ہوم << اسلامی فلاحی ریاست:تصوراور تقاضے - ڈاکٹرمولانامحمدجہان یعقوب

اسلامی فلاحی ریاست:تصوراور تقاضے - ڈاکٹرمولانامحمدجہان یعقوب

کسی بھی دور میں اگرکوئی مخلص ومنصف مزاج حکمران یا جماعت، اسلامی فلاحی ریاست قائم کرنا چاہے تواس کے لیے سب سے بڑھ کر جو ریاست رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے اور اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ جس پر عمل کیا جاسکتاہے وہ ایک ہی ہے اور یہ ،وہ ریاست ہے جو سیدالرسل خاتم الانبیا محبوبِ کبریا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد قائم کی تھی،چونکہ یہ ریاست مدینہ منورہ میں قائم ہوئی تھی یا بالفاظِ دیگر اس کا دارالخلافت مدینہ منورہ تھا،اس لیے اسے ریاستِ مدینہ کہاجاتاہے۔اسلام کا قیام بھی اسی لیے وجود میں آیا تھا کہ ہم اسے ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے،لیکن افسوس!تادم تحریر یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔مستقبل قریب میں اللہ کرے کوئی مخلص قیادمت اٹھے اور اس ملک کو اس کے مقصدِ تخلیق سے ہم آہنگ کردے۔ذیل میں اسی جذبہ صادق کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردی ریاست کے خدوخال بیان کیے جاتے ہیں۔

ریاست مدینہ کی سیاست کے دو بنیادی نکتے تھے:اول یہ کہ مقتدر اعلیٰ اورحاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے۔دوم یہ کہ دعوت حق کا فروغ کسی صورت میں رُکنا نہیں چاہیے۔ ریاست مدینہ کی ساری سیاست انہی نکتوں کے گرد گھومتی تھی۔ کوئی لشکر روانہ کرنا ہو یا مذاکرات، خارجہ پالیسی ہو یا عسکری پالیسی؛ ان ہی دو نکتوں کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ کسی اندرونی یابیرونی دباؤ،ترغیب وتحریص اور دھونس دھمکی کو خاطر میں نہیں لایا جاتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ ریاست مدینہ میں صرف عقائداور عبادات پر زور نہیں دیا گیا،بلکہ اس ریاست میں وہ تمام اقدامات بروئے کار لائے گئے،جن کی کسی بھی کامیاب معاشرے اور سوسائٹی کے لیے ضرورت ہے۔ریاستِ مدینہ کا وجود صحیح آزادی رائے کا مجسم نمونہ تھاجس میں معاشرے کے ہر طبقے خواہ وہ غلام ہوں، خواتین ہوں یا دیگر شہری سب کو اپنے مافی الضمیرکے اظہارکے مکمل مواقع میسرتھے اور ان پر کوئی قدغن نہیں تھی۔ فجرکی نماز کے بعد محسن انسانیتﷺ مسلمانوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ جاتے اور مردوخواتین میں سے جو بھی جو پوچھنا چاہتا اسے ادب و احترام کی حدود کے اندر مکمل آزادی تھی۔

حضور اکرم ﷺ کے عہد میں چونکہ یمن اور حجاز اسلامی حکومت میں شامل ہو چکے تھے۔ اس لیے آپ ﷺ ان علاقوں میں والی مقرر کرتے ہوئے ان کے تقوی، علم و دانش، عقل و عمل اور فہم کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے۔اسلامی ریاست میں مختلف عہدوں پر تقرر کا ایک معیار مقرر کیا گیا ۔ امرا کے انتخاب میں حضور اکرم ﷺ کی حکمت عملی کا ایک اہم جز یہ تھا کہ جو لوگ والی بننے کی درخواست کرتے، ان کی درخواست رد کر دیتے،کیونکہ عہدہ اور منصب بھی ایک طرح کی امانت ہے جو بد دیانت کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔جب آپﷺ نے مدینہ منورہ کو ریاست بنایا تو آپ نے حکومتی اختیارات کو نچلی سطح تک یوں منتقل کیا ،کہ ہر دس افراد پر ایک نقیب مقرر کیا، دس نقیبوں پر ان کا سربراہ عریف بنایا اور پھر سو عرفا پر مشتمل پارلیمنٹ بنائی۔ اس طرح عوام کو براہ راست پارلیمنٹ میں شراکت دے کر ان کی آواز ایوان تک پہچانے کا ذریعہ بنا دیا۔