ہوم << لاہور میں یونیورسٹی طالبہ کے ساتھ زیادتی کا ایک اور واقعہ- ابوبکر قدوسی

لاہور میں یونیورسٹی طالبہ کے ساتھ زیادتی کا ایک اور واقعہ- ابوبکر قدوسی

لاہور کی ایک یونیورسٹی کی ایک طالبہ کے ساتھ زیادتی کا واقعہ کوئی ایسا پہلا کیس تو نہیں ، اور آپ کی ہاہاکار اور دکھ و تاسف کا اظہار بھی کوئی نئی بات تو نہیں ۔

لیکن ! جب تک بیماری کے اسباب کو درست طور پر کھوج نہ لیا جائے اور تشخیص عمدگی سے نہ کی جائے تب تک علاج ممکن نہیں ہے ۔ اور خرابی کی جڑ " اختلاط " ہے ۔ عورت تک مرد کی آسان رسائی ، بارود کے پہلو میں دیا سلائی ، پٹرول کے کین کو چولہے کے نیچے رکھنا ، دھوپ میں نازک سی موم بتیاں رکھ چھوڑنا ۔۔۔۔ اور چاہنا کہ سب بچ پائے ۔ اس کیس کی تفصیلات بھی وہی سامنے آ رہی ہیں کہ خرابی اختلاط اور باہم ربط و ضبط کی تھی ، پہلے سے طے شدہ ملاقات تھی بس ملزم نے ساتھ دو اور دوست بلا لیے ۔ اور پھر وہی کہانیاں کہ جو روز سنتے ہیں۔

ہمیشہ وہ ڈاکٹر بہترین علاج کر سکتا ہے کہ جو تشخیص کا عمدہ ملکہ رکھتا ہے ، ایک بار تشخیص درست ہو جائے اور مریض علاج کا ارادہ بھی کر لے اور علاج کی راہ پر چل نکلے تو آخر منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ لیکن جب حقوق کے نام پر آزادی اور اختلاط کو اختیار کیا جائے ، عورت تک رسائی آسان ہو جائے ، اور خود عورت گھر اور دل کا دروازہ ہمہ وقت کھلا رکھے تو چور آئے گا ، نقب لگے گی ۔

اور ہاں ! آزادی و خودمختاری ، ترقی و تعلیم کے نام پر جو دانش بگاری جاتی ہے اس کے ڈانڈے بھی اسی رسائی سے جا ملتے ہیں ۔ بلاشبہ عورت کی تعلیم ضروری ہے ، کہ باشعور معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں عورت کا کردار مرد کے برابر ، بلکہ کچھ بڑھ کر ہے ۔۔ بڑھ کر یوں کہ مرد تو کام کاج پر نکل جاتے ہیں پیچھے اولاد کی تربیت و تعلیم کے معاملات عورت نے ہی دیکھنے ہوتے ہیں اور ان پڑھ عورت کیا دیکھ پائے گی ۔۔ سو تعلیم تو معاشرے کے تعمیر واسطے ہوئی ضروری ۔۔۔۔

سوال مگر یہ ہے کہ عورت کو مرد کے ساتھ والے ڈیسک ، کمرے ، سکول اور کالج و یونیورسٹی میں ہی بٹھا کر تعلیم کیوں ضروری ہوئی ؟ الگ الگ ادارے کیوں قائم نہیں کیے جا سکتے ؟ لمبی ڈیبیٹ اور بحث ہے ، عورت کا کام معاشرے کی تعمیر میں مرد کی طور پورا حصّہ ہے لیکن کیا معاشرے کی تعمیر واسطے اسے دفاتر کے ریسیپشن ، ہوٹلوں کی لابیوں ، شاپنگ مالز کی راہداریوں ، اور دفاتر میں آجانا ضروری تھا ؟

صحت اور تعلیم کے شعبے واحد ایسے ہیں کہ عورت کا وہاں جانا اور نکلنا مجبوری ہے اور ضرورت بھی ۔۔۔ عورتیں استاد بنیں ، ڈاکٹر بنیں اور اپنے الگ ادارے چلائیں ۔۔۔ ہڈ حرام مرد کام کریں اور پورے طور پر کریں ، عورتیں جو ملتا ہے اس پر قناعت کریں ۔۔۔۔۔ گھر کی روٹی کھائیں ، نہ کھائیں روز تکے کباب اور پیزے ۔۔۔۔ شاپنگ ضرورت کی کریں ، لازمی نہیں کہ سردیوں میں ہر فرد دس سویٹر لنڈے کے خریدے ، کثرت کی ہوس ختم ہو ، ہفتے میں ایک بار مرغی گوشت پک جائے ، تو کوئی قیامت نہیں آ جاتی ۔۔۔ لیکن کثرت کی ہوس نے ، اور خود مختاری کے مطالبے نے عورتوں کو " سڑکوں سڑک " کر دیا ، مردوں کی آمدنی کم پڑ گئی ۔۔۔۔۔ میڈیا کی چکا چوند ، ماڈلز کے کپڑے ، ٹک ٹاک کلچر ، دوسروں کی بھری ہوئی جیبوں نے معاشرے کا سارا توازن برباد کر دیا اور ۔

اب روز ایسے قصے سنتے ہیں جو پیش آیا ، ہر چند ہفتوں بعد ایسے حادثات وائرل ہوتے ہیں کچھ ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور پھر وہی کچھ ۔