آج غزہ کی حالت پر نظر ڈالتے ہوئے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنی انسانیت کو بھول چکے ہیں؟ غزہ کی سرزمین خون میں ڈوبی ہوئی ہے، معصوم بچے بمباری کی زد میں آ کر اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں، مائیں اپنے جگر گوشوں کی لاشوں کو دفن کر رہی ہیں، اور بڑے اپنے خوابوں کا خون ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ غزہ کے یہ مظلوم لوگ اپنی زندگیوں کی آخری امیدیں کھو چکے ہیں، لیکن عالمی برادری، اور خاص طور پر وہ ریاستیں جو اپنے آپ کو انصاف اور انسانیت کا علمبردار سمجھتی ہیں، ان کی آواز سننے کے لیے تیار نہیں۔
أنس الشریف، غزہ کے ایک مشہور صحافی، نے حال ہی میں ایک ٹویٹ کی جو دل دہلا دینے والی تھی:
"ہمیں معاف کرنا، ہم نے اپنی آہ و بکا سے تمہیں پریشان کیا، دراصل ہم ذبح ہو رہے تھے اور مر رہے تھے، یہ ہماری غلطی تھی!"
یہ الفاظ غزہ کے عوام کی بے بسی اور ان کے درد کا گہرا اظہار ہیں۔ غزہ کے لوگ اس وقت عالمی برادری سے انصاف کی امید رکھتے ہیں، لیکن جب وہ نظر آتا ہے کہ ان کے درد کے باوجود کسی بھی طاقتور ریاست کا ردعمل نہیں آ رہا، تو یہ ایک سوال بن جاتا ہے کہ کیا انسانیت واقعی زندہ ہے؟
اسی دوران، غزہ کی ایک خاتون کی وائرل ویڈیو میں ان کا رونا اور یہ کہنا کہ:
"اے اللہ کے رسول، عربوں کی شفاعت نہ کیجئے گا!"
یہ ایک دل کی پکار ہے، جو دنیا کے ہر حصے میں سنی جا رہی ہے۔ غزہ کے لوگوں کی یہ پکار دراصل اس بات کا اظہار ہے کہ وہ عالم اسلام کے حکمرانوں کی بے حسی سے مایوس ہو چکے ہیں۔ یہ سوال اس وقت سامنے آ رہا ہے کہ ہم کس طرح ایک مسلمان ملک میں رہتے ہوئے اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لیے آواز اٹھانے کا حوصلہ نہیں رکھتے؟
یہ سوال صرف عالمی برادری کا نہیں، بلکہ ہماری اپنی ریاست کا بھی ہے۔ ہم پاکستانی قوم ہیں، اور ہمیں ہمیشہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہمارا دل فلسطین کے لیے دھڑکتا ہے۔ لیکن کیا ہماری ریاست نے غزہ کے مظلوم عوام کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں نے ان کے درد کو محسوس کیا ہے؟ کیا ہماری حکومت نے اپنے عالمی تعلقات کی بنیاد پر اس معاملے میں انصاف کے لیے آواز اٹھائی ہے؟ یا ہم بھی اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ دوسروں کے دکھ درد کو اپنے فائدے کی سیاست کے لیے نظر انداز کر رہے ہیں؟
آج جب غزہ کے لوگ اپنی زمین پر ذبح ہو رہے ہیں، جب ان کے بچے ان بموں کی زد میں ہیں، تو ہم نے اپنے ضمیر کو کہاں دفن کر لیا ہے؟ غزہ کے لوگ ہماری مدد کے لیے پکار رہے ہیں، لیکن ہماری ریاست کے حکمران یا عوام میں سے کسی نے ان کی مدد کے لیے آواز نہیں اٹھائی۔ ہم اپنی دنیا میں مگن ہیں، عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، اور ہمیں غزہ کے مسلمانوں کے دکھوں سے کوئی غم نہیں۔ ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ وقت ہمارے ضمیر کا امتحان ہے؟
یاد رکھیں، یہ وقت ہم پر بھی آ سکتا ہے۔ اگر ہم آج غزہ کے مظلوموں کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے، تو کل ہمیں اس خاموشی کا جواب دینا پڑے گا۔ ریاست کا بنیادی فرض عوام کی فلاح اور ان کی حفاظت ہے، لیکن جب ریاست اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو جائے، تو وہ عوام کے لیے ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ غزہ کے مسلمان ہمیں اپنے خون سے ایک پیغام دے رہے ہیں، اور ہماری ریاست اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم ایک دن اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ کیا ہم اس وقت یہ جواب دیں گے کہ ہم نے اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے درد کو نظر انداز کیا؟ غزہ کی آواز کو نظر انداز کرنا ہماری انسانیت کے لیے ایک سنگین دھچکا ہوگا۔
آج وقت ہے کہ ہم اپنے ضمیر کو جگائیں، غزہ کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں اور اپنی ریاست سے مطالبہ کریں کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائے۔ ہمیں غزہ کے عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، تاکہ عالمی برادری اور ہماری اپنی ریاست یہ جان سکے کہ انسانیت اب بھی زندہ ہے، اور جب تک ہم غزہ کے ساتھ کھڑے ہیں، اس آواز کو خاموش نہیں ہونے دیں گے۔
یہ وقت غزہ کے مسلمانوں کے درد کا حصہ بننے کا ہے، ان کے دکھوں میں شریک ہونے کا ہے۔ ہم نہیں بھول سکتے کہ یہ ایک عالمی جنگ نہیں، بلکہ انسانیت کی جنگ ہے، اور ہم سب اس جنگ کا حصہ ہیں۔
تبصرہ لکھیے