ہوم << نوجوان فاضل مولانا محمد اکبر کی دو کتابیں - طفیل ہاشمی

نوجوان فاضل مولانا محمد اکبر کی دو کتابیں - طفیل ہاشمی

"آئیے رب سے باتیں کریں …اور ...اللہ ہے نا "

ایک ہی سلسلے کی دو کتابیں ہیں جو اللہ سے ناخوش بندوں کو اللہ سے ملانے، اس سے محبت کرنے، اپنے ہر کام کا کامیاب طریقہ اس سے پوچھ کر زندگی کو ہر قسم کے غم اور خوف سے محفوظ کرنے کے قرآنی رہنمائی کے اسباق پر مشتمل، عمل میں آسان مثبت نتائج کی یقینی ضمانت ہیں.

سوشل میڈیا، یو ٹیوب پر عملیات کا ایک سیلاب رستاخیز ہے جو انسان کو اس طرح خدائی منصب پر فائز کر دیتا ہے کہ خود خدائے کن فیکون کی بھی سنت یہ نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے معجزات کے گل وگلزار سجاتا چلا جائے. آپ کچھ بھی چاہتے ہوں اور جتنے بھی فوری نتائج چاہتے ہوں کوئی نہ کوئی شیخ الوظائف، مرشد جنات، عامل کن فیکون قسمیں کھا کھا کر، بیت اللہ میں بیٹھ کر آپ کو یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ آپ اس کے شیطانی جال میں پھنس جائیں.اس کا واحد مقصد اپنا چینل چلا کر اپنی ہوس زر کی تسکین کرنا ہے اور بس.امرواقعہ یہ ہے کہ شب وروز وظائف کر کر کے لوگ مخبوط الحواس ہو جاتے ہیں اور ان کے کام سرے سے نہیں ہوتے.

کیونکہ ایک طرف اللہ کی رحمت اور فضل کے بجائے ان کاوظیفے کی کارستانی پر یقین ہوتا ہے جو ایمان کے منافی ہے.
دوسرے مطلوب کام کے لیے اللہ کے مقرر کردہ وسائل اور طریق کار کو اختیار کرنے کے بجائے سارا زور شب و روز کی غٹر غوں پر ہوتا ہے اور اللہ کے پیدا کردہ اسباب سے بے اعتنائی اللہ کی توہین کے مترادف ہے،اللہ اپنے دشمنوں کو نہیں نوازتا. لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اس زندگی میں مسائل و مصائب کا سامنا رہتا ہے اور ان سے کامیابی کے ساتھ نکل آنا ہر فرد کی ایک جائز خواہش ہے. اسی خواہش یاضرورت کو پورا کرنے کے لیے اللہ نےقرآن حکیم نازل کیا.

جس میں زندگی کے تمام مسائل کا حل اور تمام مصائب سے نجات اور تمام خواہشات کے حصول کے طریقے بتائے ہیں. صحابہ کرام جو نزول قرآن سے پہلے خوش حال تھے نہ دنیا کے قائد نہ عالمی شہرت کے حامل.... ان کے ہاں کہیں کوئی شیخ الوظائف تھا نہ مجالس ذکر نہ ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر چلہ کشی، نہ کنوئیں میں الٹا لٹک کر مراقبہ.. زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں تھے لیکن جب قرآن نازل ہوا تو قرآن کو سمجھ کر پڑھتے اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے، نتیجتاً وہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جو دنیا میں کسی کو نہیں مل سکا.

قرآن آج بھی وہی ہے اور آج بھی اسی طرح ساری کائنات بخشنے کو تیار ہے.ضروری نہیں کہ ہم اپنے مسائل و مصائب سے نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں کے بجائے وظائف و عملیات کو اوڑھنا بچھونا بنالیں. کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنے ایسے کسی خرقہ پوش کو اپنا مرشد بنا کر اس کے بتائے ہوئے ذکر و اذکار کے ذریعے اپنے باطنی لطائف بیدار کرتے ہیں.

ان کی افادیت سے انکار نہیں لیکن یہ قرآن کے مقابلے میں انسانی طریق تزکیہ ہے جو قطعی ہے نہ پائیدار. چند دن کسی بھی ذکر کی ضربیں لگانے سے دوچار روز میں اندر کی کھڑکیاں بجنے لگ جاتی ہیں اور بندہ سمجھتا ہے کہ میں منصب ولایت پر فائز ہو گیا ہوں لیکن یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خود مشائخ عظام کن کن اخلاقی خرابیوں کا شکار ہوتے ہیں جبکہ قرآن تزکیہ کا جو طریقہ بتاتا ہے اس کے ذریعے آج بھی سالک اس مرتبہ احسان پر پہنچ سکتا ہے جو السابقون الأولون کے لیے مختص ہے.

والذين اتبعو ھم بإحسان. رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ

ہر انسان کی یہ جائز خواہش ہوتی ہے کہ اس کی زندگی پرسکون، آسودہ اور کامیاب ہو، جب بھی کوئی مسئلہ پیش آئے میرے پاس اس کا قطعی اور یقینی قابل عمل حل موجود ہو. یہ اعزاز اللہ نے اس نوجوان کو عطا کیا جو زندگی کے ہر ہر مسئلے کا حل قرآن سے پوچھ کر آسان، موثر اور دلآویز انداز میں ہمارے سامنے رکھنے کی سعادت سے نوازا گیا ہے.

آئیے اپنی زندگیوں کو آسان اور کامیاب بنانے کے لیے قرآن سے رہنمائی لیں اور اس مقصد کے لیے مذکورہ دونوں کتب کو حرز جان بنا لیں.

Comments

Click here to post a comment