ہوم << مصطفی عامر قتل کی لرزہ خیز داستان - نیاز احمد کھوسہ

مصطفی عامر قتل کی لرزہ خیز داستان - نیاز احمد کھوسہ

مصطفے کی جلی ہوئی گاڑی اور اُس کی جلی ہوئی لاش بلوچستان کے علاقے دریجی سے مل گئی ہے. 12 فروری کو ملزم ارمغان کے جیل کسٹدی اور ایس ایس پی Avcc انیل حیدر کی مصطفے قتل کیس میں نااہلی کے بعد آئی سندھ جناب غلام نبی میمن صاھب نے ڈائریکٹر آئی بی سندھ جناب آزاد خان کو کہا کہ وہ اس کیس میں مدد کریں. جیساکہ جناب غلام نبی میمن صاحب خود ڈائریکٹر آئی بی سندھ رہ چکے ہیں، ان کو آئی بی افسران، خصوصی طور پر جمالی صاحب والوں کی Worth & Dedication کا پتہ ہے. جناب غُلام نبی میمن صاحب نے سندھ پولیس سے مایوسی کے عالم اور کراچی کی اشرافیہ کی بے چینی اور عدم تحفظ کے اثر کو زائل کرنے اور مصطفے کیس میں فوری پیش رفت حاصل کرنے کےلیے یہ فیصلہ کیا کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ان کے Pockect میں کیا ہے ؟

مصطفے کیس اتنا پیچیدہ کیس نہیں تھا مگر اس کو پیچیدہ اور مشکل ایس ایس پی Avcc انیل حیدر کی نااہلی اور کرپشن نے بنادیا. اب آپ کے سامنے ہے کہ آئی بی نے صرف دو گھنٹوں میں ارمغان کے دو ملازمین غلام مصطفی اور زوہیب کو Break کرلیا، اور 24 گھنٹوں کے اندر اندر غلام مصطفے اور زوہیب کی مدد سے اس کیس میں ارمغان کے اہم ساتھی شیراز کو اٹھا لیا، اور لاپتہ مصطفےامیر کی کار اور لاش تک پہنچ گئے- افسوس ہے کہ یہی ملزم مصطفٰے اور زوہیب پچھلےہفتہ یعنی 8 فروری سے انیل حیدر کے پاس VIP پروٹوکول میں KFC کھاتے رہے، اور تفتیشی افسر کے ذاتی کمرے میں سوتے رہے. حیرت انگیز طور اس کیس کا اہم ملزم ارمغان 48 گھنٹوں تک ایس ایس پی انیل حیدر کے پاس اپنی گرفتاری کو Enjoy کرتا رہا .

جج نے ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہیں دیا اور مبینہ طور کیس کے اہمیت اور سنگینی کو سمجھ نہ پایا ، غلط کیا. مگر دوسری طرف دیکھیں کہ وہی ملزم ارمغان 48 گھنٹوں تک اور زوہیب 5 دن تک Avcc کے پاس تھے تو Avcc نے کیا کرلیا ؟ اب اپنی نااہلی چھپانے کےلیے واویلا کررہے ہیں کہ ریمانڈ نہیں ملا. انھی ملزمان سے آئی بی نے دو گھنٹوں میں آگے چلنے کے لیے راستہ نکال لیا. یہ کام انیل حیدر بھی کرسکتا تھا، ایسا ہوتا تو اس کی کراچی پولیس میں کتنی عزت بن جاتی، مگر گٹکہ اور پان پڑی، اور منشیات کے بھتے انیل حیدر جیسی نئی نسل کے افسران کو اس حد تک لے آئے ہیں کہ ان کے آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کراچی کو ہزیمت اُٹھانی پڑ رہی ہے، اور اپنی عزت بچانے کےلیے انھیں مدد کی خاطر دوسرے محکموں کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے.

موجودہ ڈائریکٹر آئی بی آزاد خان جب 2008 میں ایس پی لانڈھی تھے، ایک اطلاع پر رات کو 4 بجے ایک کار روکنے کی کوشش کے دوران کار سواروں کی فائرنگ سےانھیں تین گولیاں لگیں، وہ زخمی ہوئے، پولیس کی جوابی فائرنگ سے جنداللہ کا قاسم طوری اپنے دو ساتھیوں سمیت مارا گیا. ایک طرف تو آزاد خان والی کل کی پولیس تھی، جس کا ایس پی اتنا Responsible تھا کہ جنوری کی ٹھنڈی رات میں 4 بجے اپنے گرم بستر میں سونے کے بجائے سڑک پر گولیاں کھا رہا تھا، اور دوسری طرف آج کی نااہل اور کاہل انیل حیدر والی پولیس ہے کہ شام کو 4 بجے بستر میں سویا ہوا ہے، اور اس کا ڈی ایس پی ڈیفنس میں زخمی ہورہا ہے. آپ خود موازنہ کرلیں کہ آج آپ اور ہم لوگ کن لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں؟

آئی بی کے افسران نے جب غلام مصطفے اور زوہیب کو انٹروگیٹ کیا تو انھوں نے ارمغان کے ایک قریبی دوست شیراز کا نام لیا اور بتایا کہ جس وقت کمرے میں فائر ہوئے تو شیراز، ارمغان اور مقتول مصطفے کمرے میں ایک ساتھ بیٹھے تھے. آئی بی اور CPLC نے غلام مصطفے اور زوہیب کی نشاندہی پر پہلے شیراز کے بھائی کو اٹھایا، اور پھر بھائی کی نشاندہی پر شیراز کو گلستان جوہر سے 13 فروری کو اٹھایا. دلچسپی اور شوق سے اگر کام کیا جائے تو اللہ پاک کی غیبی مدد بھی شامل ہوتی ہے. شیراز نے دوران انٹروگیشن آئی بی اور CPLC کو بتایا کہ واقعے والی رات بات کرتے کرتے ارمغان طیش میں آگیا اور ایک راڈ مصطفےا کو دے مارا. راڈ لگنے سے مصطفے زخمی ہوگیا، دیکھتے دیکھتے ارمغان نے پاس پڑی ہوئی رائفل اُٹھائی اور مصطفے پر چار فائر کردیے. اس کے بعد ارمغان اور شیراز نے مصطفے کے ہاتھ، پیر اور منہ پر ٹیپ لگائی اور اسے اٹھاکر اسی کی کار کی ڈگی میں ڈال دیا. مصطفے اس وقت زندہ تھا. ارمغان اور شیراز نے مصطفے کی کار بنگلے سے نکالی. کار میں بیٹھنے سے پہلے ارمغان نے اپنے گھر کے جنریٹر سے، جو پٹرول پر چلتا ہے، پٹرول سے بھرا ہوا ایک کین بھی کار کی پچھلی سیٹ پر رکھ دیا. ارمغان کار ڈرائیو کرنے لگا. یہ لوگ ماڑی پور سے ہوتے ہوئے حب پہنچے. حب سے آرسی ڈی ہائی وے سے ہوتے ہوئے جب یہ لوگ دریجی پہنچے تو سامنے روڈ کے ساتھ دریجی تھانہ، اور کچھ پولیس والے سڑک پر کھڑے نظر آئے، ارمغان نے کار واپس لے لی اور کچھ آگے جاکر کار کو روڈ سے نیچے اتار لیا. ارمغان اور شیراز کو خوف تھا کہ کار سے ہمارے فنگر پرنٹ وغیرہ نہ مل جائیں. انھوں نے کین سے کار کے اندر, بانٹ کھول کر انجن پر اور باہر ٹائروں پر پٹرول ڈالا اور کار کو آگ لگادی. مصطفے کار کی ڈگی میں اس وقت زندہ تھا.

کراچی سے بلوچستان کا شہر دریجی 130 کلومیٹر دور ہے. یہ دونوں پیدل واپس کراچی کی طرف چل پڑے. رات کو اس سڑک پر کوئی ٹریفک نہیں چلتا. یہ لوگ تین گھنٹے تک پیدل چلتے رہے. انھیں پٹرول پمپ پر ایک ہوٹل نظر آیا، دونوں نے ہوٹل سے کھانا کھایا. ہوٹل والوں نے انھیں بتایا کہ صبح 8 بجے ایک بس کراچی جاتی ہے. یہ دونوں ہوٹل کے ساتھ بنی ہوئی مسجد میں سوگئے. صبح بس نہیں آئی تو ان لوگوں نے ایک سوزوکی والے کو دوہزار دیے، جس نے ان کو 4K چورنگی پر اتارا، بعد انھوں نے رکشہ اور Uber استعمال کی. دوسرے دن ارمغان فلائٹ لے کر اسلام آباد ، اور وہاں سے اسکردو چلا گیا. پروگرام کے مطابق شیراز پہلے لاہور پہنچا، وہاں سے اسلام آباد، اور پھر وہ بھی اسکردو پہنچ گیا. یہ دونوں اسکردو میں رہتے رہے اور کراچی سے خبریں لیتے رہے کہ وہاں ان پر کوئی شک نہیں کررہا اور نہ پولیس ان کے گھروں پر آئی. دونوں نے مطمئن ہوکر واپسی کا پروگرام بنایا. 28 جنوری کو شیراز کراچی پہنچا اور مصطفے کی گمشدگی کے متعلق سن گن لیتا رہا. پھر اس نے واٹس ایپ پر ارمغان کو گرین سگنل دیا کہ وہ بھی واپس آجائے. ان پر کسی کو شک نہیں. اس طرح ارمغان بھی 5 فروری کو واپس کراچی پہنچ گیا. ارمغان، شیراز کو اپنے ساتھ اس لیے رکھتا تھا کہ ارمغان کے لیے کرمنل ریکارڈ کی وجہ ہوٹل میں رہنا مشکل تھا، اس لیے وہ شیراز کو اپنے ساتھ رکھتا، اور ہر ہوٹل میں شیراز کے نام پر کمرہ لیتا رہا. اگر ڈیفنس پولیس کوشش کرتی تو ارمغان اور شیراز 7 جنوری کو ہی گرفتار ہوسکتے تھے، مگر المیہ یہ ہے کہ تفتیش نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں ہے .

وفاقی حکومت نے FWO سے سندھ پولیس کو (ANPR) سمارٹ کیمرا سسٹم لگا کر دیا ہے، جو CPO میں ایک خاتون تبسم عباسی صاحبہ کے ہاتھوں ہے. تبسم صاحبہ CPO میں ڈائریکٹر IT ہیں. مصطفے کی والدہ 6 جنوری سے روتی پھر رہی تھیں. ڈیفنس پولیس نے صرف CPO جانا تھا، اور کار کا نمبر ANPR سسٹم میں ڈالنا تھا, ANPR سسٹم اتنا سمارٹ اور AIسے Integrated ہے کہ وہ چند سیکنڈز میں کار نمبر (AQP-165) کا پورا 6 ماہ کا Log اسکرین پر لے آتا. اب آپ صرف 6 جنوری سے کار کا Log چیک کریں تو ڈیفنس سے حب ٹول پلازہ تک آپ کو پتہ چل جاتا کہ کار کون ڈرائیو کررہا تھا ؟ کار کی کہاں کہاں کیا اسپیڈ رہی؟ ڈرائیور نے Seat Belt باندھا ہوا ہے یا نہیں؟ ڈرائیور نے کہاں کہاں ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون استعمال کیا ؟ مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایک تو پولیس CPO تک گئی نہیں، اور دوسرا اگر جاتی بھی تو تبسم عباسی صاحبہ نے کون سا ان کو ڈیٹا نکال کر دینا تھا. آئی جی صاحب کو چاہیے کہ فی الفور سندھ کے سارے تھانوں/ ڈی ایس پیز/ ایس ایس پیز / سارے Units / CPLC کو ANPR سسٹم کا Excess دلوائیں تاکہ اس جدید سسٹم سے فائدہ ٹھایا جاسکے، ملزمان کو گرفتار بھی کیا جاسکے اور ان کے خلاف ANPR کی وڈیوز عدالت میں شہادت کے طور پر استعمال بھی کی جاسکیں. یہ کالم لکھنے سے پہلے میری متعلقہ ایس ایس پی جناب علی حسن صاحب سے بات ہوئی کہ جب ANPR سسٹم فعال ہے تو آپ نے مصطفے کی والدہ کے درد کا مداوا کیوں نہیں کیا ؟؟؟؟ علی حسن صاحب نے بتایا کہ ہم نے پہلے ہی دن ANPR والوں کو خط لکھ دیا تھا، مگر میڈم تبسم عباسی نے آج تک خط کا جواب نہیں دیا.

اب عدالت کےلیے ایک مضبوط کیس بنانے کا مرحلہ ہے. میرے آرٹیکل کے بعد پولیس حکام نے مصطفے کیس کی تفیش SIU میں ٹرانسفر کردی ہے- تفتیش کا پہلا مراحلہ جو Avcc کے ایس ایس پی سے حل نہ ہوسکا، اب تفتیش کا دوسرا مرحلہ SIU کے ایس ایس پی شعب میمن سے بھی حل نہیں ہوگا. جناب عثمان غنی صدیقی صاحب ڈی آئی جی ایسٹ ہیں، جب اے ایس پی تھے تو اس وقت Avcc اور بعد میں دوبار ایس ایس پی Avcc رہے ہیں.ان کے ہوتے ہوئی کسی اور افسر یا ادارے کو کیس دینے کی ضرورت ہی نہیں. عثمان غنی صدیقی صاحب نے شاہ رُخ جتوئی کیس میں شاہ رُخ کے علاوہ سارے ملزمان گرفتار کیے تھے. وہ کیس کا دوسرا مرحلہ بڑی خوش اسلوبی سے حل کرلیں گے. باقی موجودہ ڈی آئی جی CIA مقدس حیدر صاحب پراس کیس میں اعتبار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ “ انتظار احمد قتل کیس “ میں مقدس حیدر صاحب کا اپنا ذاتی سرکاری پسٹل استعمال ہوا تھا، اور انتظار احمد قتل کیس کے تانے بانے آخر میں جاکر ملزم ارمغان سے ملتے ہیں. کیا کیا لکھا جائے ، کبھی کبھی دماغ پھٹنے لگتا ہے. دوسرا آپشن ڈی آئی جی ناصر آفتاب صاحب، ایس ایس پی عرفان سموں صاحب، امجد شیخ صاحب، تنویر تنیو صاحب، سنگھار ملک صاحب، زبیر شیخ صاحب ہیں .

مرحوم مصفطےامیر کی جلی ہوئی لاش کی تصویریں اور ویڈیوز دیکھنی کی مجھے ہمت نہیں ہورہی. اگر والدہ دیکھیں توان کا کلیجہ پھٹ جائے گا. وہ بیچاری پہلی ہی سے بُہت رنجیدہ ہیں، ان پر آخر کیا گزرے گی؟

(نیاز احمد کھوسہ سابق ڈی آئی جی پولیس ہیں)