ہوم << موسمیاتی تبدیلی: ایک سنگین مسئلہ - اقرا رزاق

موسمیاتی تبدیلی: ایک سنگین مسئلہ - اقرا رزاق

دنیا کے فطری نظام میں جاری غیر متوازن تبدیلیاں آج کے دور کا ایک نازک مسئلہ بن چکی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی نہ صرف ہمارے روزمرہ کے معمولات پر اثر انداز ہو رہی ہے بلکہ کرۂ ارض کے حیاتیاتی ڈھانچے کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔یہ تبدیلیاں بنیادی طور پر صنعتی انقلاب کے بعد تیز ہوئیں، جب کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر زہریلی گیسوں کے اخراج نے کرۂ ارض کی فضا کو آلودہ کر دیا۔ درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ، برفانی تودوں کا پگھلنا، غیر متوقع بارشیں اور شدید طوفان ان ہی عوامل کا نتیجہ ہیں۔ انسانی بے احتیاطی اور قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنا رہے ہیں۔جب فطرت کی روانی میں انسان اپنی مداخلت کے چراغ جلاتا ہے، تو زمین نوحہ کناں ہو جاتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی محض ایک سائنسی اصطلاح نہیں بلکہ ایک کربناک حقیقت ہے جو ہماری زمین کے توازن کو بگاڑ چکی ہے۔یہ وہ بلا ہے جو انسانی بے حسی اور لالچ کے ہاتھوں پروان چڑھی۔ صنعتی دھواں، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، کارخانوں کی آلودگی اور معدنی وسائل کی وحشیانہ لوٹ مار نے فضا کو زہر آلود کر دیا۔ سورج کی تمازت بے قابو ہوتی جا رہی ہے، برفیلے پہاڑ اپنے وجود سے محروم ہو رہے ہیں، سمندر بپھر رہے ہیں، ہوائیں بے سمت ہو چکی ہیں اور بادل اپنی فطرت سے روگردانی پر مجبور ہیں۔ یہ سب وہ نشانیاں ہیں جو ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں، مگر شاید ہم نے اپنی سماعتیں بند کر رکھی ہیں۔موسمیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ نقصان ان خطوں کو ہو رہا ہے جہاں زراعت اور پانی کے ذخائر پہلے ہی محدود تھے۔ فصلوں کی پیداوار متاثر ہونے سے خوراک کی قلت پیدا ہو رہی ہے، جبکہ سمندری سطح میں اضافے کے باعث کئی ساحلی علاقے زیرِ آب آنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی، تیز رفتار شہری ترقی اور صنعتی فضلہ زمین کی زرخیزی کو بھی ختم کر رہے ہیں۔زمینی درجہ حرارت میں اضافہ اب محض ایک مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے جو قحط، طوفان، سیلاب اور خشک سالی کی صورت میں ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ کھیت بنجر ہو رہے ہیں، دریاؤں کے سینے سکڑ رہے ہیں، چرند و پرند اپنے مسکن چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ انسانی بستیاں یا تو پانی میں ڈوب رہی ہیں یا دھوپ میں جھلس رہی ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود ترقی کے نام پر زمین کی کوکھ اجاڑی جا رہی ہے، اس کی سانسوں کو زہر آلود کیا جا رہا ہے اور اس کے سبز پیرہن کو تار تار کیا جا رہا ہے۔

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اگر زمین کا سبز آنچل ہی نہ رہا تو ہم کہاں جائیں گے؟ اگر بادل روٹھ گئے، ہوا زہریلی ہو گئی، پانی ناپید ہو گیا، تو زندگی کی کون سی شکل باقی بچے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہمیں خود سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں ماحول دوست توانائی کے ذرائع کو فروغ دینا ہوگا، پودے لگانے کی عادت اپنانا ہوگی اور غیر ضروری آلودگی پھیلانے والے عناصر پر قابو پانا ہوگا۔ اس کے علاوہ، ترقی یافتہ ممالک کو اپنی صنعتی سرگرمیوں میں کمی لانی چاہیے اور ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تحفظ کے لیے جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنی چاہیے۔اگر ہم نے آج اس مسئلے کا سدِ باب نہ کیا تو آنے والی نسلیں شدید مشکلات کا سامنا کریں گی۔ موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے عملی اقدامات ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے، ورنہ یہ زمین، جو کبھی جنت تھی، ایک ناقابلِ رہائش مقام میں بدل جائے گی۔اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی روش بدلیں، زمین سے معافی مانگیں اور اس کی بقا کے لیے عملی اقدامات کریں۔ مصنوعی ترقی کے بجائے پائیدار ترقی کو فروغ دینا ہوگا، درختوں کو بچانا ہوگا، توانائی کے متبادل ذرائع اپنانے ہوں گے اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنی ہوگی۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ زمین، جو کبھی ماں تھی، ہمیں اپنی گود سے نکال باہر کرے گی۔

Comments

Click here to post a comment