ہوم << یوم سقوط قرطبہ ، 2 جنوری1492ء - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

یوم سقوط قرطبہ ، 2 جنوری1492ء - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

‎غالباً کووڈ کی افتاد پھیلنے سے پہلے کی بات ہے . ‎برسبین کی ایک مقامی مسجد کے امام نے مجھے فون کیا کہ ایک نومسلم کے ختنے کرنے ہیں . ‎میں نے کہا اسے بھیج دیں. Diego ڈیاگو ‎ چھیاسٹھ سال کا تھا . ‎اس کا مسلم نام عبدالرحمن تھا. ‎وہ اشبیلیہ ‎(سویلی) ‎کا رہنے والا تھا. ‎اور پچھلے تیس سال سے آسڑیلیا میں مقیم تھا . ‎اس کا تعلق سپین کے ایک موریسکون خاندان سے تھا. ‎اس نے پہلی بار مجھے اس لفظ سے روشناس کروایا۔ اس کی زبانی موریسکون کی کہانی سن کر میرا کلیجہ جیسے کٹ سا گیا ۔ ‎پھر جب میں نے تاریخ کے اوراق پلٹنے شروع کیے تو مجھ پر ہوش ربا انکشافات ہوئے، ‎جنھوں نے مجھے یہ آرٹیکل لکھنے میں بڑی مدد دی.
‎عبدالرحمن تو اپنے آباؤاجداد کے مذہب کی طرف واپس پلٹ گیا لیکن پتہ نہیں کتنے اور ‎ہزاروں لاکھوں ڈیاگو ‎عبدالرحمن بننے کے لئے ہماری توجہ کے منتظر ہیں. ‎عبدالرحمن نے بتایا کہ اس کی ماں کے پاس آج بھی ان کے آباؤاجداد کے پرانے گھر کی چابی موجود ہے ، ‎جو اس تک نسل در نسل پہنچی ہے، ‎اور پچھلی چھ سات صدیوں سے ان کے خاندان میں چلی آرہی ہے.
‎آج دو جنوری ہے اور آج ہی کے دن سپین میں مسلم حکومت کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا ، 711ء سے 1492 ء تک ، ‎طارق بن زیادسے ابو عبداللّہ محمد تک، ‎جبل الطارق ( جبرالٹر) سے غرناطہ تک ، ‎اور جلتی کشتیوں سے الحمرا کی کنجیوں تک، ‎عروج و زوال کی ایسی داستان شائد چشم فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو. ‎ایک مغربی مورخ نے لکھا:”‎ بربر مراکو سے آئے تھے، مراکو واپس چلے گئے، ‎سپین عیسائیوں کا تھا عیسائیوں کا رہا.“ ‎لیکن کیا بات صرف اتنی ہی تھی ، ‎تاریخ میں اتنی بڑی ڈنڈی مارنے والوں سے کوئی پوچھے؛ ‎تہذیب و تمدن کے وہ آٹھ سو سال کیا ہوئے جنہوں نے اہل یورپ کو جینا سکھایا. ‎علم ونور کے وہ چراغ کہاں گئےجنہوں نے جہالت میں ڈوبے یورپ کی تاریکیوں کو روشنی میں بدل دیا. ‎ظلم وجبر کی وہ دل خراش داستان کیا ہوئی جس نے صدیوں تک اندلس میں رہنے والے اہل اندلس سے ان کا مذہب ان کا وطن اور یہاں تک کہ عزت سے جینے کا حق بھی چھین لیا .
‎غرناطہ کا آخری مسلمان حکمران ابو عبداللّہ محمد الحمرا کی چابیاں ملکہ ازابیلا کے سپرد کر کے روانہ ہوا اور ایک اونچے ٹیلے پر پہنچ کر مڑا اور سر سبز وادی میں اس سرخ محل (الحمرا)کو حسرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا جو اندلس میں مسلم اقتدارکی آخری علامت تھا اس نے ایک آہ بھری اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا . ‎وہ مقام جہاں سے اس نے مڑ کر اپنی سلطنت پر آخری نگاہ ڈالی تھی آج تاریخ میں سیسپئیائرو ڈل مورو Suspiro Del Moro کہلاتی ہے، جس کا مطلب ہے ‎مور کی آہ ( Moor’s Sigh). ‎سپینش میں بربر کو مور کہتےہیں ، ‎اور سپین میں ہر مسلمان کو بربر سمجھا جاتا تھا ، Suspiro Del Moro ، سپین میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے مزاروں کا تماشہ دیکھنے کے لئے آنے والے سیاحوں کا پسندیدہ مقام ہے . (Aixa)اس کی ماں عائشہ ‎جو اس کے ہمراہ تھی اس نے اسے یوں آنسو بہاتے دیکھا تو اس نے وہ الفاظ کہے جو بعد میں تاریخ کا حصہ بن ‎گئے: ‎”ابك اليوم بكاء النساء على ملك لم تحفظه حفظ الرجال “‎ ”اگر تم مردوں کی طرح اپنی سلطنت کی حفاظت نہیں کرسکے تو اب عورتوں کی طرح رو کر اس کا ماتم مت کرو “
‎چند مہینے الپوجارا کے ساحلی علاقے میں گزارنے کے بعد آخر اکتوبر 1493ء میں وہ مراکو روانہ ہوگیا جہاں مراکو کے واسطی سلطان زکریا محمد نے گزر اوقات کے لئے اس کا وظیفہ مقرر کر دیا فاس میں ایک جاگیر دے دی .‎غرناطہ سے آنے کے بعد وہ بیالیس سال زندہ رہا ، اور جب تک زندہ رہا روز صبح سے شام تک فاس سے باہر ایک اونچے ٹیلے پر بیٹھا رہتا اور اندلس کی سمت دیکھتا رہتا، ‎اس امید کے ساتھ کہ شاید اہل اندلس کا بلاوا آ جائے. ‎فاس اور اندلس کے ساحل کے درمیان صرف چند میل چوڑی خلیج جبرالٹر حائل تھی.
‎کبھی اسی خلیج کو پار کرکے اس کے تہی داماں تہی دست پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس آباؤاجداد اندلس کے ساحلوں پر اترے تھے اور کشتیاں جلا کر اپنی واپسی کے سارے راستے اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیے تھے اور پھر فتح ان کا مقدر بن گئی وہ سارے اندلس کے مالک بن گئے. اور ابو عبداللّہ وہ بد نصیب شخص تھا جو اپنے آباؤاجداد کی میراث خود اپنے ہاتھوں سے عیسائیوں کو سونپ آیا تھا ۔ ‎آج اس کی آنکھوں میں آنسو تو تھے لیکن اس کا سینہ اس آگ سے خالی تھا جو اس کے آباؤاجداد کے سینوں میں بھڑکتی تھی . ‎اس کی آ ہوں اور سسکیوں میں وہ تڑپ نہیں تھی جو کبھی اس کے آباء کا خاصہ تھی . ‎اس کا جسم جوش کردار کی اس حرارت سے یکسر عاری تھا جو تقدیر اور وقت کے دھارے بدلنے کی طاقت رکھتا ہے . ‎اس کی ماں نے اس کے بارے میں سچ کہا تھا . ‎وہ اپنی باقی ساری عمر عورتوں کی طرح آنسو بہاتا رہا اندلس کی طرف سے آنے والے بلاوے کا منتظر رہا لیکن خود کبھی مردوں کی طرح اس خلیج کو پار کر کے اندلس میں رہ جانے والے ان بے بس ظلم و جبر کی چکی میں پستےہوئے مسلمانوں کی مدد کو نہ پہنچ سکا جواس کی آمد کے منتظر تھے. ‎جب 1533 ء میں وہ مرا تو اس کی وصیت کے مطابق اسے اسی ٹیلے پر دفن کیا گیا ، ‎جس پر بیٹھ کر بیالیس سال تک وہ اندلس سے آنے والوں کا انتظار کیا کرتا تھا .
‎آج بھی فاس کے گلی کوچوں میں ایسے افرادموجود ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ غرناطہ کے آخری فرمانروا کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1931ء میں ‎ Estampa سپینش اخبار اسٹامپا ایک نانبائی کی تصویر شائع کی جو ابوعبداللّہ محمد کی نسل سے تعلق رکھتا تھا. ‎ابو عبداللّہ کے ساتھ جانے والوں پر جو گزری وہ بہت کم ہے. ‎اصل قیامت تو ان پر گزری جو پیچھے رہ گئے تھے . ‎ان کی زندگیاں اجیرن کر دی گئیں انہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا ان کے کاروبار چھن گئے ان کے مکانات ان کے لئے ممنوع ٹھہرے .‎جبراً مذہب تبدیل کر کے انہیں عیسائی بننے پر مجبور کیا گیا .‎زبردستی ان کے نام تبدیل کر دئیے گئے وہ اپنے ہی ملک میں اچھوت بن کر رہ گئے اور ‎جنہوں نے انکار کیا وہ زند ہ جلا دئیے گئے. ‎مساجد ہمیشہ کے لئے چرچ میں بدل دی گئیں . ‎تعلیمی ادارے اصطبل بنے. ‎ہر وہ کتاب جلا کر راکھ بنا دی گئی جو عربی میں لکھی ہوئی تھی. ‎کتب خانے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوئے. ‎انسانی تاریخ نے ظلم وستم کی ایسی داستان شائد پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی .
‎الموریسکیون کیسٹلین زبان کا لفظ ہے ‎جو ان مسلمانوں کیلئے استعمال ہوا جو مسلم حکومت کے زوال کے بعد بھی اندلس میں آباد رہے ، ‎انہوں نے بظاھر تو عیسائی مذھب قبول کرلیا لیکن مخفی طور وہ مسلمان ہی رہے . ‎ان لوگوں کیلئے موریسکی کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ 1502 ء میں ایک حکومتی فرمان کے مطابق ان کی بپتسمہ (عیسائی مذھب میں داخل ہونے کی مخصوص رسم ) کی رسم ادا کی گئی جو کہ حمراء کے معاہدہ کی کھلی خلاف ورزی تھی ۔۔ ‎اس سب کے باوجود بھی جب ان کا وجود گوارا نہ ہوا تو 9 اپریل 1609 ء میں فلپ سوم نے مورسیکیون کو اسپین سے شمالی افریقہ اور مراکش کی طرف ملک بدر کرنے کا فرمان جاری کیا اور یہ جبری بے دخلی 1614 ء تک جاری رہی۔ ‎اس جبری بے دخلی سے بچ جانے والے موریسکی خاندان آج بھی سپین کے طول و عرض میں آباد ہیں جن کے پاس اپنے آباؤاجداد کے پرانے اندلسی گھروں کی چابیاں اب بھی محفوظ ہیں. ‎آج بھی انہیں اپنے پشتنی گھروں کی بنیادوں سے اپنے آباؤاجداد کے دفن کئے ہوئے قرآن ملتے ہیں، وہ مصحف ملتے ہیں جو انہیں یاد دلاتے ہیں کہ وہ سزا اور موت کے خوف سے عیسائی بن جانے والے اندلسی مسلمانوں کی اولاد ہیں.‎عیسائی بن جانے اور عیسائیوں کی بودباش اختیار کر لینے کے باوجود یہ قبائل آج بھی سپین میں مہاجر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ‎انہیں تیسرے درجے کے شہریوں کےحقوق بھی حاصل نہیں .
‎صدیاں گذر گئیں چرخ کج رفتا رنے کئی رنگ بدلے . ‎ابو عبداللّہ محمد یا اس کی اولاد میں سے کوئی بھی کبھی واپس غرناطہ نہ جا سکا . ‎اور نہ ہی سپین میں رہ جانے والے موریسکیون کو عزت و آزادی کی زندگی دوبارہ نصیب ہوسکی. ‎وہ آج بھی اپنے ملک میں اجنبی بن کر جی رہے ہیں ، ‎لیکن سپین کے شہر اشبیلیہ ( سویلی) کے مرکزی چوراہے میں کھڑا زیتون کا آٹھ سو سالہ درخت جو اہل اندلس کے عروج و زوال کا گواہ ہے آج بھی کسی یو سف بن تاشفین یا طارق بن زیاد کا منتظر ہے.
‎کچھ قمریوں کو یاد ہیں کچھ بلبلوں کو حفظ
‎عالم میں ٹکڑے ٹکڑے مری داستان کے