ہوم << امیر نظر آنے کا احساسِ کمتری - عبیداللہ کیہر

امیر نظر آنے کا احساسِ کمتری - عبیداللہ کیہر

سفر کی دنیا بھی عجیب دنیا ہے۔ ویسے تو روزمرّہ زندگی میں بھی آپ کو طرح طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، عجیب عجیب تجربات ہوتے ہیں، لیکن سفر میں ایسے لوگوں سے ملنے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ میں بھی ایک سیاح ہوں۔ اکثر سفر میں رہتا ہوں۔ طرح طرح کے واقعات بھی پیش آتے ہیں اور عجیب و غریب لوگ بھی ملتے رہتے ہیں۔ تو ایک بار ایسا ہوا کہ ایک سفر میں اسی طرح ایک عجیب شخص ٹکر گیا۔

سردیوں کے دن تھے۔ میں ریل گاڑی کی اکانومی کلاس میں کراچی سے راولپنڈی کے لیے سفر کر رہا تھا۔ کراچی کینٹ اسٹیشن پر میں ابھی اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھا ہی تھا کہ پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک گندمی رنگت کا لڑکا اپنے کندھے پر مختصر سا بیگ لٹکا ئے آیا اور میرے برابر والی سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں ہماری گفتگو شروع ہوگئی۔ سب سے پہلے تو اس نے یہ انکشاف کیا کہ وہ دراصل ایک بہت امیر گھر کا فرد ہے اور آج اس ریل گاڑی میں صرف یہ تجربہ کرنے کے لیے سوار ہوا ہے کہ ریل کا سفر آخر ہوتا کیسا ہے؟ … ورنہ وہ ریل گاڑی میں نہیں صرف جہاز میں سفر کرتا ہے، اس بار سوچا ہے کہ چلو دیکھیں کہ ریل گاڑی کیسی ہوتی ہے؟ … بس یہی دیکھنے کےلیے وہ آج اس ٹرین میں سوار ہوا ہے۔
میں کیا کہہ سکتا تھا۔ بس یہی کہا کہ اچھی بات ہے، بہت اچھا کیا۔ وہ راستے بھر بس اسی طرح کی برانڈڈ برانڈڈ باتیں کرتا رہا۔ لا ہور اسٹیشن پر گاڑی رکی تو ہم پلیٹ فارم پر اترے۔ سامنے ہی میکڈونلڈ کا اسٹال نظر آ رہا تھا۔ جیسے ہی اس کی میکڈونلڈ پر نظر پڑی ، کہنے لگا:
”میں تو میکڈونلڈز کے علاوہ کسی جگہ سے کچھ کھانا پسند ہی نہیں کرتا۔ سب اَن ہائی جینک ہوتے ہیں۔“
چنانچہ ہم دونوں میکڈونلڈ کے اسٹال پر گئے ، اس نے دو عدد کافی کا آرڈر دے دیا۔ جیسے ہی کافی آئی وہ اپنا کپ لے کر فوراً کچھ فاصلے پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ چنانچہ بل کی ادائیگی مجھے کر نا پڑی۔
راستے میں اس نے بتایا کہ اس کے والد بہت امیر ہیں۔وہ لوگ اسلام آباد میں ایک بڑی عالیشان کوٹھی میں رہتے ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کا اپنا بھی کمپیوٹر سافٹ ویئر کا بزنس ہے اور اس کے کلائنٹ پوری دنیامیں پھیلے ہوئے ہیں۔ میں اس کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا۔ راولپنڈی اسٹیشن پر اتر کر اس نے مجھ سے فون نمبر کا تبادلہ کیا اور رخصت ہو گیا۔ میں اپنے گھر چلا آیا۔

چند ہی دن گزرے ہوں گے کہ وہ مجھ سے ملنے میرے آفس پہنچ گیا اور کہنے لگا کہ وہ میرے آفس کو بھی اپنی سروسز دے سکتا ہے۔ جب میں نے اسے بتایا کہ ہمارے باس آج کل امریکہ گئے ہوئے ہیں، وہ واپس آئیں تو میں ان سے ملوادوں گا تو کہنے لگا :
”امریکہ گئے ہوئے ہیں تواس میں کون سی حیرت کی بات ہے؟ میں تو خود بار بار امریکہ جاتا رہتا ہوں۔“
”تم امریکہ جاتے ہو یا نہیں جاتے، میرے باس کا اس سے کیا لینا دینا“میں ہنسنے لگا۔ ”بس جب وہ واپس آ جائیں گے تو تم آ جانا … اس وقت دیکھ لیں گے کہ تم کیا کیا سروس دے سکتے ہو“
خیر وہ چائے پی کر چلا گیا ۔

چند دن بعد میں اپنے بینک گیا تو مجھے وہاں وہ قطار میں کھڑا نظر آیا۔ میلے سے شلوار قمیص پہنے اور سر پر اونی ٹوپ چڑھائے ہوئے۔ مجھے دیکھ کر پہلے تو کچھ گھبرایا، لیکن پھر فوراً بولا :
”ہمارے گھر میں سب بہن بھائیوں کا اپنا الگ الگ اکاؤنٹ ہے۔ والد صاحب ہمارے اکاؤنٹ میں پیسے ڈالتے رہتے ہیں۔ ہم یہاں آتے رہتے ہیں اور اپنی ضرورت کے پیسے نکلواتے رہتے ہیں۔ پیسے کی کوئی کمی نہیں۔“
”زبردست“میں صرف یہی بولا اور اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گیا۔
جب میں بینک سے باہر نکلا تو اسی وقت وہ بھی باہر نکلا، لیکن اس نے دیکھا نہیں کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ میں نے بھی اسے متوجہ نہیں کیا، بس اس تجسس میں رہا کہ دیکھوں تو سہی کہ اس کے پاس سواری کیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس نے موٹر سائیکل پارکنگ ایریا سے ایک پرانی سی ہنڈا سیونٹی گھسیٹ کر باہر نکالی، ککیں مار مار کر اسے اسٹارٹ کیا اوراس کے ڈھیلے سائلنسر کی پھٹی پھٹی آواز کا شور مچاتا ہوا تیزی سے چلا گیا۔ میری ہنسی چھوٹ گئی۔

کچھ دن بعد پھر ایک جگہ مل گیا تو میں نے اس سے پوچھا :
”تمہارا گھر کہاں ہے؟“
وہ جلدی سے بولا:
”گلشن خان میں“
”گلشن خان؟“میں چونکا۔ ”یہ کون سی آبادی ہے؟ … میں نے تو پہلے کبھی یہ نام نہیں سنا“
”یہ … یہ ادھر راولپنڈی میں ہے“ وہ ہاتھ فضا میں ایک طرف لہرا کر بولا۔
” اچھا اچھا، ٹھیک ہے،ہوگی کوئی“ میں ہنس کر بولا۔
اس نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا اور بولا :
” جی وہ بڑی زبردست سوسائٹی ہے گلشن دن خان“
”گلشن دن خان……؟“میں پھر چونکا۔
لیکن وہ مجھے فوراً ہی خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔ بعد میں مجھے کسی دوست نے بتایا کہ راولپنڈی میں گلشن دادن خان نام کی ایک آبادی ہے، وہ اسی کا کہہ رہا ہوگا۔ غالباً وہ میرے سامنے لفظ ”دادن“ بولنے سے گھبرا رہا تھا کہ کہیں اس دیہاتی سے لفظ کو سن کر میں اسے غریب نہ سمجھ بیٹھوں، اسی لیے اس نے گلشن دادن خان کے الفاظ اس طرح تیزی سے بولے جس سے مجھے لگے وہ ”گلشن خان“ کہہ رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ گلشن دادن خان کیسی آبادی ہے، ہو سکتا ہے کہ بہت اچھی سوسائٹی ہو۔ لیکن مجھے یاد تھا کہ کراچی سے راولپنڈی سفر کے دوران اس نے بتایا تھا وہ اسلام آباد کے کسی مہنگے سیکٹر میں رہتا ہے۔ آج خداجانے اس کے منہ سے گلشن دادن خان کیوں نکل گیا۔ خیر چند دن کےلیے وہ پھر غائب ہو گیا۔

اتفاق سے کچھ دن بعد میری گاڑی خراب ہو گئی۔ گاڑی مرمت کےلیے دے کر میں ویگن میں آفس آنے جانے لگا۔ ایک دن اسی طرح ویگن میں آفس سے گھر جا رہا تھا کہ ایک اسٹاپ سے وہ بھی ویگن میں سوار ہوا۔ سیٹیں ساری فل تھیں اور باقی سواریاں سر چھت سے ٹکائے گردن جھکائے مرغا بنے کھڑی تھیں۔ وہ بھی ان کے ساتھ مرغا بن کر کھڑا ہوگیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب اسلام آباد میں میٹرو بس نہیں ہوتی تھی، چنانچہ بسوں اور ویگنوں میں بہت رش ہو تا تھا اور لوگ بیچارے اسی طرح رکوع کی حالت میں سفر کرنے پہ مجبور ہوتے تھے، اسی لیے وہ بھی میرے بالکل سامنے مرغا بن کر کھڑا ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں اچانک اس کی مجھ پر نظر پڑی تو ایک دم سٹ پٹا گیا۔
”کیوں بھئی، کار خراب ہوگئی ہے کیا ؟“میں ہنس کر بولا۔
”جی جی بالکل … کار تو خراب ہے، لیکن مجھے ابھی بلیو ایریا جانا ہے ہش پپیز کے جوتے لینے ۔ بڑے مہنگے اور زبردست جوتے آئے ہوئے ہیں، میڈ اِن یو ایس اے۔ بس وہ لینے جا رہا ہوں۔ گاڑی خراب ہے تو مجبوراً اس ویگن میں جانا پڑ رہا ہے۔“وہ مرغا بنے بنے بولتا چلا گیا۔
”تمہارے پاس ایک موٹر سائیکل بھی تو ہے“ میں بولا۔
”آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میرے پاس موٹر سائیکل ہے؟“
اس نے چونک کر مجھے دیکھا۔
”تم اس دن بینک سے نکل رہے تھے تو میں نے دیکھا تھا“میں ہنسا۔
” ہاں ہاں وہ بھی ہے“وہ کچھ کھسیانا ہوا۔
اب مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ بہت دیکھ لیے تھے اس کے ڈرامے۔
”یار تم ہش پپیز جارہے ہو یا کہیں بھی جا رہے ہو ، تمہارے پاس کار ہے یا موٹر سائیکل ہے، تم گلشن دادن خان میں رہتے ہو یا سیکٹر ایف ایٹ میں، خود کو سنبھالو یار“
میں غصے میں بولتا چلا گیا۔ ”اس دن کراچی سے تم ریل گاڑی میں سوار ہوئے تو کہا کہ میں تو جہاز میں سفر کرتا ہوں۔ ہمارے باس امریکہ گئے ہوئے تھے تو تم بولے کہ امریکہ جانا کون سی ایسی بڑی بات ہے، میں تو بار بار امریکہ جاتا ہوں۔ اب اس ویگن میں تم میرے سامنے مرغا بنے کھڑے ہو اور یہاں بھی بونگی مار رہے ہو کہ ہش پپیز جا رہا ہوں امریکن جوتے لینے … تو بھیا تم جس بھی موچی کے پاس اپنا جوتا سلوانے جا رہے ہو، جاؤ ہماری بلا سے، لیکن اس دھوکے فریب میں رہ کر اپنی زندگی برباد مت کرو۔“
میرا اسٹاپ آ گیا اور میں اس سے مزید کوئی سلام دعا کیے بغیر اتر گیا۔ اس دن کے بعد وہ مجھے پھر کبھی نظر نہیں آیا۔

اس طرح بہت سارے لوگ شدید احساس کمتری اور خود فریبی کا شکار ہوتے ہیں۔ ساری عمر دوسروں کے سامنے جھوٹ بول کر یہ ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں کہ وہ بہت امیر کبیر ہیں۔ بلکہ اب تو ایسے احمقوں کیلئے کئی ایسی ویب سائٹس بھی بن گئی ہیں جن میں انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ ایسی کون سی حرکتیں کریں کہ جن سے وہ بہت امیر لگیں … اور ان ساری باتوں کا تعلق صرف اور صرف جھوٹ سے ہوتاہے۔ جھوٹ بول کر امیر نظر آنا، یعنی اپنی بے عزتی کو دعوت دینا۔

کراچی میں بھی ہمارے آفس میں ایک اسی انداز کی لڑکی کام کرتی تھی۔ ایک دن وہ آفس آئی تو اسے زکام ہو رہا تھا۔ مسلسل چھینکے اور کھانسے جا رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ تو بولی : ”ہاں وہ رات بھر میرے کمرے میں اے سی بہت تیز چلتا رہا ہے تو اس وجہ سے مجھے زکام ہو گیا ہے“
میں حیران ہو کر اس کی شکل دیکھنے لگا، کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ وہ بیچاری محمودآباد کے قریب ایک غریب سی آبادی میں رہتی ہے جہاں بجلی گھنٹوں غائب رہتی ہے۔ وہ وہاں کی کچی گلیوں میں روزانہ پاؤں گھسیٹتی کسی نہ کسی طرح مین روڈ تک پہنچتی تھی تاکہ آفس کی گاڑی میں سوار ہو سکے۔ آج کل چونکہ بارش اور ٹھنڈ تھی ، اس لئے کئی لوگوں کو کھانسی زکام لاحق تھا۔ لیکن اس نے کہا کہ نہیں، میں نے تو رات کو تیز اے سی چلا رکھا تھا، مجھے تو اس لئے زکام ہے۔ یا ڈھٹائی تیرا آسرا۔

تو بھیا خدا کے واسطے ان چکروں میں مت پڑیں۔ ہماری اپنی شخصیت میں اللہ نے کئی خصوصیات دے رکھی ہیں۔ خدارا ان کو پہچانیں، ان کو دریافت کریں اور لوگوں کے سامنے اپنے اصل چہرے کے ساتھ پیش رہیں۔ یہ جعلی اور بناوٹی چہرہ کچھ ہی دن میں ایسی ذلت سے دوچار کردے گا کہ پھر اصلی چہرہ دکھاتے ہوئے بھی شرم آئے گی اور ساری عمر احساس کمتری میں گزر جائے گی۔

Comments

Avatar photo

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر اردو کے معروف ادیب، سیاح، سفرنامہ نگار، کالم نگار، فوٹو گرافر، اور ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں۔ 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں عبید اللہ کیہر کی پہلی کتاب ”دریا دریا وادی وادی“ کمپیوٹر سی ڈی پر ایک انوکھے انداز میں شائع ہوئی جسے اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان نے ”اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب“ کا نام دیا۔ روایتی انداز میں کاغذ پر ان کی پہلی کتاب ”سفر کہانیاں“ 2012ء میں شائع ہوئی۔

Click here to post a comment