صرف دس منٹ رہ گئے لیکن احمد ابھی تک سحری کرنے نہیں اٹھا،شریف صاحب نے اپنی بیگم سے کہا۔
کیا روزہ نہیں رکھنا اس کو!
کب سے تو انٹر کام بجا رہی ہوں، اب میری ٹانگوں میں تو اتنی سکت نہیں کہ بار بار اوپر نیچے کے پھیرے لگاؤں، یہ آج کل کی اولاد اپنی نیند کی متوالی، کس طرح اٹھاؤں اسے ، بیگم شریف نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
تو کیا ضرورت تھی اوپر کی منزل میں اس کو الگ کمرہ دینے کی، کیا نیچے کمرے خالی نہیں تھے، ابرو اچکا کر شریف صاحب نے جواب دیا۔
لیجیے پھر وہ ہی بحث، جتنی بار آپ پوچھ چکے ہیں اتنی ہی بار بتا چکی ہوں کہ نیچے وہ ڈسٹرب ہوتا ہے اس کو اپنی پڑھائی کرنی ہو تی ہے، اور پلیز اب انتہائے سحر میں ان باتوں کا کوئی موقع نہیں۔ چٹختے لہجے میں شوہر کو جواب دے کر بیگم شریف ڈائننگ روم سے باہر دوسرے کمرے میں اپنی بیٹی کو جگانے آچکی تھیں۔
نمرا۔۔ارے بھئی تم تو باہر آجاؤاور ایک چکر اوپرکا لگا لو بھائی کا دروازہ زور سے کھٹکھٹا دو،
کیوں امی جی اتنا شور کر رہی ہیں، لیجیے میں آگیا میں نے کون سا کچھ کھانا ہوتا ہے، بس یہ دودھ پکڑا دیجیے ہوگئی میری سحری بلا وجہ اتنا ہنگامہ۔احمد نے باپ کے برہم چہرے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا
جی امی جی مجھے بھی بس ہاف کپ ملک دیجیے، آپ کو تو پتا ہے نا میری ڈائٹنگ چل رہی ہے، اس ماہ میں نے اپنا 4-5 کلو وزن تو کم کر نا ہی ہے
بیٹا کیا رمضان اس لیے آیا ہے۔دل گرفتہ ہو کر بیگم شریف نے کہا،کچھ رب سے مناجات کر کے اپنی ہمیشہ کی زندگی کی بھی پلاننگ کر لیتے
تو امی اس میں کیا بری بات ہے، کھانے پر کنٹرول کرنا تو اس مہینے زیادہ آسان ہو جاتا ہے، ناکینٹین کھلی ہوتی ہے نا انواع و اقسام کے کھانے بن رہے ہوتے ہیں مجھے تو اپنی خواہش کے مطابق وزن کے حصول کے لیے اس ماہ کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ نمرا نے لاپرواہی سے کہا۔
بس اتنی سی خواہش،اس ماہ مقدس کے استقبال کے لیے۔بیگم شریف نے دل تھام لیا تھا اور تمہارے فرائض؟
سمجھتے کیا ہو خود کو، شریف صاحب کی دھاڑ پر وہ بھاگتی ہوئی کھانے کے کمرے کی جانب دوڑی تھیں
ابو اتنا ناراض ہونے کی تو کوئی بات نہیں، ابھی تو امتحان سے فارغ ہو ا تھا تھکن تک نہیں اتری،ویسے بھی اس وقت مجھ سے نہیں کھایا جاتا پی تو لیا تھا نا میں نے دودھ۔اورگھر پر پڑھ لوں گا نا فجر
میری نیند پوری نہ ہو تو مجھ سے کھڑابھی نہیں ہوا جاتا،۔ویسے بھی امام صاحب اتنی لمبی قرات کرتے ہیں۔
خبر دار! زبان کھینچ لوں گا تمہاری وہ تو شکرکر کرو کہ میرا روز ہ ہے، ورنہ آج تمہاری خیر نہیں تھی۔
اونہہ، یہی سب کچھ سنتے چلے آئے ہیں، احمد بھی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا اور بیگم شریف سوچتی رہ گئیں تھیں کہ ان سے کیا سنگین غلطی ہوئی۔
یہ کہانی ایک گھر کی نہیں،نا ہی تخیلاتی ہے،بلکہ معاشرے کی گھمبیر سچائی ہے. رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہو ئے، آج 18 روزے گذر چکے ہیں اور ہم احتساب کا ایک بہترین موقع فرا موش کر چکے ہیں۔ جوان لڑکے اول تو سحری ہی نہیں کرتے،اور اگر والد کے خوف سے، کرتے بھی ہیں تو برائے نام یا پھر دوستوں کے ساتھ نائٹ میچ، چیٹننگ کی آ ڑ میں تفریح کرتے ہیں باہر ریسٹورینٹ میں مزے اڑاتے ہیں ،اور فراموش کر دیتے ہیں روزہ تو ہمیں صبر و برداشت، تحمل اور درگزر کا درس دیتاہے۔ روزے ہی کے نام پر بھوک پیاس کا پر چار کر کے یا اسے بہانہ بنا کر دوسروں پر لعن طعن، ڈانٹ ڈپٹ اور فتنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں ویٹ لاسٹ کا مہینہ گردانتی ہیں۔ اس ماہ ان کی نگاہ میں فاقے کرنا آسان جو ہو جاتا ہے۔مزید نیولی میرڈ بچیاں معدے کے ذریعے شوہر کے دل تک اترنے کے لیے ماہ صیام میں ہمہ وقت انواع و اقسام کی افطاری بنانے، کوکنگ چینل کو دیکھ دیکھ کر سپر شیف بننے کی جستجو میں لگی رہتی ہیں۔یا پھر رات بھر عید کی شاپنگ کر کے اپنے ارمان نکالنے میں مگن ٹائم پاس کرتی ہیں۔بزرگ افراد سارا دن چڑ چڑے سے رہتے ہیں گویا گن پوائنٹ پر زبردستی روزہ رکھایا ہو۔ اور اپنے ماتحت عملہ یا بیوی بچوں سے احسان جتا دیا جاتا ہے کہ ہم نے اللہ تعالی کی خاطر اس قیامت خیز گرمی میں روزہ رکھا ہے۔ روزے کی حالت میں چڑاہٹ، غصے میں ب بد کلامی اور بگڑتے رویے یا خود پرستی و مفاد پر مبنی خواہشات،کے حصول میں مست ہر ذی شعور مسلمان جانتا ہے کہ روز ہ فقط بھوک، پیاس پر ضبط کا نام نہیں بلکہ اس کا اطلاق تو زبان، اخلاق اور - عمومی رویوں پر بھی ہوتا ہے۔
رمضان تفریح کا، شاپنگ کا، دن بھر سوتے رہنے کا، اپنی من پسند فٹ نیس حاصل کرنے کا مہینہ نہیں بلکہ عبادت کا مہینہ ہے۔ جنت کے حصول کا مہینہ ہے، فرض ستر گنا اور نوافل کا درجہ فرض کے برابر کر کے رب نے مغفرتوں کی، برکتوں کے حصول کی گویا سیل لگائی ہوئی ہے۔ روزے کا مقصد دلوں کو نرم کر کے اللہ کے قرب کو حاصل کرنا ہے اپنے گناہوں سے خلاصی حاصل کرنے کر رب رحمان روزانہ سحتر کے وقت اپنے بندوں کو پکارتا ہے،۔رمضان کہنے کو تو مہمان ہے، مگر اللہ تعالی کی ان تمام بے شمار نعمتوں پر جو اس نے مالا مال کیا ہے ماہ صیام بہت بڑی نعمت ہے اور جو قلب کے خلوص، رب سے بخشش کے طالب ہوتے ہیں وہ اس ماہ میں وقت نہیں گذارتے ٹائم پاس نہیں کرتے بلکہ ماہ صیام کی ہر انمول گھڑی کو حاصل کرتے ہیں اور متاع آخرت کا حصول ان کو دنیوی نعمتوں سے بھی مالا مال کر دیتا ہے۔ماہ صیام کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالی کی خوشنودی نیک اعمال اور عبادات دل، خلوص نیت سے کی جاتیں لیکن افسوس کا مقام ہے۔ہمارا طرز عمل بالکل منافی ہے۔روزے کی اصل روح پہچانیے، اپنا محا سبہ خود کیجیے یہ وزن گھٹانے کا نہیں، تجوریاں بھرنے کا نہیں بلکہ، نیکیاں بڑھانے کا مہینہ ہے روزے کی حالت میں بھی بے دار رہیے، شیطان کے وسوسوں سے چوکنا رہیے زبان کی حفاظت اہم ہے بد اخلاقی، بدکلامی نہ صرف روزے کا اجر کھوتا ہے بلکہ روزہ ہی ضائع کر دیتا ہے تزکیہ نفس کو اپنا معمول بنا کر شیطانی اکساہٹوں سے محفوظ رہیں۔روزے کی اصل روح صبر و تقوی ہے صدقہ خیرات بھوک پیاس کے احساس کو مٹاتا ہے۔ ماہ رمضان ایک تحفہ، ہے اس کی قدر کیجیے اپنے قلب کو نرم و زرخیز بنائیے تلاوت قرآن سے روح،کو تازہ کیجیے صبر و برداشت، صدق دل سے آتا ہے اس ماہ کی قدر کیجیے۔
ا نسانی فطرت ہے کہ وہ ہر اس چیز کی قدر کرتا ہے، جو اس کی پہنچ سے دور ہو۔ پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ افر اور بالخصوص نو جوان رمضان کا پورا مہینہ تو با قاعدگی سے نمازوں اور دیگر عبادات کا اہتمام کرتے ہیں، مگر عید کا چاند نظر آتے ہی ایسے غافل ہوتے ہیں، جیسے انہوں نے اپنی خواہشات کو پورا کرنے اور بہ طور بخشوانے کے لیے روزے رکھے۔حالاں کہ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ اللہ تعالی کی خوشنودی مقدم ہوتی کہ تمام نیک اعمال اور عبادات کی روح خالص دل کی نیت ہے ، یہ ماہ تربیت بھی ہے، یعنی اس ماہ میں اپنے رویے، اپنے اخلاق بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ اگر رمضان المبارک میں اپنائے گئے اچھے اعمال کا اثر ہماری روز مرہ زندگیوں پر نہیں پڑرہا تو یہ لمحہ فکر یہ ہے۔بھی اگر ہماری زندگیوں میں مستقل تبدیلی نہیں لا پار ہا تو کی کیا اور کہاں ہے۔ رمضان تو اپنی بہاریں ویسے ہیں لیے ہوئے آتا ہے، ہر سال ماہ صیام اپنی رحمتوں برکتوں کے ہمراہ سایہ فگن ہوتا رہا ہے اگر ہم محروم ہیں تو مسئلہ تو ہم میں، ہماری سمجھ اور ہمارے کردار میں ہے۔ ہمیں رمضان کریم کی اصل روح کو پہچاننا ہوگا کہ مینہ برساتے اس پاکیزہ مہینے میں ہم اپنے بد صورت رویوں کی وجہ سے کیوں محروم رہے۔/
تبصرہ لکھیے