ہوم << حجاب بطور فیشن؛ کیا یہ لائق تحسین ہے؟ حمیراعلیم

حجاب بطور فیشن؛ کیا یہ لائق تحسین ہے؟ حمیراعلیم

اکثر خواتین خصوصا نوجوان لڑکیاں حجاب میں نظر آتی ہیں۔کچھ انٹرنیشنل لیول کی مسلم ماڈلز، ایتھلیٹس ، سنگرزاور اہم عہدوں پر تعینات خواتین بھی حجابی ہیں۔یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز بھی ایسی ہیں جو اسکارف اور عبایا استعمال کرتی ہیں۔ میڈیا خصوصا مسلم ممالک میں ان کے حجاب کو سراہا جاتا ہے۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ بات لائق تحسین ہے؟

قرآن کہتا ہے مسلم خواتین نامحرم مردوں سےاپنی زینت چھپائیں حتی کہ غیر مسلم عورتوں کے سامنے بھی ستر نہ کھولیں۔زینت میں لباس، میک اپ جیولری آتے ہیں۔ اگر نامحرم سے کوئی چیز لینی ہی ہو تو پردے کے پیچھے سے لیں۔ ہم پردے کے پیچھے سے چہرہ اور ہاتھ نکال کر چیز نہیں لیتے بلکہ صرف ہاتھ بڑھا کر لیتے ہیں ۔حدیث حجاب کا مطلب سر سے لے کر پاوں تک جسم کو یوں ڈھانپنا بتاتی ہے کہ صرف ایک آنکھ کھلی ہو باقی جسم ڈھکا ہوا ہو۔ لباس ایسا ہو کہ جسم کے خدوخال ظاہر نہ ہوں۔اور سر پر بالوں کو ایسے باندھنے سے منع کیا گیا ہے کہ اونٹ کے کوہان کی طرح لگیں۔

ذرا آج کل کی حجابیز پر نگاہ دوڑائیں تو فل میک اپ، تنگ، کڑھائی والے، رنگین، شوخ، سجے ہوئے، مختلف ڈیزائنز کےعبایا کے ساتھ بالوں کا اونچا جوڑا اور اگر بال چھوٹے ہوں تو خاص کلپس لگائے جاتے ہیں جن پر بنز یا پھول بنے ہوتے ہیں جو اس کوہان کو بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔اسکارف کے نت نئے ڈیزائنز اور اسٹائلز ہوتے ہیں۔جن خواتین نے چہرہ ڈھانپ رکھا ہوتا ہے ان کی کاجل بھری آنکھوں ، کمان دار آئی بروز ، آئی شیڈزکو دیکھ کر انسان ان کی خوبصورتی کے تصور میں کھو جاتا ہے۔ ایک سنگر ایسی بھی ہیں جو چہرہ تو ماسک کے پیچھے چھپاتی ہیں لیکن سر سمیت باقی جسم دعوت نظارہ دیتاہے۔

پرفیوم کے جھونکے، پاؤں میں جھنکتی پازیب، چوڑیوں کی کھنک اور ہاتھوں کی مہندی ، انگوٹھیاں حجاب سے زیادہ بے حجابی ہوتی ہے۔ ایتھلیٹس اورماڈلز سر کے بال یوں کور کیے ہوتی ہیں کہ ایک بال دکھائی نہیں دیتا لیکن لباس ایسا ہوتا ہے کہ انگ انگ دکھائی دے۔کچھ ماڈرن حجابیز نے اسکارف یوں اوڑھا ہوتا ہے کہ سر کے درمیانی حصے پر پٹی سی دکھائی دیتی ہے سامنے اور پچھلے حصے کے بال خوبصورت کرلز، لٹوں یا دیگر اسٹائلز میں چہرے کی رونق بڑھا رہے ہوتے ہیں۔اور چند نے اسکارف یا دوپٹے کو سر پر ایسے منڈھا ہوتا ہے جیسے ہماری بڑی بوڑھیاں گھر کے جالے اتارتے وقت دوپٹہ سر پر لپیٹتی تھیں۔جب نہ جسم ڈھک رہا ہو نہ چہرہ اور صرف سر کو پورا یا آدھا کور کیا جائے تو یہ وہ حجاب نہیں جس کاحکم اللہ نے دیا ہے بلکہ فیشن ہے۔جو خواتین اللہ کے حکم کے مطابق حجاب اوڑھتی ہیں ان کی آنکھیں، چہرہ میک اپ سے عاری، آئی بروز نیچرل شیپ میں، گاون بالکل سادہ ہلکے یا گہرے رنگوں کے ( شوخ نہیں ڈل) اسکارف سر چہرہ اور سینہ ڈھانپے ہوئے، ہاتھ میں گلوز اور اگر گلوز نہ ہوں تو ہاتھ بالکل سادہ، پاوں بھی کور ہوتے ہیں۔کیونکہ ان کا مطمع نظر اپنے آپ کو نامحرموں سے چھپانا اور اللہ کا حکم پورا کرنا ہوتا ہے۔

اس لیے فیشن کے طور پر اور صرف بال کور کرنے والی خواتین کو حجابی کہنا درست نہیں۔کیونکہ ان کا حجاب اس وقت اتر جاتا ہے جب فیشن پرانا ہو جاتا ہے یا ان کا دل اس سے بھر جاتا ہے۔اگر ایسی حجابیز کھیل کے میدان یا ریمپ پر نت نئے ڈیزائنز کے لباس پہنے کھیل یا واک کر رہی ہوں تو ان کو سر کور کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرنی چاہیے۔جہاں ان کی زینت کےنظارے معاف ہو جائیں گے وہاں کھلا سر بھی بخشا جائے گا اس بےچارے کا کیا قصور ہے کہ اسے سزا کے طور پر باندھ دیا جائے ۔یا تو مکمل حجابی بنیے یا پھر بال بھی کھلے رہنے دیجئے۔ کیونکہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا کے مصداق آپ نہ حجابی ہے نہ ہی سوکالڈ ماڈرن فیشن ایبل۔

Comments

Avatar photo

حمیرا علیم

حمیراعلیم کالم نویس، بلاگر اور کہانی کار ہیں۔ معاشرتی، اخلاقی، اسلامی اور دیگر موضوعات پر لکھتی ہیں۔ گہرا مشاہدہ رکھتی ہیں، ان کی تحریر دردمندی اور انسان دوستی کا احساس لیے ہوئے ماحول اور گردوپیش کی بھرپور ترجمانی کرتی ہیں۔ ایک انٹرنیشنل دعوی تنظیم کے ساتھ بطور رضاکار وابستہ ہیں اور کئی لوگوں کے قبول اسلام کا شرف حاصل کر چکی ہیں۔ کہانیوں کا مجموعہ "حسین خواب محبت کا" زیرطبع ہے

Click here to post a comment