ہوم << انگلش ونگلش- سید تصور عباس

انگلش ونگلش- سید تصور عباس

گھر والوں کی مکمل دفاعی بے اعتنائی اور اساتذہ کے ڈنڈوں نے میٹرک تک انگریزی کافی سیدھی رکھی. اس دور میں چھٹی کلاس سے ہم "وڈی اے بی سی" اور "چھوٹی اے بی سی" سے انگلش شروع کرتے تھے، تو خود ہی سمجھ لیں کہ میٹرک تک آتے آتے ہم کتنے کوئی بقراط بن چکے ہوں گے. بہرحال مار نہیں پیار والے نعرے سے بے نیاز اساتذہ اس طرح پڑھاتے تھے کہ شاگردوں کا نہیں ان کا اپنا امتحان ہونا ہے.

مجھے یاد ہے جب ایف اے کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا اور انگلش بمشکل کنارے لگی، تو ہمارے ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر چوہدری صاحب جو ہمیں میٹرک میں انگلش پڑھایا کرتے تھے، ان کا بلاوا آیا، حاضر ہو گئے، اس خوشی کے ساتھ کہ سکول فیلوز کے گروپ میں سے واحد ایف اے پاس ہونے والا ہونہار سپوت صرف میں تھا. مگر دیکھا تو چوہدری صاحب کے ماتھے پر بل، آنکھوں میں غصہ، فرمانے لگے، کوئی شرم حیا ہوتی ہے، اتنی نالائقی، شرم کرو. میں حیران پریشان کہ چلو تمغہ امتیاز نہ سہی کم از کم شاباش کا حقدار تو تھا، آخرکار ہم نے ایف اے کی انگلش کو شکستِ فاش دی تھی. کچھ سمجھ نہ آیا تو ہچکچاتے ہوئے پوچھا، سر جی کوئی گستاخی ہو گئی اے؟ کہنے لگے میٹرک میں انگلش کے کتنے نمبر تھے؟ اب ہمارا ماتھا ٹھنکا، کہ سر جی کے ماتھے پر تیوری کیوں ہے؟ کیونکہ میٹرک میں امتیازی نمبر لینے والا ایف اے میں بمشکل پاس ہو سکا- یہ تھے اساتذہ جو ہمارے امتحان کو اپنا امتحان سمجھتے تھے. ہماری کامیابی و ناکامی کو اپنی ذات سے جوڑ کے رکھتے اور پرکھتے تھے.

کلاسرا صاحب نے ایک دفعہ باریش انگلش لٹریچر کا واقعہ لکھا تھا: فرماتے ہیں:
جب ہم انگریزی لٹریچرکے طالب علموں نے پروفیسر مظہر سعید کاظمی کو دیکھا تو سب نے کہا: لو جی مارے گئے ‘باریش اور ملتان کی بڑی مذہبی شخصیت (احمد سعید کاظمیؒ) کے صاحبزادے۔ ہم نے کہا: اب تو سختیاں ہوں گی‘ لیکن یقین کریں مظہر سعید جس انداز میں ہمیں انگریزی لٹریچر پڑھاتے تھے، وہ کبھی ذہن اور دل سے نہیں مٹتا۔ کاظمی صاحب کی واحد کلاس تھی جس سے کوئی طالب علم چھٹی نہیں کرتا تھا۔ ان کے پڑھانے کا دلکش انداز دلوں میں اترتا اور دل کرتا وہ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں، اور لٹریچر کی یہ کلاس کبھی ختم نہ ہو۔

کلاسرا صاحب کہ یہ باریش کہانی پڑھ کر ہمیں اپنے والے باریش و دبنگ یاد آگئے. ایف اے کرنے جب ہم کالج پہنچے تو پتہ چلا کہ انگلش والے دو پروفیسر ہیں، ایک بھاری بھرکم دبنگ و باریش اور دوسرے انتہائی معصوم ٹھنڈی طبیعت والے. دعا کرتے رہے کہ معصوم بندہ ہی متھے لگے، کیونکہ دبنگ والی شخصیت کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ کبھی کبھی کٹ بھی لگا لیتے ہیں. میٹرک کر کے بھاگے تھے کہ کالج میں اس کٹ سے جان چھوٹے گی، لیکن یہاں بھی میٹرک والا ماحول، کیسا کالج ہے یار. لیکن ہماری ایسی قسمت کہاں، دبنگ والے ہمارے انگلش کے پروفیسر مقرر ہو گئے. جب ان کا ڈیل ڈول دیکھا تو سمجھ گئے کہ کٹ بھی لگا سکتے ہیں. خیر پڑھائی شروع ہوئی، پہلا دن اور دوسرا پیریڈ، بگلے کے بچے کی کہانی "اس کی پہلی اڑان".

پروفیسر صاحب نے مضمون کا نام پڑھا ہماری طرف دیکھا، سب دم بخود، حکم ہوا کتابیں بند کر دیں. توجہ میری طرف، پروفیسر صاحب نے پنجابی زبان میں کہانی سنانی شروع کر دی، ایسا محسوس ہوا کہ پنڈ کی بیٹھک میں بیٹھا کوئی بڑا بزرگ بچوں کو کہانی سنا رہا ہو اور سب ہمہ تن گوش. کہنے لگے یہ کہانی ایک لائن میں کچھ یوں ہے کہ "پتر اُڈنا ای تے روٹی لبھنی اے" یعنی جدوجہد کر کے اپنا رزق خود تلاش کرنا ہے. کہانی مکمل کرنے کے بعد فرمایا لٹریچر کو سمجھنا ضروری ہے، یاد کرنا نہیں۔ اس وقت ہمیں کسی بھی ایسی پڑھائی کا تجربہ نہیں تھا اور یاد رہے یہ نوے کی دہائی کی بات ہو رہی ہے. اس پنجابی زبان والی تھیوری نے ہمیں سمجھایا کہ مضامین کو پہلے سمجھنا ضروی ہے- وگرنہ رٹا سسٹم تو سدا سے ایک اہم ہتھیار ہے. اس مشہور کٹ لگانے والے دبنگ و باریش نے نہ ہمیں کبھی گھورا نہ ڈانٹا، بلکہ انگلش جیسے مضمون کو سہل بنا دیا. بعد میں احساس ہوا کہ کچھ باتیں (کٹ) زیبِ داستاں بھی ہوتی ہیں.
بقول شیفتہ ؎

فسانے یوں تو محبت کے سچ ہیں پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے

آج تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی میٹرک والے استاد محترم کے سامنے مجرمانہ قسم کی اعزازی پیشی اور کالج کے پروفیسر صاحب کی مادری زبان والی تھیوری آج تک اس طرح یاد ہیں جیسے کل کی بات ہو.

Comments

سید تصور عباس

سید تصور عباس بخاری عمرِ عزیز کے اکیاون سال گزار چکے ہیں۔ بسلسلہ روزگار 1997 سے بیرونِ ممالک میں بکھرا ہوا رزق استعمال کر رہے ہیں۔ آج کل باکو-آذربائیجان میں ملازمت ہے۔ تعمیراتی شعبہ سے تعلق ہے۔ کتابیں اور سفر، ان کے دو مخصوص شوق ہیں

Click here to post a comment