ایک خبر، بلکہ مبینہ سکینڈل، زیرِ بحث ہے، جس میں ملاکنڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر پر طالبات کو جنسی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا جا رہاہے۔ اطلاعات کے مطابق، ان کے موبائل فون سے سینکڑوں طالبات کی نازیبا ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئی ہیں۔ مذکورہ شخص گرفتار ہے اور تحقیقات کا انتظار ہے تاکہ اصل معاملہ واضح ہو سکے۔ اللہ کرے کہ یہ الزامات بے بنیاد ثابت ہوں، کیونکہ یہاں پڑھنے والی طالبات کے والدین شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ یہ پہلا واقعہ نہیں، بلکہ اسی ادارے کے کئی دیگر سکینڈلز بھی پہلے منظرِ عام پر آ چکے ہیں، اور ملک کے دیگر تعلیمی اداروں سے بھی مختلف نوعیت کے معاملات اور سکینڈلز سامنے آتے رہتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں باقاعدہ حکومتی سرپرستی اور انتظامیہ کے زیرِ نگرانی جب میوزک کنسرٹس، ثقافتی شوز اور فیشن شوز منعقد کیے جاتے ہیں، تو ہم نے ایک معصومانہ سوال اٹھایا تھا: یہ ”تعلیمی ادارے ہیں یا کنجر خانے؟“ اس پر کئی حضرات نے ناک بھوں چڑھا کر ناراضگی کا اظہار فرمایا، بلکہ ہمیں رجعت پسندی کے طعنے بھی دے مارے۔ بھائی صاحب، جو کچھ ہوتا ہے، وہ سب ہواؤں میں تحلیل نہیں ہوتا۔ وقت آنے پر اس کے اثرات لازمی طور پر سامنے آتے ہیں۔ جو لوگ آنکھیں بند رکھتے ہیں، انہیں دروازے چوکھٹ سے ہی کھلے ملتے ہیں۔ معاشرے کے تحفظ میں اخلاق اور اقدار کے حوالے سے حساسیت کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ یہ جو بہت ساری چیزیں نارملائز کرائی جاتی ہیں اور ہم انھیں روشن خیالی اور ماڈریشن کے نام پر قبول کر لیتے ہیں، یہی تباہی کا زینہ بنتی ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ معاشرتی بگاڑ اکثر معمولی سمجھ کر نظرانداز کی جانے والی چیزوں سے جنم لیتا ہے۔ جب غیر محسوس انداز میں اخلاقی حدود دھندلا دی جائیں تو پھر وہ چیزیں بھی عام ہو جاتی ہیں جو پہلے ناقابلِ قبول سمجھی جاتی تھیں۔ یہ بحث صرف ”روشن خیالی“ اور ”رجعت پسندی“ کے خانوں میں محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی نسلوں کو کیا سکھا رہے ہیں اور اس کا مستقبل پر کیا اثر پڑے گا۔ جو اثر پڑا ہے، اس کے مظاہر وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں، جنہیں دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
تعلیمی ادارے وہ جگہ ہوتے ہیں جہاں طلبہ و طالبات کو محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کرنی چاہیے، لیکن بدقسمتی سے، جنسی ہراسمنٹ جیسے مسائل ان اداروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اس مسئلے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں اور اس کا تدارک بھی ممکن ہے اگر مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
وجوہات
1.اختیارات کا غلط استعمال
اساتذہ، منتظمین یا سینئر طلبہ اپنی طاقت اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے کمزور طلبہ یا ساتھیوں کو ہراساں کر سکتے ہیں۔
2 . ادارے میں سخت قوانین کا فقدان
اگر تعلیمی ادارے میں جنسی ہراسمنٹ کے خلاف کوئی واضح پالیسی نہ ہو یا اسے نافذ نہ کیا جائے، تو ہراساں کرنے والے افراد بے خوف ہو جاتے ہیں۔
3.خاموشی اور خوف کا کلچر
متاثرہ افراد اکثر سماجی دباؤ، بدنامی یا انتقامی کارروائی کے خوف سے خاموش رہتے ہیں، جس سے ہراسمنٹ کو فروغ ملتا ہے۔
4.تعلیم اور آگاہی کی کمی
بہت سے طلبہ اور اساتذہ کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کن باتوں کو جنسی ہراسمنٹ میں شمار کیا جاتا ہے، اور وہ اپنے حقوق سے لاعلم ہوتے ہیں۔
5.سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا غلط استعمال
آن لائن ہراسمنٹ جیسے نامناسب پیغامات، بلیک میلنگ، اور نازیبا تصاویر کا شیئر کیا جانا بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
تدارک
تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسمنٹ کے تدارک کےلیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں.
1.واضح اور سخت پالیسیز بنانا
ہر تعلیمی ادارے کو جنسی ہراسمنٹ کے خلاف ایک واضح پالیسی بنانی چاہیے، جس میں شکایت درج کروانے کا آسان طریقہ اور سخت سزاؤں کا تعین ہو۔
2.شکایتی نظام کو مؤثر بنانا
ایک ایسا خفیہ اور محفوظ نظام بنایا جائے جہاں متاثرہ افراد بلا خوف اپنی شکایت درج کروا سکیں، اور فوری کارروائی یقینی بنائی جائے۔
3.آگاہی مہمات کا انعقاد
طلبہ، اساتذہ اور دیگر عملے کے لیے سیمینارز، ورکشاپس اور ٹریننگز کا انعقاد کیا جائے تاکہ وہ ہراسمنٹ کو پہچان سکیں اور اس کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔
4.سخت سزائیں اور قانونی کارروائی
ہراسمنٹ میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں، چاہے وہ طالب علم ہو، استاد ہو یا کوئی منتظم۔
5.مشاورت اور نفسیاتی مدد:
متاثرہ افراد کے لیے مشاورت (counseling) اور نفسیاتی مدد فراہم کی جائے تاکہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہوں اور اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
6.ڈیجیٹل سیفٹی کے اصول سکھانا
سوشل میڈیا اور آن لائن ہراسمنٹ سے بچاؤ کے لیے طلبہ کو ڈیجیٹل سیفٹی کے اصول سکھائے جائیں اور سائبر کرائم قوانین سے آگاہ کیا جائے۔
علیحدہ تعلیمی اداے
طالبات کے لیے علیحدہ تعلیمی ادارے ایک مؤثر حل ہو سکتے ہیں، جہاں وہ وقار، آزادی اور تحفظ کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔ کئی معاشروں میں مخلوط تعلیم کے باعث ہراسانی، عدم تحفظ اور دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے والدین اور خود طالبات بھی کسی ایسے ماحول کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ اعتماد کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔
علیحدہ تعلیمی اداروں کی اہمیت اور فوائد
1. وقار اور تحفظ
علیحدہ تعلیمی ادارے لڑکیوں کو ایک ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں جہاں وہ خود کو محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ •والدین بھی زیادہ مطمئن ہوتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں ہراسمنٹ اور دیگر مسائل سے دور رہ کر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
2. خود اعتمادی میں اضافہ
خواتین اساتذہ اور منتظمین کی موجودگی طالبات کو زیادہ خود اعتمادی کے ساتھ سیکھنے اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع دیتی ہے۔ وہ کھل کر سوالات کر سکتی ہیں اور تعلیمی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لے سکتی ہیں۔
3. تعلیمی کارکردگی میں بہتری
مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ علیحدہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات اکثر بہتر تعلیمی نتائج حاصل کرتی ہیں، کیونکہ وہ کسی قسم کے دباؤ یا عدم تحفظ کے احساس سے آزاد ہوتی ہیں۔
4. روایتی اور مذہبی اقدار کا تحفظ •
بہت سے والدین مذہبی اور ثقافتی روایات کی روشنی میں اپنی بچیوں کو مخلوط تعلیم سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔علیحدہ تعلیمی ادارے والدین کے ان تحفظات کو دور کرتے ہیں اور لڑکیوں کو ایک ایسا ماحول دیتے ہیں جہاں وہ اپنی اقدار کے مطابق تعلیم حاصل کر سکیں۔
5. قائدانہ صلاحیتوں کا فروغ
چونکہ علیحدہ اداروں میں تمام سرگرمیاں لڑکیوں کے زیر انتظام ہوتی ہیں، اس لیے وہ قائدانہ کرداروں میں زیادہ مؤثر طریقے سے کام کر سکتی ہیں۔ کھیل، مباحثے، سائنسی مقابلے، اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کا موقع ملتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسمنٹ ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن اگر تمام متعلقہ افراد، بشمول تعلیمی اداروں، حکومت، والدین، اور سماجی تنظیمیں مل کر کام کریں تو اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ ایک محفوظ تعلیمی ماحول نہ صرف طلبہ کی کارکردگی بہتر بنائے گا بلکہ معاشرتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
تبصرہ لکھیے