ہمارے ارد گرد لاکھوں کہکشاؤں،کروڑوں اجسام فلکی، چاند ستاروں پر پھیلی یہ کائنات ایک نہایت مضبوط و مستحکم نظام پر قائم اور ہر چیز اپنے اپنے مدار و محور میں دوڑتی چلی جا رہی ہے۔ پوری کائنات ایک مسلسل حرکت میں ہے۔ ہر چیز اپنی جگہ نہایت مناسب اور معتدل ہے۔
اسی طرح وجہ تخلیق کائنات حضرت انسان کے لیے بھی خالق فطرت نے ایک ضابطہ اور قاعدہ مقرر کیا ہے۔ اس قاعدہ کی پیروی اسے کامیابی کی منزلوں سے ہمکنار کراتی ہے اور اس سے انحراف اسے شکست و ہزیمت سے دو چار کراتا ہے۔ اس قاعدہ کی بنیادی دفعہ یہ ہے کہ دنیا میں انسانوں کی بقا اور آگے بڑھنے کے لیے باہم مقابلے اور مسابقے کا قانوں ہے۔
جس کے مطابق ہر انسان کو اپنی ذات، شناخت اور صلاحیتوں کے قیام و استحکام اور ترقی اور پائیداری کے لیے دوسرے انسانوں سے مقابلہ اور مسابقہ کرنا پڑتا ہے۔ دوسروں کا لحاظ رکھتے ہوئے عرصہ شعور میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی اپنے دم آخریں تک مسلسل محنت اور جد و جہد کرنی پڑتی ہے۔
اس دنیا میں اگر کسی کو کچھ مل رہا ہے تو وہ اکثر اس کی محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کو ملنے والی کامیابی کے پیچھے اس کی دن رات کی سر توڑ کوششیں ہوتی ہیں اور اگر کسی سے کچھ چھینا جا رہا ہے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ اس نے مقابلے کے قانون کو اہمیت نہیں دی اور سستی اور غفلت سے کام لیا اور اسی عدم توجہی کی بنا پر وہ پیچھا رہا اور بالآخر تنزلی کا شکار ہوا۔
اور خیال رہے کہ اگر کوئی کامیاب ہو رہا ہے تو اللہ کے حضور سر بسجود ہو ناکہ اپنی کامیابی پر اترائے اور جو شخص ناکام ہوا اسے چاہیے کہ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکے، اپنا محاسبہ کرے کہ کن اسباب و عوامل کی وجہ سے وہ کامیابی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا اور نئے سرے سے اپنے جذبہ و ہمت کو یکجا کرکے دوبارہ محنت شروع کرے۔
تبصرہ لکھیے