لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو بچھڑے آج ایک سال مکمل ہوا.
لاہور شفٹ ہونے کے بعد میں باقاعدگی سے ڈاکٹر صاحب سے ملنے جاتا. اگر بوجوہ سفر یا کسی مصروفیت دو چار دن ملاقات نہ بھی ہو پاتی تو وہ فون کر کے حال احوال لے لیتے اور ملاقات کےلیے طلب کر لیتے. یہ آخری سال وہ ایک سال ہے جس میں میرے حسن ابدال سے لاہور منتقل ہونے کے بعد سب سے کم اُن کے گھر جانا ہوا. یہ پڑھنے سمجھنے میں شاید تھوڑا عجیب لگے لیکن 28 ڈی (اُن کا ہاؤس نمبر) جائیں اور ڈاکٹر صاحب سے ملاقات نہ ہو تو من گھنٹوں اک عجب افسردگی میں ڈوبا رہتا ہے. اُن کا کمرہ، تخت، میز، کتابوں کا ڈھیر، اخبار اور کوئی نا کوئی مزیدار شے جس سے وہ آنے والوں کی تواضع کرتے، سب نظروں کے سامنے گھومنے لگتا ہے.
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی میرے حقیقی پھوپھا، میرے ابا کے ماموں زاد، میری بہن کے سُسر اور ہمسائے تھے. لیکن ان سے بڑھ کر میرے اور میرے ابا ڈاکٹر عبداللہ شاہ ہاشمی کے محسن تھے. ابا جی نے بچپن سے ہی ہمیں اپنے جن دو محسنین کے بارے میں بتایا، اُن میں ایک اُن کے ماموں حکیم عبدالرحمٰن ہاشمی اور دُوجے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی تھے. ان دونوں شخصیات کے بارے وہ ہمیشہ ممنون رہتے اور بہت محبت سے ذکر کرتے. اسی نسبت سے ہم بھی ان دونوں شخصیات کا بے حد احترام کرتے اور ان کی خدمت بجا لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے.
جو لوگ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو جانتے ہیں وہ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ ایک 'انٹرو ورٹ' شخص تھے. زیادہ ملنے جلنے اور گپ شپ سے کتراتے تھے اور صرف اپنے علمی کام پر فوکس رکھتے تھے. لیکن مجھے یہ اعزاز حاصل تھا کہ میں ڈاکٹر صاحب سے کسی بھی موضوع پر بات کر لیتا، خوب گپ شپ رہتی، لطیفے سناتا حتیٰ کہ کسی پولیٹیکل یا تاریخی واقع پر بنی فلم پر ریویو بھی دیتا. جواباً ڈاکٹر صاحب بھی ہنستے مسکراتے، دلچسپ واقعات سناتے اور مختلف واقعات پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتے. کئی واقعات و معاملات میں سب سے پہلے فون کرتے. میں نے ہمیشہ اُن سے ملاقات اور گفتگو میں اس بات کا خاص خیال رکھا کہ انہیں اچھا محسوس کرا سکوں. ہلکے پھلکے موضوعات پر گفت و شنید پر وہ بھی ہلکا پھلکا محسوس کریں، ہنسے مسکرائیں.. جس میں، میں اکثر و بیشتر کامیاب ہی رہتا.
پھوپھا جی کو میں نے بچپن سے ہی دھان پان، خاموش طبع، ڈسپلنڈ اور اپنے کاموں میں مگن دیکھا. ہم حسن ابدال سے لاہور جاتے کچھ دنوں کےلیے لازماً لاہور رکتے جہاں ہم لڑکوں کا کمرہ پھوپھا جی کی لائبریری کے ساتھ ہوتا. لائبریری ایک کتابوں سے اَٹا ہوا کمرہ تھا جس کے بیچوں بیچ ایک میز کرسی اور ٹیبل لیمپ، ایک جانب اقبال کے شاہین جیسا کلاک اور بہت سے سوینئر.. سچ کہوں تو وہ کمرہ مجھے بہت 'فیسنیٹ' کرتا. کسی فلم کے سیٹ کے جیسا. میں اس کمرے میں جا کر کھو سا جاتا. اگرچہ زیادہ تر کتب اقبالیات پر ہی ہوتیں لیکن پھر بھی کوئی سفرنامہ، افسانہ یا خودنوشت ہاتھ آ ہی جاتی. بہت چھوٹے ہوتے ہمیں اکثر سیر پر لے جاتے اور واپسی پر سیر کی روداد لکھنے کی ترغیب دیتے اور ہم کچھ نہ کچھ لکھ کر دکھاتے بھی. میرے آڑے ترچھے لکھنے میں اُن کی ترغیب اور حوصلہ افزائی بعد میں بہت کام آئی.
ڈاکٹر صاحب بچپن سے ہی ہمارے ہیرو تھے. ہم انہیں ٹی وی پروگرامات میں دیکھتے، مختلف جریدوں میں اُن کے مضامین پڑھتے، لائبریریوں میں دوستوں کو اُن کی کتابیں دیکھا کر اپنا تعلق بتاتے، اُن کی بیرون ممالک دوروں کی تصاویر دیکھ کر محظوظ ہوتے. پیشہ وارانہ زندگی میں قدم قدم پر اُن کے جاننے والوں اور چاہنے والوں سے ملاقات ہوتی جو ان کےلیے سلام اور دعا پہنچانے کا کہتے.
پھوپھا جی گرمیوں کی چھٹیوں میں ایبٹ آباد یا حسن ابدال آتے، تب بھی اُن کے ساتھ مسجد جاتے واک کرتے بہت ساری باتیں ہوتیں. لیکن تب دوستی نا تھی. پھوپھا جی کے ساتھ قدرے بے تکلفی اور دوستی لاہور شفٹ ہونے کے بعد ہوئی. حسن ابدال سے لاہور شفٹنگ کے دوران میں انٹرمیڈیٹ کے پیپر نہ دے سکا. اس صورتحال میں ہر والد کی طرح میرے والد بھی مجھ سے سخت نالاں تھے اور تب اُس شدید دباؤ میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی میرے 'سیویر' تھے. اُن کی رہنمائی میں، میں نے پرائیویٹ ایف اے میں داخلہ بھجوایا. میں پڑھائی کےلیے صبح ان کے پاس چلا جاتا اور دن بھر ساتھ رہتا. وہ پڑھائی میں میری رہنمائی کرتے، کچھ لکھنے پڑھنے کا کام ذمے لگاتے اور سب سے بڑھ کر تب ان کے ساتھ اقبال اکیڈمی اور مجلس ترقی ادب سمیت کئی اداروں میں جانا ہوتا. معروف شعراء اور ادیبوں سے ملاقاتیں ہوتیں. وہ سب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی بے انتہا عزت کرتے اور میں ان سب سے مل کر خوش ہوتا. اس ساری مشق میں کئی نایاب کتب نظر سے گزرتیں، کچھ کی ورق گردانی بھی کر پاتا. بعد میں، میں بھی ڈاکٹر صاحب کو کئی پروگرامات میں لے کر جاتا، دوستوں سے ملواتا. کتابیں تحفہ کرتا.
میرے ہوش سنبھالنے سے لے کر گزشتہ سال تک ڈاکٹر صاحب کئی مرتبہ ایسے بیمار ہوئے کہ شدید پریشانی رہی، کئی کئی دن ہسپتال میں رہے. پاکستان سے شدید محبت کرتے تھے. انہوں نے ہمیشہ پاکستان کے جھنڈے والا بیج اپنے کوٹ یا واسکٹ پر لگایا ہوتا. حتیٰ کہ ہسپتال میں بیماری کے دوران بھی پاکستان کا جھنڈا اُن کے سینے پر رہا. میں ہسپتال میں بھی گپ شپ کےلیے چلا جاتا اور دل بہلانے کو کئی باتیں ہوتیں. کبھی لیپ ٹاپ لے جاتا، پرانی تصاویر دیکھتے، مسکراتے اور میں اسی کو اپنی کامیابی سمجھ کر قدرے مطمئن ہو جاتا. آخری ایک سال میں گلے کے پٹھے کمزور ہونے کے باعث بولنا مشکل ہوگیا تھا تو گفتگو بھی کم کرتے لیکن وٹس ایپ پر میسج ضرور کرتے.
لاہور شفٹ ہونے کے ساڑھے 19 سال ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے ملاقاتیں رہیں، ساتھ سفر بھی ہوئے، کئی دعوتوں میں اکھٹے رہے (جہاں وہ اپنا کھانا ساتھ لے کر آتے)، خوشی غمی زندگی کے ساتھ ساتھ ہیں لیکن زندگی کے اس نشیب و فراز میں جو ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا خاصا رہا اور جو ہم اُن سے سیکھ سکتے ہیں وہ اُن کا وقت کا درست استعمال، حُب الوطنی، محنت، سادگی، صبر، شکر، قناعت، اُمید، اپنے کام سے محبت، دوسروں کو سپیس دینا، حقوق و فرائض کا توازن اور توکل اللہ ہے. ڈاکٹر صاحب کی علمی و ادبی خدمات پر ان کے ہمعصر اور شاگرد خوب لکھ چکے یا لکھیں گے. میرے لیے تو وہ خاندان کے شفیق بزرگ تھے جو ہمیشہ ہمارے لیے باعث خیر و برکت رہے.
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
اللہ ہمارے ڈاکٹر صاحب کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کےلیے صدقہ جاریہ بنائے آمین ثم آمین
تبصرہ لکھیے