اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
بچپن میں "بارش کا پہلا قطرہ" کے عنوان سے کہانی پڑھا کرتے تھے، جہاں ایک ننھا سا قطرہ اس ڈر سے برستا نہیں کہ مجھ جیسے ننھے قطرے کے زمین پر گرنے سے گرمی سے سوکھی زمین کی پیاس بھلا کیا خاک بجھے گی؟ مگر پھر وہ ایک قطرہ ہمت کر کے زمین کی پیاس بجھانے کو جب برستا ہے تو اس کی دیکھا دیکھی باقی تمام ننھے ننھے قطرے (جو اسی کی طرح اپنی کم مائیگی کا سوچ کر برسنے سے احتراز برت رہے ہوتے ہیں) بھی زمین کا رخ کرتے ہیں، تو موسلا دھار بارش کا روپ دھار لیتے ہیں، اور پھر اس موسلا دھار بارش سے پیاس سے چٹختی زمین سیراب ہونے لگتی ہے۔ آج جب اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے وہ تو بس ایک کہانی تھی. ہاں۔۔ بس ایک کہانی۔۔۔جس کا آج کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
آپ اسی نوجوان کو ہی دیکھ لیجیے۔۔ ایک ماں کے اصلی شیر جوان بیٹے کو۔ایک سچے اور عملاً ہیرو کو۔۔ اتنی بڑی بھیڑ میں یہ ایک اکیلا نوجوان تھا جس نے ہمت جرات دکھائی ۔ وہ بارش کا پہلا قطرہ شاید یہ سوچ کر بنا ہو کہ میں بارش کا پہلا قطرہ بنوں گا تو پیچھے جمع ہوئی بھیڑ کا ایک ایک پیر و جوان باہر نکل آئے گا جیسے فلموں میں عموماً دکھایا جاتا ہے۔ اور یوں ہم سب مل کر موسلا دھار بارش کی طرح ان نام نہاد شرفاء پہ برس پڑیں گے اور ان کی دادا گیری خاک میں مل جائے گی۔
ہو سکتا ہے اس نے بھی یہی سوچا ہو کہ سب میری طرح اکیلے ہونے کے خوف میں مبتلا ہوں گے. شاید ہر شخص اپنی اپنی جگہ یہ سوچ کر آگے نہیں بڑھ رہا کہ میں اکیلا ان کا مقابلہ کیسے کروں؟ تو کیوں نہ میں بارش کا پہلا قطرہ بن جاؤں. میری دیکھا دیکھی سب کو ہمت ملے گی توــــــــ. مگر نہیں۔۔۔یہ اس کی خام خیالی تھی۔ ایک نہتا جوان اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور اور تعداد میں کہیں زیادہ ،اسلحے سے لیس بدمعاشوں سے بھڑ گیا مگر افسوس اس قحط الرجال پہ جہاں ایک بھی مرد کا بچہ نہیں نکلا اتنی ساری بھیڑ میں۔ گاڑیوں میں دبکے بیٹھے کسی ایک نے بھی قدم باہر نہیں نکالا کہ یہ جو ایک جوان ہم سب کےلیے جان ہتھیلی پر رکھ کر بےخطر کود پڑا ہے بدمعاشوں سے پنگا لینے اور وہ سب مل کر اس پہ پل پڑے ہیں، خدانخواستہ وہ اسے جان سے بھی مار سکتے ہیں، تو کم از کم ہم اب تو نکل آئیں اس کی حفاظت کےلیے۔
سب جانتے ہیں کہ ایک اکیلا تو دو گیارہ ہوتے ہیں. اب بتایئے آپ، کیا ہم اب بھی یہ نہ کہیں کہ ہم بدترین قحط الرجال سے گزر رہے ہیں۔ آپ ایسے مردوں کو جو آپ کو سڑک پر چوہوں کی طرح بل میں گھسے نظر آ رہے ہیں، کبھی اپنے سے کمزور سے معاملات کرتے دیکھیں۔ وہاں ان کی غراہٹ دیکھنے والی ہو گی، مگر جہاں مردانگی دکھانے کی ضرورت ہو گی وہاں چوہے بن جائیں گے۔ ایسے بزدل مرد کہلانے کے حقدار نہیں بلکہ "زنخے" کہلانے کے مستحق ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کچھ دن پہلے بھی ہم اسی نوعیت کے ایک موضوع پہ بات کر رہے تھے کہ مجموعی طور پر ہم بےحس ہو چکے ہیں۔ کہیں بھی ہوتے ظلم زیادتی کو روکنے کی کوشش بھی نہیں کرتے بار آوری تو بعد کی بات ہے۔ ایسے میں بارش کا پہلا قطرہ بننے کی ہمت کوئی ایسا ہی باہمت ،نڈر ،جانباز ،شیر جوان کر سکتا ہے جیسا یہ نوجوان۔ سیلیوٹ ٹو یو جوان۔ خدا تمھاری حفاظت فرمائے. آمین
تبصرہ لکھیے