ہوم << گھر میں تراویح پڑھنا کیسا ہے؟ محمد شاہ رخ خان

گھر میں تراویح پڑھنا کیسا ہے؟ محمد شاہ رخ خان

سلف کی ایک جماعت کا مؤ قف تھا کہ تراویح اور قیام اللیل انفرادی کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ نافع بیان کرتے ہیں:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّهُ كَانَ لَا يَقُومُ مَعَ النَّاسِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ» قَالَ: «وَكَانَ سَالِمٌ، وَالْقَاسِمُ لَا يَقُومُونَ مَعَ النَّاسِ»

عبداللہ بن عمر لوگوں کے ساتھ قیام نہیں کرتے تھے رمضان کے مہینے میں، اور سالم بن عبداللہ بن عمر اور قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہم بھی لوگوں کے ساتھ قیام نہیں کرتے تھے۔
مصنف ابن ابي شيبة: 7714 و اسنادہ صحیح[/arabic]

طحاوی کی روایت کے مطابق: نافع بھی قیام گھر میں ہی کرتے تھے گویا ابن عمر رضی اللہ کے شاگرد، ان کے بیٹے اور ان کا حلقہ انفرادی قیام کا قائل تھا باوجود اس کے کہ باجماعت قیام کو رائج کروانے والے ان کے والد ہی تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ۔
اسی طرح کسی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
کیا میں امام کے پیچھے کھڑا ہوکر قیام کروں رمضان میں؟
تو آپ نے جواب دیا: تُنْصِتُ كَأَنَّكَ حِمَارٌ

تم کیا خاموش کھڑے رہو گے گدھے کی طرح؟
ایک روایت میں یہ بھی اضافہ ہے: صل في بيتك

اپنے گھر میں نماز پڑھو۔
مصنف ابن ابي شيبة: 7715 و اسنادہ صحیح أَنَّهُ كَانَ يَقُومُ فِي بَيْتِهِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَإِذَا انْصَرَفَ النَّاسُ مِنَ الْمَسْجِدِ أَخَذَ إِدَاوَةً مِنْ مَاءٍ، ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى مَسْجِدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لَا يَخْرُجُ مِنْهُ حَتَّى يُصَلِّيَ فِيهِ الصُّبْحَ

ابن عمر رضی اللہ رمضان میں اپنے گھر میں قیام کرتے تھے. پھر جب لوگ مسجد سے قیام کر کے چلے جاتے تو وہ پانی کے ڈول اٹھاکر مسجد ِ نبوی ﷺ چلے جاتے اور صبح تک نماز پڑھتے رہتے اور مسجد سے تب تک نہ نکلتے۔
السنن الکبری للبیھقی: 4280 واسنادہ صحیح

امام ابراھیم نخعی کہتے ہیں:
لَوْ لَمْ يَكُنْ مَعِي إِلَّا سُورَةٌ أَوْ سُورَتَانِ لَأَنْ أُرَدِّدَهُمَا، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقُومَ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ

اگر مجھے ایک دو سورتیں ہی یاد کہ میں انہیں دہراتا رہوں، تو میرے لیئے یہ زیادہ بہتر ہے امام کے پیچھے کھڑے ہونے سے، رمضان میں۔
مصنف ابن ابي شيبة: 7716

امام حسن بصری رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ رمضان آنے والا ہے، لوگ مسجد میں قیام کریں گے، میں لوگوں کے ساتھ قیام کروں یا پھر اکیلے نماز پڑھوں؟
انہوں نے فرمایا: تَكُونُ أَنْتَ تَفُوهُ الْقُرْآنَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُفَاهَ عَلَيْكَ بِهِ

تم خود قرآن پڑھو یہ زیادہ بہتر ہے میرے نزدیک کہ تم پر قرآن پڑھا جائے۔
مصنف ابن ابي شيبة: 7717

اسی طرح عروہ بھی عشاء کی نماز پڑھ کی گھر چلے جاتے تھے، اور سعید بن جبیر مسجد میں جماعت کے باوجود الگ قیام کرتے تھے۔
شرح معانی الآثار: 2066-2067

امام اشعث بن سلیم کہتے ہیں کہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مکہ میں آیا تو مسجد میں با جماعت قیام ہوتا تھا اور بہت سے لوگ مسجد میں ہی جماعت کے باوجود علیحدہ قیام کرتے تھے۔ نیز امام طحاوی نے بھی انفرادی قیام کو ہی افضل قرار یا ہے۔
شرح معانی الآثار: 2069

امام عبدالبر رحمہ اللہ الاستذکار میں فرماتے ہیں:
واختلفوا في الأفضل من القيام مع الناس أو الإنفراد في شهر رمضان ؛ فقال مالك والشافعي : صلاة المنفرد في بيته في رمضان أفضل .وقال مالك : وكان ربيعة وغير واحد من علمائنا ينصرفون ولا يقومون مع الناس .قال مالك وأنا أفعل ذلك ( يعني الانصراف) وما قام رسول الله إلا في بيته

اہل ِ علم کا اس بات میں اختلاف ہے کہ لوگوں کے ساتھ قیام کرنا بہتر ہے یا رمضان میں یا اکیلے؟، امام مالک اور شافعی کہتے ہیں گھر میں اکیلے نماز پڑھنا رمضان میں افضل ہے، اور امام مالک نے کہا کہ: ربیعہ وغیرہ ہمارے مشائخ میں سے گھر چلے جاتے تھے اور لوگوں کے ساتھ قیام نہیں کرتے تھے۔امام مالک نے یہ بھی کہا کہ: میں بھی گھر چلا جاتا ہوں اور رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ گھر میں ہی قیام کیا ہے۔

لہذا جن احباب کو مساجد میں قیام کا موقع نہ ملے، وہ بالکل بھی پریشان نہ ہوں، اسلاف میں سے ایک بڑی جماعت کا یہی مؤقف رہا ہے کہ خود اکیلے قیام کیا جائے اور جن کو قرآن یاد نہ تھا، وہ قرآن کھول کر اس سے دیکھ کر قیام کرتے تھے، یا انہی سورتوں کو بھی بار بار دہرایا جاسکتا ہے جو یاد ہوں۔
واللہ اعلم