ان تین یمنی بھائیوں میں یاسر کچھ زیادہ ہی کھلنڈرے تھے۔کیوں نہ ہوتے، سر پر بڑے او ذمے دار بھائیوں کا سایہ جو تھا،اور جو بڑے ہونے کے ناتے اپنی ذمے داریوں سے ہرگز غافل نہ تھے۔وہی سب کچھ سنبھال لیتے۔سفر کی مشقتیں بھی اور ان دیکھی مصیبتیں اور صعوبتیں بھی۔
کچھ دن سکون و آرام کے گذرے۔بھائیوں نے تازہ دم۔ہوکر وطن واپسی کا سوچنا شروع کیا۔کچھ یہ غیرت اور خودداری بھی مذید قیام مکہ میں مانع تھی کہ ہٹے کٹے ہوکر ابو حذیفہ کے دَر پر پڑے رہیں اور مفت کی روٹیاں توڑتے رہیں۔آخر وہ بھی خاندانی عرب ہی تو تھے۔بس مکہ اور تہامہ کے مکانی فاصلوں کا ہی تو فرق تھا۔ ایک روز دونوں بڑے بھائیوں نے ابو حذیفہ کی غیر موجودگی میں یاسر کو پاس بٹھایا،اور وطن واپسی بارے اپنے ارادے سے مطلع کیا یاسر یہ سن کر قدرے بھڑک اٹھے اور یمن واپس جانے سے صاف انکار کردیا۔اور بھائیوں سے کہا۔
"عُودا ان شئتما الی أرض الیمن،او اضربا فی الارض العریضۃ، فأمّا أنا فمقیم ،قد اعجبتنی ھذہ الارض فلست أعدل بھا أرضاً أخری۔و رضیت بھذہ الدار ،فلست أبغی بھا بدیلاً۔وما رحیلی عن أرض وجدت فیھا الأمن بعد الخوف، والقوۃ بعد الضُعف،والسعۃ بعد الضیق۔۔"
بھائیو۔۔!
تم چاہو تو یمن چلے جاؤ یا اس وسیع و عریض زمین میں مذید گھومتے پھرو۔مجھے کوئی اعتراض نہیں،مگر مجھے اب ساتھ چلنے کو نہ کہنا،کہ میں تو اب یہیں رہوں گا۔میں نے اتنی زمین پِھر لی اور دنیا گھوم لی،مجھے تو یہ سرزمین مکہ بہت اچھی لگی ہے،اس کے مقابل تو دنیا میں کوئی علاقہ ہے، نہ مقام نہ لوگ۔میں اس کے ہم پلہ کسی دوسری جگہ کو کیسے قرار دے سکتا ہوں،جس سرزمین میں مجھے خوف کے بعد امن،کمزوری اور بے بسی کے بعد قوت و طاقت اور تنگیٔ رزق کے بعد کشادگی و وسعت ملی ہو،اسے چھوڑنے،یا اس پر کسی دوسرے ملک و شہر کو ترجیح دینے کا میں سوچ بھی کیسے سکتا ہوں ۔خواہ وہ میرا اپنا ملک یمن ہی کیوں نہ ہو۔۔۔تم نے جانا ہے تو بصد شوق چلے جاؤ۔
دونوں بھائی یاسر کا یہ دوٹوک مؤقف اور ٹکا سا جواب سن کر ششدر سے رہ گئے۔ایک بھائی کاتو چہرہ غصے سے سرخ بھی ہوگیا۔۔اس سے رہا نہ گیا،بولا۔
"اس جگہ کے اتنے قصیدے پڑھنے اور اپنی بغاوت اور یہاں قیام کو ترجیح دینے کے لفظی جواز تلاش کرنے کی بجائے سیدھی طرح یہ کیوں نہیں کہتے کہ دراصل یہاں کوئی ایسا فرد مل گیا ہے،جسے تم اپنا دل اور دماغ،حتیٰ کہ غیرت و حمیت بھی دے بیٹھے ہو ،اور اپنے بوڑھے ماں باپ اور بھائیوں کی محبت بھی اس پر لُٹا چکے ہو۔ سیدھی طرح کہو کہ تم اپنا دل اور ہوش ابوحذیفہ کی سیاہ فام لونڈی کے حوالے کر چکے ہو۔تم تو اب خود اپنے جسم کے مالک بھی نہیں رہے۔"
یاسر نے یہ سنا تو ان کا رنگ بھی بدل گیا،کچھ غصہ،کچھ خجالت اور شرم و حیاء اور کچھ غیرت کی پرچھائیاں نمودار ہوئیں ۔خود پر قابو پایا اور مطمئن و مستحکم لہجے میں وہی پہلا جواب دہرادیا۔ اصل بات یہ تھی کہ یاسر اور وہ لونڈی اپنی عمروں کے توافق اور جوانی کے نشے سے مخمور ہونے کے باعث ان سات آٹھ دنوں میں کچھ زیادہ ہی بے تکلفاور باہم مانوس ہوچکے تھے۔ نہیں معلوم یہ مانوسیت اس آتش عشق کی تڑپ کے باعث تھی،یا غریب الدیاری کے مشترک دکھ اور اذیت کی شفابخش مرہم !
یاسر اپنے بھائیوں میں سے زیادہ کڑیل جوان بھی تھا اور پرکشش بھی،اس پر مستزاد یہ کہ وہ خوب،بلا جھجک و انقطاع دلچسپ اور انوکھی باتیں بھی کرتا تھا۔دنیا جہان کے قصے،یمن کی باتیں،وہاں کے رسوم و رواج،شخصیات،جنگی واقعات ،تاریخی حوادث،خوفناک اور لطیف قصے،تجسس اور لطف سے بھرپور،حکمت و نصیحت کی باتیں،۔۔کیا کچھ نہ ہوتا یاسر کی باتوں میں ۔ابوحذیفہ اور ان کے اہل خانہ یوں ہی تو یاسر کے دیوانے ،اس کے گرد ہر وقت گھیرا ڈالے اس سے شبانہ محفلوں میں یہ قصے،باتیں ،یادیں سننے پر مجبور نہ تھے۔۔!
ان محفلوں میں یہ سیاہ فام لونڈی بھی موجود ہوتی اور بہت دلچسپی اور اہتمام سے بیٹھتی اور کان یاسر کی باتوں اور آنکھیں اس کے سراپے پر مرکوز کیئے رکھتی۔اور دن بھر یاسر کی خدمت اور کاموں کو بصد شوق و اہتمام سرانجام دینے میں زیادہ خوشی محسوس کرتی۔ یاسر کے دوسرے بھائی نے قدرے درشت اور غضب ناک لہجے میں کہا۔
"ہاں ہاں ۔۔دراصل تم نے بڑی بے حمیتی کا فیصلہ کیا ہے."
اپنے گھر،ماں باپ اور ماں جایوں پر اجنبیوں کو ترجیح دے کر، یمن پر مکہ جیسے پردیس کو ترجیح دے کر ،اپنے قبیلہ عنس پر پرایوں کے قبیلہ قریش اور خاندان مضر کو خاندان قحطان پر ترجیح دے کر ۔بلاشبہ یہ گھاٹے کا سودا اور احمقانہ فیصلہ ہے ۔ اور رہی یہ سیاہ فام لونڈی۔۔یہ کون سا دنیا میں اکیلی اور انوکھی ہے،اور کون سا اتنی ممقدس ہستی کہ گویا یہ سرزمین مکہ کے آسمان سے اتری اور یہاں کی مقدس مٹی میں جنم پائی ہو، اس جیسی ایک نہیں ہزاروں ،بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر دنیا کے ہر کونے میں ،ہر شہر ،ہر علاقے میں مل ہی جائیں گی ۔مگر تم پر تو اس کا بھوت سوار ہے ،تم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ تمہارے بوڑھے ماں باپ پر کیا گزرے گی یہ جان کر کہ ہمارے لاڈلے نے گھر کی قربت کی شہنشاہی پر پردیس کی خفت و ذلت کو ترجیح دی ہے۔
اور سنو۔۔اگر تم یہ تہیہ کرہی چکے ہو تو غلاموں کی سی ذلت آمیز اور مشقت سے بھرپور زندگی گزارنے کے لیئے تیار ہو جاؤ کہ یہ تم پر مسلط نہیں کی گئی، بلکہ تم نے خود اپنا مقدر بنائی ہے،اپنے ہی ہاتھوں۔ اور رہی یہ لونڈی۔۔۔تو جس کے پلے اپنی زندگی اور جسم و جان بھی نہیں اور نہ ہی کوئی اختیار اور نہ ہی کوئی مال و متاع، یہ غلام اور مقہور و مجبور ہوتے ہوئے بھی تمہارے سب کچھ کا مالک بن بیٹھی ہے اور تم خود اپنی خود مختاری اور آزادی کو اس کے ہاتھوں میں اور ابوحذیفہ کے سامنے تسلیم و سرنگوں کرچکےہو۔
کوئی طعنہ اور طنز اور تشنیع کا انداز ایسا نہ تھا ،جو یاسر کے بھائیوں نے نہ بطور ہتھیار استعمال کرکے یاسر کی غیرت کو نہ جگایا ہو اور اسے واپس چلنے پر امادگی ہا وسیلہ نہ بنایا ہو، مگر یاسر سر جھکائے سب سنتا اور سہتا رہا۔۔بھائیوں کے سامنے خاموش ہی بیٹھا رہا،اور بس یہی ایک جواب کہ ۔۔بھائی تم جانا چاہو تو چلے جاؤ ۔۔میں نہیں جاؤں گا۔۔مجھے لگتا ہے میرا کوئی معاملہ یہاں اٹک سا گیا ہے اور کوئی نادیدہ قوت مجھے یہاں روکے رکھ رہی ہے۔
بھائیوں کے چہروں پر پھر سے طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔دوسرا بولا۔اب اس کے لہجے میں قدرے مصالحانہ سا انداز تھا۔۔دل لگی کے لہجے میں کہنے لگا۔
یاسر اچھا ، اگر اس لڑکی پر تمہارا دل آہی گیا ہے،اور اس کے بغیر تمہارا گزارا نہیں ، تو یوں کرتے ہیں اس لڑکی کو بزور قوت اٹھا کر بھگا لے چلتے ہیں۔ہم تمہاری اس ضد کی خاطر ہر خطرے اور اقدام کے لیئے تیار ہیں۔ یاسر یہ سن کر یکلخت قدرے اونچے لہجے میں بولا،
"ہرگز نہیں۔۔یہ لڑکی میرے لیئے گرچہ بہت اہم ہے،مگر اتنی نہیں کہ ہم ابوحذیفہ کی مہمان نوازی اور احسانات کا بدلہ اس کے مال و متاع پر ڈاکہ ڈال کر چکائیں۔ میرے لیئے یہ لڑکی یقیناً بہت اہم ہے،مگر میرے یہاں مکہ میں رہنے کا باعث شائد کچھ اور ہی ہے،جس کی مجھے ابھی خبر ہے، نہ ہی اندازہ۔۔نجانے کیا چیز مجھے اس سرزمین سے چپکائے اور بوجھل بنائے چلی جارہی ہے۔"
یاسر کی ہٹ دھرمی دیکھ کر بھائیوں نے اگلے روز یاسر کے بغیر ہی واپس یمن کے سفر پر روانگی کا فیصلہ کرلیا۔ اگلے روز دن چڑھنے پر تینوں بھائی اس راستے پر محو سفر تھے جو یمن کی جانب جاتا تھا۔۔ابو حذیفہ نے انہیں اٹھ دس دن کی مہمان نوازی کے بعد سفر کے لیئے بھی خوب زاد راہ اور قیمتی تحائف اور ضروری ساز و سامان سے لیس کرکے بقیہ سفر کی صعوبتوں سے محفوظ و مطمئن کر دیا تھا۔
یاسر بھی بھائیوں کے ساتھ ہی تھا،اور کچھ زیادہ ہی سرگرم اور تیز۔۔مگر مکہ سے باہر جانے کے لیئے نہیں،بلکہ بھائیوں کو،ماں جایوں کو،اپنے پیاروں اور خون شریکوں کو۔۔ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے الوداع کہنے کی غرض سے ۔سعی المُودّع ،لا سعیَ من أزمَع الرَحیل۔ جیسے ہی دن ڈھلنے کے قریب آیا،وہ سرحد و منزل بھی آگئی جہاں سے ابدی رنج و الم کے جذبوں کے ساتھ بھائی ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔
مالک اور حارث یمن کی جانب روانہ ہوکر تاریخ کے دھندلکوں میں ہمیشہ کے لیئے گم اور ناپید ہوگئے۔اور یاسر مکہ واپس لوٹ آیا۔اسی تاریخ کا ایک روشن باب بننے کے لیئے۔ اب یاسر کو تو سب ہی جانتے ہیں،مگر نہ اس کے بھائیوں کو،نہ اس کے ماں باپ کو اور نہ ہی گم ہوجانے والے بھائی کا کچھ پتا ہے، نہ خبر۔
( نابینا مصری ادیب،دانشور،نقاد اور ناول نگار اور دوہری پی ایچ ڈی کے حامل بیسیوں متنوع کتب کے مصنف ڈاکٹر طٰٰہ حسین کے عربی ناول "الوعد الحق" سے مأخوذ)
(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے