ہوم << شہدائے بدر اور شہیدوں کی ماں - ڈاکٹر اکرام الحق اعوان

شہدائے بدر اور شہیدوں کی ماں - ڈاکٹر اکرام الحق اعوان

بدر کے میدان میں تعداد کے لحاظ سے مسلمانوں اور کفار کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ ایک جانب اگر صرف 313جانباز جذبہ شہادت سے سرشار تھے تو دوسری جانب 950کا لشکر تھا، جس کے پاس جنگی ساز و سامان کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے جبکہ کفار مکہ کے پا س ایک سو گھوڑے، چھ سو زرہیں اور لشکر کی تعداد کی مناسبت سے بے شمار اونٹ تھے۔

ایسے میں اگر کوئی دوسرا گروہ ہوتا تو حوصلے پست ہونا کوئی عجوبہ نہ ہوتا لیکن یہاں معاملہ ہی مختلف تھا۔ یہ 313مسلمان صرف شہادت کے حصول کی خاطر میدان بدر تشریف لائے تھے۔ ان 313شہادت کے طلب گاروں نے دشمن کی تعداد و سازو سامان کی کوئی پرواہ نہ کی۔ گھمسان کی جنگ ہوئی۔ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ کفار مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کی تاب نہ لاتے ہوئے، اپنے کئی سردار ہلاک کرواتے ہوئے میدان جنگ سے فرار ہو گئے۔70کافر جہنم کا نشانہ بنے جن میں ان کے چوبیس سردار شامل تھے۔ ابو جہل، امیہ بن خلف، نضر بن حارث، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، حنظلہ بن سفیان، عقبہ بن ابی معیط اسی طرح ستر کے قریب کفار قید کر لئے گئے۔ دوسری جانب صرف چودہ مسلمان شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ ان چودہ مسلمانوں میں آٹھ انصار اور چھ مہاجر تھے۔

بدر کے میدان میں ان شہداء کے نام آج تک ایک بورڈ پر لکھے ہوئے ہیں۔ یہاں جو زائر بھی جاتا ہے۔ ان شہیدوں کے لئے دعا ضرور کرتا ہے۔ بدر کا میدان مدینہ منورہ سے تقریباً 160کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جبکہ اسکا فاصلہ مکہ سے 320کلومیٹر ہے۔ عمرے کے موقع پر میرا دلی ارادہ تھا کہ بدر کے میدان کا وزٹ کیا جائے۔ لیکن معلومات نہ ہونے کے باعث وہاں تک جانے کا کوئی طریقہ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ مدینہ پہنچنے کے اگلے دن جب میں اپنے ہوٹل کے لاؤنج میں بیٹھا آرام کر رہا تھا تو وہاں مدینہ کی زیارات کروانے والے گروپ کا ایک نمائندہ آگیا۔ اس نے مدینہ کی زیارات کروانے کی پیش کش کی۔ مدینہ کی زیارات ہمارے پیکج میں شامل تھی اور اسکے دس، دس ریال ہم سے پیشگی وصول کئے جا چکے تھے۔ اس لئے یہ پیش کش قبول کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا حالاں کہ یہ لوگ مدینہ کی زیارات صرف پانچ ریال میں کروا رہے تھے۔ لیکن جب اس نمائندے نے میدان بدر کی زیارت کروانے کی پیش کش کی تو پھر نہ کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔

بدر کا میدان کافی فاصلے پر تھا اور اندازہ تھا کہ ان زیارات کے لئے کرایہ بھی زیادہ مانگا جائے گا لیکن اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نمائندے نے بتلایا کہ بدر کی زیارت کا کرایہ صرف بیس ریال فی بندہ ہو گا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم صبح سات بجے مدینہ سے نکلیں گے اور دوپہر دو بجے مدینہ واپس پہنچ جائیں گے۔ مکہ میں زیارات پر جانے کے لئے ہمیں اپنے ہوٹل سے کبوتر چوک تک اپنے انتظام پر جانا پڑا تھا اور ہماری واپسی بھی کبوتر چوک میں ہوئی تھی۔ لیکن یہاں مدینہ کی زیارات کا ایک ایڈوانٹیج یہ تھا کہ ہمیں لینے کے لئے بس نے ہمارے ہوٹل پر آنا تھا۔ چنانچہ اگلے دن کا پروگرام طے ہو گیا۔

ہم نے اگلے دن کئی زیارات دیکھیں۔ جن کا ذکر بعد میں ہوتا رہے گا۔ لیکن میدان بدر میں شہدائے بدر کے قبرستان کے قریب لگے اس بورڈ نے ہمارے قدموں میں زنجیر ڈال دی۔ ہم نے وہاں فاتحہ پڑھی۔ یادگار کے طور پر تصاویر بنوائیں اور کافی دیر تک وہاں کھڑے ان شہداء کی یادوں میں گم رہے جنہوں نے اسلام کی سربلندی کے خاطر پہلے معرکہ حق و باطل میں اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ ان چودہ شہداء میں سب سے نیچے جن تین شہداء یعنی کہ حضرت یزید، حضرت معوذ اور حضرت عوف کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ یہ تینوں بھائی تھے۔ انکی والدہ کا نام حضرت عفراء تھا۔ جبکہ والد کا نام حارث تھا۔حضرت عفراء کے سات بیٹے تھے اور یہ ساتوں کے ساتوں جنگ بدر میں شریک ہوئے۔ ان میں سے تین کو اس معرکے میں شہادت نصیب ہوئی۔حضرت عفراء کو سات مجاہدوں کی ما ں بھی کہا جاتا ہے۔ کس قدر خوش نصیب تھے یہ تینوں بھائی اور انکے والدین کہ جنہیں اسلام کے ابتدائی شہید اور شہیدوں کے والدین ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔