ہوم << منظر ہو بیاں کیسے: اللہ کی رحمت کے آثار - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

منظر ہو بیاں کیسے: اللہ کی رحمت کے آثار - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

مجھ ناچیز وحقیر میں بشمول دیگر بیسیوں خامیوں کے ایک یہ بھی نقص ہے کہ میں فرمائشی تحریریں بدقّتِ تمام ہی لکھ پاتا ہوں۔اور کسی طے شدہ منصوبے کے تحت لکھنا کچھ آسان نہیں ہوتا۔

اس کی کئی دلچسپ مثالیں میرے یادوں کے دریچے سے جھانک رہی اور مجھے دعوت تحریر دے رہی ہیں،مگر سر دست میرا موضوع دل و دماغ پر حاوی ایک مختلف یاد ہے۔جس کا محرک ربیع الاول کا یہ مبارک و محترم مہینہ ہے،جس میں عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمزمے بہہ رہے ہیں اور ہر گذرتے دن کے ساتھ ان میں اضافہ ہورہا ہے۔ دو سال پہلے ایک صبح ریڈیو پاکستان کے قومی پروگرام" حی علی الفلاح" میں "قرآن حکیم اور ہماری زندگی" کے زیر عنوان مجھے سورہ توبہ کی آیت 16 کی توضیح پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی،جس میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کے تقاضے کا ذکر ہوا تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کا احساس شدت سے غالب آگیا ۔

حالانکہ یہ ہمہ وقت مستحضر رکھنا مطلوب ہےاور میرے سامنے یادوں کا یہ سعید دریچہ کھل گیا۔ میں ارادۃً اس موضوع پر بات کرنے سے کتراتا ہوں کہ کہیں خود نمائی یا خود ستائی کا شائبہ نہ ہو۔ میری تحریریں بالعموم وقتی تأثر اور جذبوں کے زیر اثر ہوتی ہیں۔یہ تحریر جو گرچہ بہت طویل ہے ،نہ بہت اہم،مگر مجھ حقیر کے لیئے بہت روح پرور ،انمٹ دلکشا یاد اور راحتِ جاں ہے۔اسی خاص ماحول اور جذبوں کے زیر اثر ایک خاص جذبے کے زیر اثر ہوں ،لہذا خامہ فرسائی کی جسارت کر رہا ہوں۔

یہ 2015 کا سال تھا۔جب میرے بیٹے انس اعجاز نے میرے اور اپنی والدہ کے ساتھ اپنے کاغذات وغیرہ حج بیت اللہ کی ادائیگی کے لئے گورنمنٹ کی ریگولر اسکیم میں جمع کروا دیئے۔میں ذہنی طور پر اس اچانک طویل اور مشقت طلب سفر کے لیئے ہرگز آمادہ نہیں تھا. مزاجاً کم ہمت بھی ہوں اور انجانے خطرات وخدشات کے زیر اثر بھی رہتا ہوں۔وسائل تو بالکل ہی نہ تھے،مگر ان کا انتظام تو " انہوں" نے بواسطہ انس اعجاز کردیا تھا، ماضی کے حجاج کرام نے حج کی سختیوں، ایئرپورٹ کی الجھنوں اور عرفات کی گرمیوں سے خوفزدہ کر رکھا تھا۔میں کالج کے معاملات میں الجھا ہوا بھی تھا۔ اس طویل سفر کی ہمت نہیں کرپا رہا تھا،مگر "بلاوا" بہت تگڑا تھا۔

پروردگار کو شائد مطلوب تھا کہ اپنی زندگی بھر کی خطاؤں اور گناہوں کی مغفرت طلبی اور سعادتوں کے حصول کا بس یہی موقعہ میرے نصیب میں لکھا جاچکا تھا،سو میں حاضر ہوکر دامن جھاڑ لوں۔ یہاں پاکستان میں بھی شدید گرمی اپنے عروج پر تھی۔مکے مدینے کا کیا عالم ہوگا؟یہ اور سفر و قیام کی سب صعوبتیں سوچ سوچ کر ہول آنے لگتا ۔

خیر۔۔.بلاوا تکڑا تھا ،سو سَر کے بَل بھی جانا لازم ٹہرا۔آخر وہ دن بھی آ ہی گیا۔جب لرزیدہ لرزیدہ سفر کا آغاز ہوا۔یہ لرزیدگی سعودی عرب کے ایئرپورٹ پر متوقع "سلوک" کی پیش نظر تھی۔ اتفاق تھا کہ ہماری فلائٹ انتہائی ابتدائی دنوں کی تھی۔پہلی سہولت یہ ہوئی کہ فیصل آباد سے روانگی تھی۔اور یہاں سے اسی سال حج فلائٹس کا آغاز ہوا تھا۔دوسرا اتفاق جو بعد میں خوش قسمتی ثابت ہوا،اور اللہ کی رحمت قرار پایا وہ یہ تھا کہ مدینہ منورہ کا ایئرپورٹ بھی اسی سال فنکشل ہوا تھا۔اور ہماری فلائٹ بھی اس ایئرپورٹ کی اولین فلائٹس میں سے تھی۔ جہاز سے اتر کر بس میں بیٹھنے تک ہمیں یہاں ایک سیکنڈ بھی انتظار کے لیئے بیٹھنے کا موقعہ نہ ملا۔مطلب یہ کہ جن مراحل کے گھنٹوں کی مشقت اور انتظار کا خوف تھا،وہ چند منٹوں میں مکمل ہوگئے۔

ٹرمینل میں داخل ہوئے۔لائن میں لگے۔وبائی امراض کا ٹیکہ اگرچہ پاکستان سے لگ چکا تھا،تاہم۔یہاں بھی قطرے پیئے۔سنا تھا کہ ان قطروں سے دو تین روز خاصا تیز بخار رہتا ہے۔اب بندہ دیار عشق میں جائےاور بخار میں پڑارہے۔کس قدر کم بختی ہوگی۔سو اپنے نوجوان دوست ڈاکٹر حبیب الرحمان صاحب جو اج کل ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز ہیں۔ان دنوں میرے ہی کالج میں رفیق کار تھے۔کے ٹوٹکے پر عمل کیا کہ ایک ٹشو پیپر ہاتھ میں رکھا۔قطرے زبان پر پڑتے ہی نگلنے کی بجائے قطار میں اگے بڑھتے ہوئے ٹشو سے صاف کرلیئے اور بخار کے "بخار " سے حقیقی یا نفسیاتی طور پر محفوظ ہوگئے۔

چٹ منگنی، پٹ بیاہ کی مانند منٹوں میں امیگریشن اور دیگر مراحل سے کھڑے کھڑے فارغ ہوکر ایئرپورٹ سے خروج اور مدینۃ الرسول ص کی عجیب ،روح پرور اور مسرور کُن فضاوں میں دخول ہوا،اور ہم انہیں اپنے سانسوں اور روح و بدن کا جزو بناتے ہوئے بس میں جا بیٹھے۔ میرے ایک مہربان اور قدردان منصوری دوست حکیم محمد الیاس جو مستقلاً کراچی میں مقیم ہیں، کا خیال ہے کہ میں سفر سعادت کی روداد یعنی سفر حج لکھنے لگا ہوں۔دل تو بہت چاہتا ہے،مگر ڈرتا ہوں کہ کہیں کوئی بے ادبی نہ ہوجائے۔اس سفر اور مقاماتِ شوق و عرفان کی نزاکتیں اور منسلک ہستیوں کی جلالت اس قدر ہے کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑجائیں۔

بس میں بیٹھے،بس چلی ،ایئرپورٹ سے نکلی اور مدینہ پاک کی سڑکوں پر رواں ہوئی ۔ایسا ہی ہوتا ہوگا،ہر سفر میں ،اور ہر مسافر کے ساتھ۔مگر میرے ساتھ یہ سب نیا اور حیران کُن تھا، اندیشوں اور خوف کے حاوی احساسات و خیالات کے عالم میں اب تک کا ہر سفری قدم سراسر اللہ کی خاص عنایت و رحمت کا ہی مظہر تھا مگر اللہ کی رحمت کے خاص ترین آثار تب نظر آئے۔جب دور جدید کی ناقۂ تیزگام ہمیں اپنے دامن میں سمیٹےحدودِ دیار محبوب میں داخل ہوئی۔ یہ ایک موڑ تھا۔بس جہاں سے مُڑی، بس وہیں سے قسمت بھی مُڑی، جہاں سے دل بھی پلٹا،لرزا،تڑپا، اور ۔۔قلب و نظر میں بیک وقت ایک آگ بھڑکی اور ٹھنڈک و برودت کے جھونکے موجزن ہوئے۔لَپٹوں اور جھونکے اتنے سرمست و سربلند ہوئے کہ آنکھوں تک جا پہنچے اور بے اختیار بہنے بھی لگے۔

یہ ایک موڑ بھی تھا۔۔اور ایک نہیں کئی آوازیں بھی تھیں۔ وہ آگئے آقا کے در کے مینار۔وہ دیکھو وہ رہے۔جنۃ البقیع کے جنگلے کے موڑ کے اس پار۔ وہ رہے اللہ کی رحمت کے آثاراور وہ رہا سبز گنبد۔ کیا دلکش و دلنشیں آوازیں تھیں،جو بس کی دائیں جانب سے اٹھیں۔ کہ بائیں جانب کے عازمین حج بھی یکبارگی تڑپ کر دائیں جانب آ گئے اور جھک کر ،بس کے شیشوں سے جھانکتے ہوئے" اللہ کی رحمت کے آثار" دیکھنے لگے۔ محمد علی ظہوری کی معروف نعت کے بول تو بارہا سنے تھے۔حرف حرف تعبیر آج ملی۔

جب مسجد نبویﷺ کے مینار نظر آئے
اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے

منظر ہو بیاں کیسے ، الفاظ نہیں ملتے
جس وقت محمدﷺ کا دربار نظر آئے

بس یاد رہا اتنا سینے سے لگی جالی
پھر یاد نہیں کیا کیا انوار نظر آئے

دکھ درد کے ماروں کو غم یاد نہیں رہتے
جب سامنے آنکھوں کے غم خوار نظر آئے

مکے کی فضاوں میں، طیبہ کی ہواؤں میں
ہم نے تو جدھر دیکھا سرکارﷺ نظر آئے

چھوڑ آیا ظہوری میں دل و جان مدینے میں
اب جینا یہاں مجھ کو دشوار نظر آئے

یہ ظہر کا آخری اور عصر کا ابتدائی وقت تھا۔سورج کی کرنیں کچھ زیادہ سنہری ہو رہی تھیں۔ہمارے مَن کی سیاہی دھیرے دھیرے دُھل رہی تھی۔تَن کا سورج مغرب کی طرف جھک چکا تھا،اور من کا سورج بلند ہورہا تھا۔ سب نے مدتوں سے دل میں محفوظ رکھی تصویر کو مجسم سامنے پاکر نظروں ہی نظروں میں چومنا شروع کردیا۔دل کے ارماں آنسوؤں کی صورت بہنے لگے۔اس چند لمحاتی ایک منظر سے کچھ دل کی آلائشیں بھی دور ہوئیں اور کچھ آنکھیں بھی دُھل گئی کہ یار کا اصل دیدار تو ہونا تھا ابھی۔میں نے بلامبالغہ دلِ بے قابو کو پکڑا،سنبھالا اور سبز گنبد تلاشنا شروع کیا۔یہ فقط چند لمحے تھےمگر زندگی بھر پر بھاری اور زندگی بھر سے قیمتی۔ان ہی چند لمحوں میں وہ سعید ترین لمحہ بھی تھا ،جب سبز گنبد کی ایک جھلک مقدر کا ستارہ بنی۔

جناب حفیظ تائب کا نعتیہ شعر یاد آگیا ۔

ایک شیریں جھلک ایک نوری ڈھلک
تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبی

یہ شیریں جھلک اور نوری ڈھلک ابھی انکھوں میں بسنے بھی نہ پائی تھی کہ بس مڑگئی اور اللہ کی رحمت کے آثار گناہگار آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔روئے زمین کا پاکیزہ ترین منظر دیکھنے کے بعد اب مدینے کی گلیوں ،سڑکوں اور بلند و بالا عمارتوں کے مناظر آنکھوں میں کہاں جَچنے تھے۔ گنتی سے بھی کم چند لمحوں کی یہ کیفیت اگلے دس بارہ منٹ تک بے خودی اور سرشاری سے مملوء رہی۔بس میں ہر سمت عجیب سرخوشی اور خاموشی چھائی رہی ۔اس خاموشی میں اک گہرا اضطراب تھا، اقبال کی دعا پوری ہوچکی تھی۔ہر شخص کا بحر مضطرب امواج سے لبریز تھا،اک عجیب طوفان خاموش جسموں سے برآمد ہونے کو تیار تھا۔

یہ کیفیت تب ٹوٹی جب بس کی بس ہوگئی۔اس کی بریکوں نے ہر کسی کو سوچوں کے بحر امواج و اضطراب سے نکالا۔دیار نبی ص کے مسافروں کا عارضی ٹھکانہ آگیا تھا۔ ہم سامان لیئے ایک شاندار ہوٹل کے دروازے پر کھڑے تھے۔ہوٹل تو شاندار ہی ہونا تھا،کہ ہم دربار نبی ص کے گدا تھے،آقا کے بلاوے اور اذن، بلکہ حکمِ حضوری کے تابع تھے ۔اور اس کے شہر میں تھے۔ ہوٹل بھی اللہ کی رحمت کا ایک منظر تھا۔ مگر ٹہریئے۔۔۔ بتاتے ہیں کیسے؟؟ ہوٹل، اس کا کمرہ، آسائشیں، کھانے، ماحول نہ ہمارا مطمح نظر تھا، نہ منزل مراد۔ عجیب ہیں وہ لوگ جو حرمین کے جوار میں ہزاروں میل کا سفر کرکے ،پہنچ کر پرتعیش کمروں اور انواع و اقسام کے کھانوں میں لطف اور سکون ڈھونڈتے ہیں۔ تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا۔

تو سنیئے۔ہوٹل کیسے بنا،ہمارے لیئے اللہ کی رحمت کا نشان اور ہم عاجزوں پر اس کا ایک اور احسان۔جب ہم کمرے میں ایڈجسٹ ہوگئے ۔تین ہم، بیگم،بیٹا اور میں اور دو اور ساتھی، ایک قاری شاہد صاحب اور دوسری ان کی اہلیہ . ان کا تعلق بھی فیصل آباد سے ہی تھا۔ ذرا سستانے کے لیئے بیڈ پر لیٹے ہی تھے۔ٹی وی پر حرمین چینل لگا ہوا تھا کہ اچانک مسجد نبوی کی مانوس ٹھنڈی اور مانند آب رواں اذان گونجنے لگی۔دو یا تین سیکنڈ کےوقفے سے وہی کلمات دوبارہ دوہرائے جانے لگے۔میں سمجھا شاید کسی ٹیکنیکل فالٹ کی وجہ سے آواز پلٹ کر آرہی ہے۔ باہر نکل کر کسی سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ کہنے لگایہ مسجد نبوی کی اذان ہے جو براہ راست بھی آرہی ہے اور ٹی وی کے ذریعے بھی۔میں نے تڑپ کر پوچھا۔مسجد الرسول ص کہاں ہے؟ کہنے لگا۔کھڑکی کا پردہ ہٹاؤ۔

میں نے پردہ ہٹایا تو مسجد کی دیوار اتنی قریب کہ کھڑکی سے ذرا ہاتھ لمبا کروں ،تو دیوار کو چھولے۔دوسری جانب دیکھا تو اللہ اللہ کے رحمت کے صرف آثار نہیں۔نظارے ہی نظارے۔ یہ مغرب کی اولین اذان تھی۔فوراً وضو کیا اور بھاگے مسجد کی جانب جو تقریباً سو قدم کے فاصلے پر تھی۔غالباً گیٹ نمبر پانچ، جہاں ہسپتال ہے۔اس سے آگے سیدھاباب السلام. گویا آقا ص نے اپنے قدموں میں لا ٹِکایا تھا،اس ناہنجار کو آقا ص کے اتنا قریب، یوں سمجھ لیجیئے کہ اذان شروع ہو،اور ہم وضو کرچکیں اور پہلے "حی علی الصلاۃ " پر ہوٹل سے باہر قدم رکھیں تو دوسرے "حی علی الفلاح " پر مسجد کے اندر اور سامنے سبز گنبد پاکر تیز قدم دھیمے ہوجائیں ،تو آپ اذان اور اقامت کے وقفے میں صف میں جا شامل ہوں۔ اللہ کی رحمت کے آثارِ اور کیا ہوں گے۔ آغاز سفر سے مسجد نبوی میں پہلے قدم رکھنے تک ۔ ہر قدم اللہ کی رحمت کا مظہر اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایت ہی تو تھے۔

پہلی حاضری اور پہلا سلام، منظر ہو بیاں کیسے؟؟نہ تابِ سخن ہے ، نہ جرأت اظہار اور نہ قوتِ بیان ...مگر روداد اس سفر سعادت کی بیاں تو ہوگی ضرور کہ یہ محبت کا تقاضا اور روح کی سرشاری و بالیدگی کا نسخہ کیمیا ہے۔مگر کب؟ مجھے بھی خبر نہیں!!

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ فیصل آباد ہیں۔ ڈائریکٹر کالجز، گورنمنٹ کالج سمن آباد کے ریٹائرڈ پرنسل اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق چیئرمین شعبہ عربی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے 30 سال کا تعلق ہے۔ بطور مقرر قومی پروگرام ۔۔حی علی الفلاح۔ سلسلہ "قر ان حکیم اور ہماری زندگی۔ نشری تقاریر پر مشتمل چھ کتب ''قول حسن، قول سدید، قول مبین، قول مجید، قول کریم اور قول حکیم شائع ہو چکی ہیں۔ دو کتب قول فصل اور قول کریم زیر ترتیب ہیں۔ ترکی جو میں نے دیکھا کے نام سے سفرنامہ شائع ہو چکا ہے۔ خود نوشت ''یادوں کا دریچہ'' زیرقلم ہے

Click here to post a comment