ہوم << اسلامی نظام: انتشاری نظریات کے خلاف اتحاد کا عملی بیانیہ-کامران رفیع

اسلامی نظام: انتشاری نظریات کے خلاف اتحاد کا عملی بیانیہ-کامران رفیع

کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ نظریات، ایک دوسرے کے خلاف ہونے کے باوجود، اسلامی نظریہ حیات کے خلاف متحد ہیں اور بیک زبان یہ الزام دھراتے ہیں کہ اسلامی نظام کے نظریے نے دنیا کو انتشار اور فرقہ واریت کا شکار کیا۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ اشتراکیت اور سرمایہ داری نے قوم پرستی کے ساتھ مل کر پہلے یورپ اور پھر مشرق وسطیٰ کو تقسیم اور تباہی کی طرف دھکیلا۔

قوم پرستی نے یورپ کو دو عالمی جنگوں میں جھونک دیا، جہاں نسل اور قوم کے نام پر ہم مذہب اقوام نے ایک دوسرے کے خلاف خونریز جنگیں لڑیں۔ صرف پہلی جنگ عظیم (1914-1918) میں 2 کروڑ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، جبکہ دوسری جنگ عظیم (1939-1945) میں یہ تعداد 7 کروڑ سے تجاوز کر گئی۔ بلقان کی جنگیں، جہاں صدیوں سے ساتھ رہنے والے لوگ قوم پرستی کے جذبات میں بہہ کر ایک دوسرے کے دشمن بن گئے، اس کی واضح مثال ہیں۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ میں قوم پرستی نے عرب , ترک اور کرد اقوام کے درمیان خوفناک خلیج پیدا کی۔

اشتراکیت نے مساوات کے نعرے کی آڑ میں نا صرف ظالم سرمایہ دارانہ آمریت قائم کی بلکہ سماجی انتشار کو بھی ہوا دی۔ لینن، اسٹالن، اور ماؤ جیسے آمروں نے کروڑوں افراد کو اپنے نظریات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اسٹالن کے دورِ حکومت میں صرف 1936 سے 1938 کے درمیان "گریٹ پرج" میں 7 لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، جبکہ ماؤ کے "گریٹ لیپ فارورڈ" کے دوران 4 کروڑ سے زائد افراد بھوک سے مرے۔ اشتراکیت کے انسانیت کش پہلو کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ ہر اشتراکی آمر نے اپنی ہی پارٹی کی متبادل قیادت کو صفحہ ہستی سے مٹایا۔ افغانستان جیسے ممالک کو بھی اس نظریاتی کشمکش نے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں دھکیل دیا، جس نے 20 لاکھ سے زیادہ افراد کی جان لی اور پورے خطے کو بدحالی میں مبتلا کر دیا۔

یہی وجہ تھی کہ امپیریل روس اور سرمایہ دار برطانیہ و امریکہ پہلی جنگ عظیم میں تباہی مچانے کے لیے اتحادی تھے۔ بعد میں، اشتراکی روس اور قوم پرست نازی جرمنی یورپ کی تباہی میں ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ طاقت کے نشے میں بعد میں یہ دونوں ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے۔ درحقیقت، یہی ان نظریات کا منطقی انجام ہے۔

اس کے برعکس، اسلام نے ہمیشہ اتحاد اور عدل کی بات کی۔ یہ نظریہ مسلم اقوام کو ایک ایسی بنیاد پر متحد کرنے کی کوشش کرتا ہے جہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہو اور استحصال کے خلاف مزاحمت کی جا سکے۔

یہی وجہ ہے کہ سامراج، چاہے وہ اشتراکی ہو یا سرمایہ دارانہ، کے سامنے اسلامی نظام کا احیا ہمیشہ بڑا چیلنج رہا ہے۔اسی لیے سامراجی طاقتوں نے ہمیشہ اسلامی وحدت کو دبانے کی کوشش کی، کیونکہ یہ ان کے سامراجی منصوبوں کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے ۔ مصر میں کمیونسٹ ٹاوٹ جنرل ناصر کی حکومت نے اخوان المسلمون پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر عوامی اسلامی تحریک کو دبانے کی کوشش کی۔ بالکل یہی کام اب امریکی سرمایہ دارانہ نظام کا پٹھو جنرل سیسی کر رہا ہے۔ اسی طرح شام میں، چاہے وہ سرمایہ دارانہ فرانس ہو یا اشتراکی بشار الاسد، دونوں کے مظالم کا نشانہ اخوان المسلمون اور دیگر اسلامی احیائی تحریکیں رہیں۔

تاریخ اور حال دونوں سے یہ واضح ہے کہ قوم پرستی، سرمایہ داری، اور اشتراکیت جیسے نظریات نے سامراج کو وہ جگہ فراہم کی جہاں وہ اپنی مرضی سے عوام کو تقسیم اور استحصال کر سکے۔

جبکہ اسلامی وحدت کا نظریہ قوم پرستی اور اشتراکیت کے برعکس ایک جامع اور عالمگیر تصور پیش کرتا ہے۔ اسلام رنگ، نسل اور زبان سے بالاتر ہو کر عدل اور اخلاقی اقدار کو اہمیت دیتا ہے۔ خطبہ حجتہ الوداع میں حضور اکرم ﷺ نے واضح فرمایا کہ عرب کو عجم پر یا عجم کو عرب پر کوئی برتری نہیں۔ یہی اصول اسلامی وحدت کا جوہر ہیں، جو تقسیم کے بجائے اتحاد کی دعوت دیتے ہیں۔

سید ابوالاعلی مودودیؒ نے اسلام کو بطور نظام اور نظریہ حیات کے ازسر نو پیش کیا۔ اور اہم بات یہ ہے کہ سید مودودی جب اسلامی نظام کو ازسر نو پیش کر رہے تھے تو مسلمان سیاسی طور پر مغلوب تھے۔ دنیا کی تمام تر مادی، مالی، اور فوجی طاقتیں یا تو سرمایہ دارانہ قوم پرستی کے ساتھ تھیں یا کاٹ کھانے والی اشتراکیت کے پاس تھیں۔
مگر ان کے خداداد قلم نے دلائل سے خلق خدا کو قائل کیا کہ اسلامی نظام اور نظریہ حیات ایک ایسا متبادل بیانیہ ہے جو نہ صرف مسلم دنیا بلکہ پوری انسانیت کو انتشار سے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اللہ نے سید مودودی کو ایسی قبولیت بخشی کہ ان کے مخالف اشتراکی ہوں یا قوم پرست، سبھی مانتے ہیں کہ ان کے اسلامی نظام کے نظریہ نے معاشرے کے تمام طبقات کے خیالات پر گہرا اثر چھوڑا۔اور یہی وجہ ہے کہ یہ سید مودودی کے شدید مخالف ہیں اور مخالفت میں حقاٸق بھی اور سید کے نظریات کو بھی مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سید مودودی نے تو اللہ کے نظام کو انسانیت کے سامنے بلاکم و کاست پیش کیا، اور اللہ کے نور کو تو پھیلنا ہی تھا۔

بہر حال یہ وقت ہے کہ مسلم اقوام اپنی حقیقی اسلامی شناخت کو اپنائیں، قوم پرستی اور اشتراکیت جیسے نظریات سے آزاد ہو کر اسلامی عدل و مساوات کے اصولوں کو اپنائیں اور دنیا کو امن اور ترقی کا راستہ دکھائیں۔