جہاز کولمبو کے بندرانائیکے ائیرپورٹ پر اتراتو رات کے بارہ بج رہے تھے ۔
باہر موسلا دھار بارش ہو رہی تھی
جہاز تو بخیریت اتر گیا لیکن سیڑھی لگنے میں گھنٹہ لگ گیا
مسافر جہاز کے اندر کھڑے گیٹ کھلنے کا انتظار کرتے رہے ۔ وہ مسافر جنہیں کنیکٹنگ contacting flights پکڑنی تھیں شور مچاتے رہے لیکن ان کی کسی نے ایک نہ سنی ۔ برستی بارش میں ہی بھیگتے پانی میں شرابور مسافر جہاز سے اترے اور بس کے ذریعے ٹرمینل کی جانب چل دئیے ۔
پتہ نہیں اس جہاز کے لئے جیٹ برج
jet bridge
جسے پسنجر بورڈنگ بریج Passanger boarding bridge بھی کہتے ہیں کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا تھا ۔
جیٹ بریج وہ سرنگ نما راستہ ہوتی ہے جو جہاز کے دروازے اور ٹرمینل کے درمیان ایک سرنگ نما پل بنا دیتی ہے جس کے ذریعے مسافر جہاز سے براہ راست ٹرمینل میں پہنچ جاتے ہیں ۔
بندرانائیکے ائیرپورٹ لاہور سے کافی چھوٹا ائیر پورٹ ہے اور اس جیسی ہی سہولیات اور ویساہی ماحول ۔
لیکن وہ لاہور والی دھکم پیل دھینگا مشتی بے ہنگم قطاریں اور وی آئی پیز اور تعلق والے لوگوں کو چور دروازوں سے نکالنے والی چور بازاری اور اقربا پروری نہیں تھی ۔
ہر مسافر اطمینان اور سکون سے اپنی قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کرتا رہا ۔
ہم نے چونکہ آن لائن ویزا نہیں لیا تھا ۔ اس لئے پہلے خزانچی کو اسی ڈالر فیس جمع کروانا پڑی ۔
کیشئیر کی پیچھے ایک دیوار پر ان ممالک کی لسٹ چسپاں تھی جن کے لئے سری لنکا کا آئیرپورٹ آمد پر ویزا (On arrival visa ) ممنوع تھا ۔ افغانستان صومالیہ یمن جیسے ملکوں میں سر فہرست پاکستان کا نام دیکھ کر کلیجہ کٹ سا گیا ۔
حالانکہ پاکستان کے سری لنکا پر اتنے احسانات ہیں کہ وہ کبھی ان کا مداوا نہیں کرسکتے ۔
جب انڈیا کی ایماء پر اور شہہ پر علیحدہ وطن کے لئے جدوجہد کرنے والے مسلح تامل ٹائیگرز نے سری لنکا کو تقریباً مغلوب کر لیا تھا اور سری لنکا ان کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا اور قریب تھا کہ سری لنکا دو حصوں میں بٹ جاتا تو پاکستان کی فوج ان کی مدد کو آگے آئی اور ہمارے کمانڈوز نے 2009ء کو ٹی ٹی ای کے لیڈر پرابھاکران کو قتل کرنے اور اس ملیشاء کو ختم کر کے تامل ٹائیگرز کا زور توڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا ۔ تامل گوریلوں کی یہ تحریک 1976ء سے سری لنکا کے لئے وبال جان بنی ہوئی تھی ۔
لیکن پاکستان کو اس فہرست میں ڈالنے کی بڑی وجہ وطن عزیز کی موجودہ صورت حال ہے اور یہ صرف سری لنکا پر ہی موقوف نہیں اس وقت تو دنیا کا کوئی بھی ملک بشمول ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان کے پاکستانیوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار نہیں ۔
اس لئے سری لنکا کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔
باہر سامان والی بیلٹ پر بھی لاہور والی دھکم پیل دیکھنے کو نہ ملی اور نہ ہی موقعہ پرست مزدوروں کی بھرمار دیکھی جو گِدھوں کی طرح مسافروں پر جھپٹتے ہیں ۔ مسافر بھی سکون سے لائن میں لگے اپنے سامان کی آمد کے منتظر رہے کسی بھی طالع آزما نے بیلٹ کے اوپر چڑھکر بیگ ڈھونڈنے کی کوشش نہ کی ۔
ہر شخص نے ٹرالی پر اپنا سامان خود رکھا اور ٹرالی دھکیلتا ہوا گرین چینل سے بیرونی دروازے کی سمت چلا ۔
جہاں کسی کسٹم آفیسر نے کسی مسافر کو روکا نہ ناجائز تنگ کیا ۔
جیسے ہی گیٹ سے باہر نکلے ایک ادھیڑ عمر کے موٹے سے گنجے شخص نے آگے بڑھ کر پھولوں کا ایک ہار میرے گلے میں ڈال دیا ۔ میں ابھی اس ناگہانی افتاد سے سنبھل نہیں پایا تھا کہ اس نے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا ۔ وہ ہمارا ٹور گائیڈ نیلان تھا۔ اسے ہمارے بارے میں غالباً بلال نے بتایا تھا جو ایک گھنٹہ پہلے ہی کولمبو پہنچ گیا تھا وہ کیتھی پیسیفک کی فلائٹ سے براستہ ہانگ کانگ سری لنکا آیا تھا ۔
نیلان گاڑی لے آیا ۔ اور اس میں سامان رکھنے لگا یہ کوئی دس بارہ سال پرانی سفید رنگ کی ڈیزل ٹوئیوٹا وین تھی ۔ ہم چار آدمیوں کے لئے ضرورت سے بہت زیادہ بڑی ۔ اگلے پندرہ دن کے لئے یہی ہماری سواری تھی اور نیلان ہمارا گائیڈ تھا اب ہمیں انہی دونوں کے ساتھ پورا سری لنکا گھومنا تھا ۔
برستی بارش میں ہی ہم ائیرپورٹ سے نکلے اور رات کے چار بجے جب ہوٹل پہنچے تو بھی موسلا دار بارش جاری تھی ۔
بارش کا یہ سلسلہ ہمارے ساتھ آسٹریلیا سے چلا تھا اور ابھی تک ساتھ نبھا رہا تھا ۔
یہ ہوٹل ائیرپورٹ کے نواح میں نیگمبو Negombo نامی شہر میں ایک بڑے وسیع علاقے میں پھیلا ہوا تھا ۔ نیگمبو کولمبو سے بیس کلو میڑ دور ہے ۔
پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز سنکر ہوٹل کی استقبالیہ کے پیچھے بنے دروازے سے ایک نوجوان برآمد ہوا اس نے ہمارے پاسپورٹ لے کر چیک ان کا عمل مکمل کیا اور برستی بارش میں ہی ہمیں ایک گالف بگھی میں بٹھا کر ہمارے کمروں تک پہنچا آیا جو استقبالیہ سے کافی فاصلے پر بنے تھے ۔
رات کو تو تھکاوٹ ، اندھیرے اور بارش کی وجہ سے کچھ اندازہ نہ ہوسکا تھا کہ ہم کہاں ہیں ۔ کس حال میں ہیں ۔ اور یہ جگہ کیسی ہے ؟
لیکن صبح جب بیدار ہوئے تو پتہ چلا کہ یہ خوبصورت ہوٹل بحر ہند کی ایک ساحلی جھیل Lagoon کے کنارے پر بنا ہے . اور شائید اسی لئے اس کا نام بھی نیگمبو لیگون کلب تھا ۔ اس کے سارے رہائشی کمرے یک منزلہ تھے اور چھوٹے چھوٹے علیحدہ ولاز Villas کی شکل میں دور دور تک پھیلے ہوئے تھے ۔
اس ہوٹل کی خوبصورتی کو اس کے محل وقوع نے چار چاند لگا دئیے تھے ۔
بارش کا سلسلہ رک چکا تھا لیکن آسمان پر ابھی بھی گہرے سیاہ بادل چھائے تھے ۔
ہمارے کمرے کی کھڑکی کے ادھ کُھلے پردوں کے بیچ سے دور تک پھیلے سر سبز دالان کے بعد بحر ہند کی اونچی شور مچاتی موجیں پتھروں کی حفاظتی دیوار کے ساتھ کھیلتی صاف نظر آرہی تھیں ۔ میں نے بے خود ہو کر کھڑکی کے پردے پوری طرح ہٹا کر کھڑکی کھولی تو تازہ ٹھنڈی باد صبا کا جھونکا چہرے سے ٹکرایا اور پورے جسم میں جیسے تازگی کی ایک لہر سی دوڑ گئی ۔
رات بھر کی ساری کثافت تھکن اور سستی ایک دم دور ہو گئی ۔
سامنے سمندر کے کنارے دور تک پھیلے سبز لان میں کالے رنگ کی بید سے بنی کرسیاں بچھی تھیں جن میں سے ایک پر بیگم بیٹھی تھی ۔
ہمارے کمرے کا پچھلا دروازہ سمندر کی طرف کھلتا تھا جہاں دور تک نرم وگداز سر سبز گھاس کا بڑا سا لان پھیلا تھا ۔ میں اس دروازے سے نکل کر لان میں بیگم کے پاس جا بیٹھا ۔ تھوڑی دیر میں زنییہ اور بلال بھی وہیں آ گئے۔
موسم انتہائی خوشگوار ہو گیا تھا ۔ ٹھنڈی باد صبا کے نرم جھونکے ، دور تک پھیلا سبزہ ، ناریل کے درختوں کے بیچ سے سفید جھاگ اڑاتی اونچے حفاظتی پشتوں کے ساتھ سر ٹکراتی سمندر کی موجیں ، آسمان پر چھائے گہرے بادل ، سامنے مشرق سے نمودار ہوتا شفق کی لالی بکھیرتا زردی مائل سورج ،شور مچاتی سمندر کی موجوں کا یکساں ترنم اور تاحد نگاہ پھیلا نیلگوں بحر ہند جس میں دور ایک رنگ برنگے بادبان والی کشتی تیر رہی تھی
مصور کائنات کی یہ پینٹنگ بہت دل افروز اور دلنشیں تھی اور اتنی ہی مکمل تھی جتنا وہ خالق کائنات خود ہے ۔
سری لنکاکے اس پہلے نظارے نے ہی سحر سا طاری کر دیا اور آخری دن تک اس سحر سے نہ نکل پائے ۔
ہم نے ناشتہ بھی وہیں منگوا لیا اور یہ سری لنکن روائتی ناشتہ زندگی کے بہترین ناشتوں میں سے ایک تھا ۔
کب گیارہ بجے پتہ ہی نہ چلا ۔ اتنے میں نیلان کا فون آگیا وہ ہوٹل سے چیک آؤٹ ہونے کے بارے میں پوچھ رہا تھا کیونکہ ہمیں آج ہیکاڈوا جانا تھا جو سری لنکا کے جنوب مغرب میں گال سے آدھ گھنٹے کے مسافت پر ایک ساحلی شہر ہے اور یہیں ہمارے اگلے تین دن کا قیام طے تھا ۔
یہ منظر اور یہ لمحات اتنے دلکش تھے کہ ان سے بچھڑنے کو دل نہیں چاہتا تھا لیکن مسافر تو مسافر ٹھہرے ۔ مسافروں کو تو بہرحال جانا ہی ہوتا ہے ۔
بادل نخواستہ اٹھے اور تیار ہو کر کمرے سے باہر نکلے تو ایک پورٹر گولف بگھی لئے باہر ہمارا انتظار کر رہاہے تھا ہوٹل لابی ہمارے کمروں سے کوئی اڑھائی تین سو میٹر دور تھی ۔ ہمارے کمروں اور ہوٹل لابی کے درمیان ایک وسیع دالان تھا جس کے درمیان سے سفید چھوٹے پتھروں سی بنی ایک روش لابی کی طرف جاتی نظر آ رہی تھی ۔
اس راہگزار کے دونوں طرف رنگ بھرنگے پھولوں کے تختے بچھے تھے اور پھولوں کی کیاریوں کے پیچھے دونوں طرف سر سبز گھاس کا میدان تھا یہ منظر اتنا خوبصورت اور دلکش تھا کہ ہم نے بگھی میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور پیدل ہی پھولوں کے تختوں کے درمیان سے گزرتے اس روش پر چلتے لابی کی طرف چل دئیے ۔
ہوٹل استقبالیہ ایک چھتر نما چھت کے نیچے چار دری قسم کے کمرے میں قائم تھی جو تین اطراف سے کھلا تھا اور صرف کاؤنٹر کی پشت کی جانب ایک دیوار تھی ۔ کاؤنٹر کی طرف جاتے وقت میری نظر استقبالیہ کے تین طرف بنے ان چھوٹے تالابوں پر پڑی جن میں انواع واقسام کی رنگ برنگی مچھلیاں تیر رہی تھیں ۔
میں نے کمروں کی چابیاں استقبالیہ پر کھڑی ایک دبلی پتلی تیکھے نقوش والی خوش اخلاق سانولی سلونی سی دوشیزہ کے حوالے کیں تو اس کے چہرے پر ایک روشنی سی پھیل گئی اس کی آنکھیں بھی مسکرانے لگیں ۔
چمکتی ہنستی آنکھوں کے ساتھ وہ بہت بھلی لگی ۔
وہ خوبصورت انگریزی میں مجھ سے پوچھنے لگی کہ ہم کہاں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ سنکر کہ ہم پاکستانی ہیں اس کے چہرا دمک اٹھا اور اس کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی اس نے مجھ سے ہمارے ہوٹل میں قیام کے بارے میں پوچھا کہ ہمیں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی ۔ اتنے میں پورٹر گالف بگھی پر ہمارا سامان لے کر آگیا ۔ میں نے اس ننھی لڑکی کی مسکراتی آنکھوں اور دلکش مسکراہٹ کی تعریف کی تو وہ لجا کر چھوئی موئی کی طرح سمٹ گئی اسکی گالوں پر شفق کی لالی پھیل گئی ۔ وہ کچھ نہ بولی لیکن اس کی آنکھیں تشکر سے جھک گئیں ۔ اور میں اس خوبصورت لڑکی کا شکریہ اداکرکے تالاب پر بنے پل پر سے گزرتا ہوٹل کی ڈیوڑھی میں آگیا جہاں نیلان سامان گاڑی میں رکھنے کے بعد گاڑی کا دروازے کھولے میرا انتظار کر رہا تھا ۔
تبصرہ لکھیے