلیمی اداروں میں فلسطین سے متعلق آگاہی پیدا کی جائے۔ مساجد میں خطبات، دعاؤں اور اجتماعی شعور کے ذریعے امت کو بیدار کیا جائے۔ میڈیا میں حقائق کو اجاگر کیا جائے اور ہر فورم پر فلسطینیوں کا مقدمہ پیش کیا جائے۔

امتِ مسلمہ کا کردار اس بحران میں حد درجہ مایوس کن رہا ہے۔ بیشتر مسلم ممالک نے مصلحت کو ایمان پر ترجیح دی ہے۔ اگر مسلمان ممالک ایک زبان ہوتے، ایک صف میں کھڑے ہوتے، تو آج فلسطین کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ مگر ہم فرقہ واریت، سیاست اور قومی مفادات میں اس قدر بٹ چکے ہیں کہ امت کا تصور ہی ماند پڑ گیا ہے۔

سوشل میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہے جو ظالم کی پروپیگنڈہ مشینری کو بھی شکست دے سکتا ہے — اگر اسے شعور، تحقیق اور دیانت کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ ہمیں صرف "شیئر" نہیں کرنا، بلکہ سچ کو ثابت کرنا ہے۔ ہمارے الفاظ، ہمارے ویڈیوز، ہمارے سوالات — سب مظلوموں کی طاقت بن سکتے ہیں۔

یاد رکھو، تاریخ گواہ ہے کہ ظالم جتنا بھی طاقتور ہو، جب ضمیر بیدار ہو جائے، تو وہ ظلم زیادہ دیر تک نہیں ٹک سکتا۔ فلسطین کی آزادی تب ممکن ہوگی جب ہم صرف دعا نہیں، بلکہ عملی جدوجہد کریں گے۔ جب ہماری تحریریں، تقریریں اور کردار مظلوموں کی آواز بنیں گے۔ جب ہم اپنی نسل کو یہ سکھائیں گے کہ سچ بولنا، سچ کا ساتھ دینا، اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا ایمان کا تقاضا ہے۔

آخر میں، یہ نہ بھولو کہ ہم شاید فلسطین کی گلیوں میں اجالا نہ کر سکیں، مگر کم از کم ہمارے لفظ ظلم کے اندھیرے کا حصہ نہ بنیں۔ اپنے حصے کا چراغ جلاؤ — کیونکہ جب چراغ جلتے ہیں، تو اندھیرے شرمندہ ہو جاتے ہیں۔