ہوم << برفی کی برسات -عبیداللہ کیہر

برفی کی برسات -عبیداللہ کیہر

میں ایک ایسا سیاح ہوں جو ریل گاڑی، بس، کار اور ہوائی جہاز کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکل پر بھی سیاحت کرتا ہوں۔ 2021ء میں مَیں ہفتے بھر کے بائک ٹور پر اسلام آباد سے جہلم، گجرات اور گوجرانوالہ ہوتا ہوا لاہور تک گیا۔ جرنیلی سڑک پر اس سفر میں مَیں کئی مقامات پر گیا، دوستوں سے ملا، مہمان نوازیوں کے مزے لئے، شہر شہر کے کھانے کھائے اور وہ ہفتے بھر کا دورہ کر کے سال بھر کیلئے تازہ دم ہوگیا۔

میں اسلام آ باد سے صبح کو نکلا اور روات، مندرہ، گوجر خان، سوہاوہ، دینہ ، جہلم اور سرائے عالمگیر سے ہوتا ہوا شام تک کھاریاں پہنچ گیا۔ کھاریاں کے قصبے مَنڈیر میں اوورسیز اسکول کے سربراہ چوہدری عبدالمجید صاحب میرے میزبان تھے، رات انہی کے ہاں قیام کیا ۔ اگلی صبح بھرپور ناشتہ کر کے نکلا تو دس بج چکے تھے۔ میں نے سوچا کہ ناشتہ ہی اتنا مرغن ہو گیا، اب دوپہر کا کھانا نہیں کھاؤں گا۔ اس دوران اگر کچھ بھوک لگی بھی تو کوئی ہلکی پھلکی چیز کھا لوں گا۔

میرے دوست احباب جانتے ہیں کہ میں مٹھائی کا بڑا شوقین ہوں۔ اسلام آباد میں تو کوئی خاص مٹھائی نہیں ملتی، البتہ پنجاب کے اکثر شہروں میں بہت اعلیٰ مٹھائی ملتی ہے۔ میں چونکہ اس وقت پنجاب میں ہی گھوم رہا تھا اور اچھی مٹھائیوں کے علاقے میں داخل ہو چکا تھا۔ یہاں ہر مٹھائی، خصوصاً برفی بہت اچھی ملتی ہے۔ اس لئے سوچا کہ اب دوپہر میں کھانا کھانے کی بجائے کسی شہر سے اچھی سی برفی لے کر رکھ لوں گا اور جہاں بھوک لگی وہاں کھا لوں گا۔

بس یہ ایک خیال ہی تھا جو میرے دل میں آیا اور کچھ ہی دیر میں بھول بھی گیا۔ جب میں کھاریاں سے لالہ موسیٰ پہنچا تو میرے دوست عرفان صفی میرے استقبال کیلئے جی ٹی روڈ پر کھڑے تھے۔ قریب ہی ان کا اسکول ہے۔ وہ مجھے اپنے اسکول لے گئے۔ کچھ دیر وہاں گپ شپ ہوئی اور چائے پی۔ جب میں آگے جانے کیلئے اٹھا تو انہوں نے مجھے کتاب کا تحفہ پیش کیا۔ کتاب کے ساتھ پھولدار گفٹ پیپر میں لپٹا ہوا ایک بھاری سا ڈبہ بھی تھا۔میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو بولے :
”یہ ہمارے لالہ موسیٰ کی مشہور "نونا حلوائی" کی برفی ہے اور آپ کیلئے تحفہ ہے“

میں تو یہ سن کر حیران ہی رہ گیا۔ مجھے یاد آیا کہ ابھی کچھ دیر پہلے کھاریاں سے نکلتے ہوئے میں یہی تو سوچ رہا تھا کہ اب کھانا نہیں کھاؤں گا، برفی کھاؤں گا۔ لیکن حیرت یہ تھی کہ میری اس خواہش کا صفی صاحب کو کیسے پتہ چلا؟ … یعنی دل کو دل سے راہ والا معاملہ ہو گیا۔ میں نے بڑا شکر ادا کیا کہ میری ایک معصوم سی خواہش کے بدلے میں اللہ نے برفی کی اتنی بڑی مقدار فراہم کروا دی کہ جو میں پوری کھاہی نہیں سکتا تھا۔ میں نے صفی صاحب سے کہا کہ یہ تو بہت زیادہ ہے۔ اول تو میں اتنی برفی کھا ہی نہیں سکوں گا، دوم یہ کہ میرا رخ بھی اپنے گھر کی طرف نہیں کہ یہ ساتھ گھر لے جاؤں۔
”کوئی بات نہیں“ صفی صاحب نے قہقہہ لگایا۔ ”دورانِ سفر دوستوں کو کھلاتے چلے جائیں“

خیر میں نے وہ برفی کا ڈبہ بھی بائک پر سامان کے ساتھ باند ھ لیا اور لالہ موسیٰ کے دیگر دوستوں سے مل کر آگے روانہ ہوا۔ میں اپنے اس سفر کے حوالے سے وقتاً فوقتاً فیس بک پر تصاویر اور اسٹیٹس بھی شیئر کرتا جا رہا تھا۔ میرے اکثر دوست میری پوسٹوں کو فالو کر رہے تھے اور میرے سفر سے باخبر تھے۔

اب اگلا شہر گجرات تھا۔ کنجاہ ضلع گجرات کا بڑا معروف قصبہ ہے۔ کنجاہ ایک مردم خیز شہر ہے۔ یہاں کے ادیبوں اور شعراء کی ملک بھر میں دھوم ہے۔ یہ میجر شبیر شریف شہید، شریف کنجاہی، روحی کنجاہی اور جنرل راحیل شریف کا شہر بھی ہے۔ کنجاہ میں ہمارے دوست عبدالرحمٰن ساہی بھی رہتے ہیں۔ میں لالہ موسیٰ سے نکلنے لگا تو اسی وقت عبدالرحمٰن ساہی کا فون آ گیا۔
”کیہر بھائی ہم آپ کا کنجاہ میں انتظار کر رہے ہیں، آپ ہم سے ملے بغیر آگے نہیں جا سکتے، ہماری شدید خواہش ہے کہ آپ کنجاہ آئیں اور ہم سے مل کر جائیں“
”عبدالرحمٰن بھائی مجھے آج لاہور پہنچنا ہے“میں بولا۔ ”وقت کم ہے اور سفر زیادہ“
”آپ فکر نہ کریں ہم آپ کا زیادہ وقت نہیں لیں گے، بس ہماری چائے پیتے ہوئے جائیں“ساہی نے اصرار کیا۔
میں سوچنے لگا کہ میں تو گھر سے نکلا ہی اس لئے ہوں کہ احباب سے ملتا ملاتا جاؤں، تو چلے جاتے ہیں کنجاہ بھی۔
”اچھا ٹھیک ہے جناب، آتا ہوں کچھ دیر کیلئے آپ لوگوں کے پاس بھی“
میں نے بائک اسٹارٹ کی اور جی ٹی روڈ پر رواں دواں ہو گیا۔

گجرات لالہ موسیٰ سے کچھ ہی دور ہے۔ گجرات شہر کے بائی پاس پر شاہین چوک والے پل کے نیچے سے ایک سڑک دائیں طرف کو جاتی ہے ۔ یہ سرگودھا روڈ ہے۔ اس روڈ پر یہاں سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پہ کنجاہ کا چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے۔ میں لالہ موسیٰ سے گھنٹے بھر میں کنجاہ پہنچ گیا۔ یہاں ساہی صاحب کے ساتھ دیگر کئی دوست بھی میرے منتظر تھے۔ زیادہ تر شعر و ادب کا ذوق رکھنے والے علم دوست حضرات تھے ۔ یہاں آ کر مجھے پتہ چلا کہ آج یہاں کے ادیب، شعراء اور صحافبوں نے میرے ساتھ شام منانے کا اہتمام کیا ہے اور اس شام کو ظاہر ہے کہ رات گئے تک جاری رہنا تھا۔ چنانچہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ آج کی رات یہیں کنجاہ میں ہی گزرجائے گی۔

”آپ آج رات یہاں رک جائیں۔ رات کو یہاں پر مشاعرہ ہوگا۔ صبح ناشتہ کر کے آرام سے لاہور چلے جائیے گا۔“ ساہی صاحب نے بھی اپنا پلان واضح کیا اور ہم بھی پسر گئے۔ ہم ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ابھی یہی باتیں کر رہے تھے کہ ایک دوست بشیر بٹ صاحب چائے کے آنے سے پہلے اٹھ کر اچانک کہیں چلے گئے۔ کچھ ہی دیر میں واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سا ڈبہ تھا۔ بٹ صاحب نے وہ ڈبہ لا کر سیدھا میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
”کیہر صاحب یہ آپ کیلئے ہے“
” یہ کیا ہے؟…“میں بولا۔
”یہ یہاں کنجاہ کے "کاکا حلوائی" کی مشہور برفی ہے، یہ میری طرف سے آپ کیلئے تحفہ ہے۔" وہ بولے۔
میں تو اچھل ہی پڑا۔
”لیکن میرے پاس تو پہلے ہی نونا حلوائی کی بہت ساری برفی موجود ہے“
”کوئی بات نہیں، ہماری برفی بھی اس میں شامل کر لیں اور مزے کریں“
بٹ صاحب نے قہقہہ لگایا اور میں ہکا بکا برفی کے اس تقریباً دو کلو کے ڈبے کو دیکھتا رہا۔

”برفی مجھے واقعی بہت پسند ہے“ میں بولا۔ ”اور اتفاق سے آج صبح کھاریاں سے نکلتے وقت میں نے سوچا بھی یہی تھا کہ آج تو برفی کھاؤں گا … تو دیکھیں کہ برفی کس طرح چھپر پھاڑکے آگئی ہے۔“
سب ہنسنے لگے۔
”بس آپ یہ اپنے ساتھ رکھیں، جتنی خود کھا سکتے ہیں کھائیں، بقیہ دوستوں کو کھلائیں اور وہاں سے جو دوسری چیز ملے وہ واپسی میں گھر لے جائیں۔ یہ برفی آپ کا زادِ راہ ہے۔“ عبدالرحمٰن ساہی نے ہنستے ہوئے کہا۔

تو جناب ہم جو نکلے کھاریاں سے یہ خواہش کرتے ہوئے کہ اب کھانا نہیں کھائیں گے برفی کھائیں گے، تو برفی کا ڈھیر لگ گیا۔ پہلے نونا حلوائی کی برفی ، اب کاکا حلوائی کی برفی۔ یہ برفیاں میرے ساتھ لاہور تک گئیں۔ راستے میں جو جو دوست احباب ملے ان کو یہ برفی کھلاتا گیا مگر ختم نہ ہوئی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میری ایک ننھی سی خواہش تھی برفی کھانے کی، اللہ نے برفی کی برسات کر دی۔

Comments

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر اردو کے معروف ادیب، سیاح، سفرنامہ نگار، کالم نگار، فوٹو گرافر، اور ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں۔ 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں عبید اللہ کیہر کی پہلی کتاب ”دریا دریا وادی وادی“ کمپیوٹر سی ڈی پر ایک انوکھے انداز میں شائع ہوئی جسے اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان نے ”اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب“ کا نام دیا۔ روایتی انداز میں کاغذ پر ان کی پہلی کتاب ”سفر کہانیاں“ 2012ء میں شائع ہوئی۔

Click here to post a comment