وہ خواتین جو کسی بھی وجہ سے کسی کی دوسری، تیسری یا چوتھی بیوی بننے کو تیار ہیں کم از کم چند باتوں کو ذہن نشین کرلیں۔۔
1) آپ نے کبھی اس نیت سے شادی نہیں کرنی کہ مرد کو اپنے قابو میں کرکے اس کا پچھلا بسایا گھر برباد کرنے کی کوشش کریں گی۔۔
2) جو مرد شروع سے الگ سیٹ اپ دینے کو تیار نہ ہو وہاں شادی نہیں کرنی۔۔ گھر بھلے ساتھ ہی ہوں پر پارشن الگ ہونا ضروری ہے۔۔
3) مرد کی دوسری تیسری شادی ہو یا خواہ پہلی ہی کیوں نہ ہو دین کا اولین ترجیح دیتا ہو تب ہی کنسیڈر کریں گی۔۔ دین داری کیا ہوتی ہے اس پر ہماری تحریر وال پر پڑھ لیجیے۔۔
4) کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے استخارہ لازمی کریں گی۔۔ اس کا مفصل طریقہ بھی تحریری شکل اور پی ڈی ایف میں موجود ہے۔۔
5) کوئی آپ کو اپروچ کرے یا آپ کسی کو، فوری یا اس سے پہلے اپنے گھر والوں سے اس بات کی تسلی کروائیں کہ وہ اس قسم کی شادی کے لیے راضی ہوں گے اور ساتھ دیں گے یا نہیں ؟
6) کسی سے چھپ کر، خفیہ شادی کرنے کو کبھی تیار نہیں ہوں گی۔۔ شادی تو ہو جاتی ہے پر بعد میں اس قدر مسائل کھڑے ہوتے ہیں کہ اللہ بچائے ایسے معاملات سے۔۔
7) آپ پہلی بیوی ہوں یا دوسری، دونوں طرف سے یہ سمجھ لینا ہے کہ جو اپنے شوہر کی بیوی ہے وہ دشمن نہیں ہے، آپ دونوں کا اسلام میں بہن کا رشتہ ہے۔۔
😎 اس تحریر میں بتائی گئی کوئی بات ہضم نہیں ہوتی تو آپ اہل نہیں ہیں ایسے کسی رشتے میں بندھنے کے لیے۔۔ کنوارا ہی ڈھونڈیں۔۔
9) معاملات میں شوہر ایک طرف جھکاؤ دینے لگے تو آپ کا کام ہے اسے انصاف کرنے کا زور دینا۔۔ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ اگر شوہر کا جھکاؤ آپ کی طرف ہے تو یہ فتح نہیں نقصان ہے، اسے ترغیب دی جائے کہ دوسری کے ساتھ بھی انصاف کرے۔۔ اور دوسری پہلی کے لیے بھی یہی احساس و میزان رکھے۔۔
10) نکاح باقاعدہ اعلانیہ ہو، جس میں نکاح کی تمام شرائط کا خیال رکھا جائے جیسے ولی کی موجودگی، دو طرفہ عادل، عاقل و بالغ گواہان، حق مہر، عاقل و بالغ فریقین کا ایجاب و قبول۔۔ اس کے علاوہ ولیمہ سنت ہے جو کرنا بہت بہتر ہے۔۔
11) انصاف کے مابین تمام شرائط قبل از نکاح ہی تحریر شکل میں طے ہوں جس میں نان نفقہ، رہائش اور وقت شامل ہے۔۔ دونوں طرف سے کوئی اضافی جائز شرط ہو تو بوقت نکاح اس کا معاہدے میں شامل ہونا ضروری ہے۔۔
12) ہاں عورت کے لیے مشکل ہے، جیلسی ہوتی ہے پر اگر شوہر حقوق و فرائض پورے کرنے میں کوتاہی نہیں برتتا تو اللہ کی رضا میں راضی ہونا سیکھیں، صرف اپنا سوچنا منفی ترین خود غرضی ہے، مردوں کی دین داری سمجھنے پر تو پوری تحریر لکھ رکھی ہے، جس عورت کی دین داری سمجھنی ہو اس سے محض اس کی دوسری شادی پر رائے پوچھ لیں کیونکہ یہی اس کی سب سے بڑی آزمائش اور جـہاد ہے جس پر ہر عورت پورا نہیں اترتی۔۔
13) ہاں، یہی دیکھا گیا ہے کہ عورتوں کے ساتھ مرد انصاف نہیں کرتے، تو جو کوئی عورت آپ کو اس کے خلاف ملتی ہے وہ زیادہ تر اس لیے کیونکہ اس نے ہمیشہ اپنے ارد گرد دوسری شادی والوں میں کسی ایک کو یا سب ہی کو ذلیل و خوار ہی دیکھا ہے، وجہ ؟ دین سے دوری! کوئی عمدہ مثالی نمونے اس کی آنکھوں کے سامنے آئے ہی نہیں۔۔ اس سوچ کو بدلنے کے لیے اگر آپ بطورِ مرد کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمت کریں، قوام بنیں، مثال بنیں اور ان شرائط پر پورا اتریں پھر شوق سے کریں۔۔ یہ نہ ہو کہ پہلی کی گاڑی تو اچھے سے چل نہیں رہی تو اسے لٹکتا چھوڑ کر دوسری کی طرف لپکتے چلے جائیں۔۔ پہلی کامیاب ہو تب ہی مزید کا سوچیں۔۔ دو کیا چار کرلیں اگر اچھے سے نبھا سکتے ہیں تو۔۔ جس کا پہلا تجربہ اچھا ہو وہ جانتا ہے بیوی کو کیسے خوش رکھا جا سکتا ہے، ایک کو رکھتا آیا ہے تو آپ کو بھی رکھے گا ان شاء اللہ۔۔
14) آخری نکتہ جو سب سے اہم ہے اور تحریر کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ جو مرد دوسری تیسری یا چوتھی کرنے کا خواہاں ہے، اس سے مطالبہ کیا جائے کہ کچھ بھی طے ہونے سے پہلے اپنی دیگر بیگمات سے پیشگی بات کروائے ہونے والی بیوی کی۔۔ جس مرد کے کردار، انصاف، حقوق و فرائض کی گواہی اس کی بیوی خود دے گی (اجازت نہ بھی دے تو خیر ہے کہ یہ شریعت میں درکار نہیں، ہاں قانونی تقاضے کے طور پر دے دے تو سونے پر سہاگہ) لیکن حق بات کہے کہ یہ بندہ کم از کم انصاف کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اور جان بوجھ کر بیویوں سے حق تلفی نہیں کرتا۔۔ عبادات و معاملات میں شریعت ہی کو نفس پر ترجیح دینے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور آج کل کے دور کے حساب سے اچھا شوہر ہے جو نصیب والیوں کو ملتا ہے۔۔ اگر کو کسی کی بیوی اس بات کی گواہی دیتی ہے تو پھر آپ اللہ اور اپنے بڑوں سے مشورہ کرکے بات آگے بڑھا سکتی ہیں۔۔
لیکن جو کوئی کہتا ہے کہ ابھی اپنی بیوی کو نہیں بتا سکتا، بعد میں بتائے گا۔ وہ ایک شادی بھی ڈھنگ سے چلا نہیں پایا۔ اب دوسری زندگی پر قسمت آزمانا چاہتا ہے۔ اس کی ایسی خواہش بھلے ہی کسی کی زندگی برباد کردے اس کو فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس کے سر پر عورت سوار ہے جو جیسے ہی مل جائے گی تو دوسری سوار ہو جائے گی۔۔ اور جو عورت اس بات پر راضی ہو وہ تو اپنے پیر پر خود کلہاڑا مارتی ہے کہ راز کھلنے پر شوہر نے یا تو اسے چھوڑ دینا ہے یا پہلی کو چھوڑ دینا ہے دونوں صورتوں میں تینوں کی ہی دنیا و آخرت کا نقصان ممکن ہے کیونکہ مرد کو قوام بننا نہیں آیا۔۔
ہاں اگر کوئی اس قدر مجبور ہے کہ اپنے حصے میں سے کچھ حقوق خود چھوڑنا چاہے لیکن بس یہی خواہش ہو کہ گھر بس جائے تو یہ معاملہ نکاح سے قبل باہمی رضامندی سے طے پایا جا سکتا ہے کہ مجبوری میں تو انسان کو سروائو کرنے کی کوشش کرنی ہی چاہیے پر یہ کوئی آییڈیل سچویشن نہیں۔۔
یہاں کچھ لوگ کہیں گے کہ انعام صاحب آپ تو ناممکن سی باتیں کر رہے ہیں تو جناب مٹی میں دبا ہوا سر باہر نکالیں تو نظر آئے گا کتنے ہی گھر سکون و خوشحالی سے اس ڈگر پر چل رہے ہیں جہاں متعدد ازواج ہونے کے باوجود سارے معاملات خوش اسلوبی سے ہو رہے ہیں۔ وجہ؟ ان خاندانوں کی زندگی کی ڈور اللہ کے سپرد ہے، وہ شریعت پر عمل پیرا ہیں اور دنیا سے زیادہ آخرت کو ترجیح دیتے ہیں۔۔ ہمارا حلقہ بعض اوقات اتنا محدود اور اپنے جیسا ہی ہوتا ہے کہ دین پر چلنے والے اجنبی ہمیں نظر ہی نہیں آتے۔۔ میرے معاملات رہتے ہیں تو ایسے کئی گھروں کا میں عینی شاہد ہوں۔۔
تحریر کی دوسری اہم وجہ یہی ہے کہ پچھلے چند دنوں میں ہم سے کئی خواتین نے رابطہ کیا اور اپنی تفصیلات بھیجی ہیں کہ وہ دوسری بیوی بننے پر تیار ہیں لیکن کسی کو ایسے دین دار ملتے نہیں یا جو دین کا نام لینے والے ہیں وہ بھی چھپ کر شادی کرنا چاہتے ہیں۔۔ مشورے کو چونکہ ہم امانت سمجھتے ہیں جس کا جواب ہمیں اللہ کو دینا ہوگا تو کچھ نکات اس پر تحریر کرنا ضروری محسوس ہوئے کیونکہ کئی کیسز ایسے بھی آتے ہیں جہاں دوسری شادی کی وجہ سے مسائل شدید بگڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وجہ ؟ شریعت اور اللہ کو اپنی زندگی کا مرکز نہیں بنا رکھا تھا، دین داری محض عبادات تک تھی اور معاملات میں یا تو شوہر ظالم ترین یا اس کی کوئی بیوی گھر بسنے دینا ہی نہیں چاہتی۔۔
اسی وجہ سے بہت ضروری ہے کہ بعد کے پچھتاوے کے بجائے پیشگی احتیاط برتی جائے، ہمیں بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ اچھے مردوں کی کس قدر ڈیمانڈ ہے اس وقت اور افسوس کہ اسی قدر قلت بھی ہے۔۔ زیادہ خوش نہ ہوں یہی حال خواتین کی اکثریت کا بھی ہے۔۔ لیکن جسے ایسا کوئی فیصلہ کرنا ہو اسے شریعت کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق بھی معلوم ہونے چاہیے، اور انتظامی امور کے طور پر یہ نکات پیش کیے ہیں جن میں تمام کا تعلق شریعت سے بلواسطہ نہیں پر بلا واسطہ احتیاط کے طور پر ہے ضرور۔۔
یہاں اگر ان مردوں نے آکر رولا ڈالنے کی کوشش کی ناں کہ ہم نے کوئی اچھوتی بات کی ہے جو ناممکنات میں سے ہے، تو خواتین سمجھ لیں کہ ایسے مردوں کے پلو سے نہیں بندھنا، یہی وہ لوگ ہیں جو انصاف نہیں کر سکتے نیز غلطیوں اور حقائق کی نشاندہی پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔۔ نیز اگر کسی خاتون نے آکر کوئی نوا کٹا کھولا تو ہم پہلے کہہ دیتے ہیں کہ محترمہ آپ کا گھر بسا ہوا ہے تو اپنے گھر کی فکر کریں، اور نہیں بسا تو اپنی غلطیوں اور انتخاب پر نظرِ ثانی کریں۔۔ یہاں بھڑاس نکالنے کی بھونڈی کوشش کی تو جواب بھی دو ٹوک ملے گا اس لیے تیاری کے ساتھ آئیے گا۔۔
ہم نے اپنی واٹس ایپ ریکارڈ کا شمار کیا۔۔ پچھلے چند مہینوں میں سوشل میڈیا سے رابطہ کرنے والے خواتین و افراد کی کالز کی تعداد پانچ سو سے تجاوز کر چکی ہے، سب ہی کے مختلف مسائل و پریشانیاں۔۔ ہمارے واٹس ایپ گروپس میں بھی خواتین و حضرات کی تعداد پانچ سو تک ہے اور جن سب کو ہی ہم تقریباً جانتے ہیں اور ان کی اکثریت سے کال پر بات کرنے کے بعد ہی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دوسری شادی از خود معیوب نہیں ہے، اسے کرکے دین و عدل سے ہٹ جانا معیوب بناتا ہے۔۔ اس کا سدباب اسی صورت ممکن ہے کہ انسان ہر قدم محتاط ہوکر رکھے۔۔
ہمیں سب سے زیادہ حیرانی کنواری لڑکیوں کی طرف سے ہوئی جو کسی کی دوسری بیوی بننے پر راضی ہیں، وجہ ؟ بس ذمہ دار و دین دار شخص مل جائے اور اپنا لے کیونکہ عمر بڑھتی جا رہی ہے اور معاشرتی برائیاں اور خدشات اس نہج تک لے آئے ہیں کہ کنواروں کے آپشن، ڈیمانڈز، خواہشات اور حرکات و عادات سے شدید بیزاریت ہوتی ہے۔۔ جب کنواریوں کا یہ حال ہے تو طلاق و خلع شدہ یا بیواؤں کا منظر کیا ہوگا؟ احساس پیدا کریں اور اللہ سے ڈریں۔۔
جس کسی کو معاشرے کے ان مسائل کا حقیقی ادراک نہیں ہے وہ دوسری شادی کے خلاف تحریریں لکھ لکھ کر تھکتا نہیں کیونکہ یہ مسئلہ اس کے اپنے گھر کا نہیں یا وہ غلط انتخاب پر برے تجربے سے ہوکر گزرا ہے۔۔ لیکن نکاح خواہ پہلا ہو یا چوتھا جب تک اسے آسان بنانے کی عملی کوشش نہ کی جائے اور خواتین و حضرات کے لیے اسے نارملائز کرنے کے اقدامات نہ اٹھائے جائیں مسئلہ اپنی جگہ وہیں جوں کا توں ہی رہے گا۔ اسے ممکن بنانے کے لیے اعتدال کا راستہ یہی ہے کہ مرد اس قابل بنیں کہ ان کی عورتیں بھی لچک دکھانے والی بن سکیں۔۔ اور طلاق و خلع والیوں کی اکثریت پہلے ہی معاشرے کی ستائی ہوئی ہیں، ان کی ضرورت و حساس حالات میں سہارا بننا، یتیموں کی کفالت کرنا ایک بات ہے اور غیر ذمہ دارانہ طریقے سے فایدہ اٹھانا دوسری انتہا۔۔ اس لیے اچھی خواتین و مردوں کی چھانٹی اب ایسے ہی ہوگی۔۔ باقی اللہ سب دیکھ رہا ہے اور تمہاری نیتوں سے خوب واقف ہے۔۔
تبصرہ لکھیے