اسلام کے حوالے سے لوگوں کو یہ مسئلہ لگتا ہے کہ وہ ہم پر رکاوٹیں لگاتا ہے۔ اکثر ایسے لوگ بھی جو اللہ اور رسول صلی اللہ وسلم پر ایمان اور محبت کا اظہار کرتے ہیں، اسلامی اوامر و نواہی پر عمل کرنے میں دل میں تنگی محسوس کرتے ہیں۔
اپنے اس گریز کی وہ اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ اسلامی ہدایات پر عمل کرنے والے بھی برے ہوتے ہیں اور ان احکام پر عمل کرنے سے کوئی اچھا نہیں ہوجاتا ۔ گویا ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ احکامات پر محض اس لیے عمل نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن و سنت نے ان کا حکم دیا ہے ، بلکہ ان پر عمل کرنے کے لئے یہ شرط ہے کہ اس سے انسان میں ان کے مطابق بہتر شخصی اوصاف پیدا ہونے چاہئیں اور ان سے انسانی سماج کو فائدے ملنے کا اثر نظر آنا چاہئے۔ اگر ایسے فائدے نظر نہیں آتے یا انسان اسلامی احکامات پر عمل کیے بغیر بھی “اچھے” اور انسانی فائدے کے کام کرنے والے ہوسکتے ہیں تو اسلامی احکامات پر اصرار کی کیا ضرورت ہے؟ اسے اللہ اور بندے کا آپس کا پرائیوٹ معاملہ سوچ کر چھوڑ دینا چاہیے۔
بظاہر یہ بات دل کو لگتی ہے۔ مگر اس کا ذرا گہرائی میں جائزہ لیتے ہیں۔
انسانی نفس رکاوٹیں پسند نہیں کرتا۔ یہ اس کی
ID
ہے بنیادی حیوانی جبلت جو صرف اپنے لئے لذت کے حصول اور تکلیف سے بچنے کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ فرائڈ نے اسی حیوانی جبلت کی طرف اشارہ کیا۔ مگر چونکہ حیوانی جبلت کو عقل کا سہارا نہیں ملتا ، اس لیے اس کی
Ego
اڈ کے ان مطالبات کو عقلی جامہ پہنانے کی کوشش کرتی ہے۔طرح طرح کی دلیلیں پیدا کرواتی ہے۔
اب دیکھئے ۔۔اسلام پر اعتراض یا خفا ہونے والے اچھے خاصے “عقلمند” لوگوں کا سوال یہ ہوتا ہے کہ فلاں کام پر یا فلاں شے پر پابندی کیوں لگائی؟
لحم خنزیر اور گائے کے گوشت میں کیا فرق ہے؟
انگور کے رس اور شراب میں کیا فرق ہے؟
مرد اور عورتیں مخصوص ڈریس کوڈ اور باہم رابطوں میں حد بندیوں کا احترام کیوں کریں؟ وغیرہ وغیرہ
اس قسم کے سوالات کا عموما جواب یوں دیا جاتا ہے کہ اسلام کی عائد کی گئی حد بندیوں میں فائدہ ہے۔ مثلا لحم خنزیر یا شراب میں نقصان ہے ، اور گائے بکری کا گوشت اور انار و انگور کا رس مفید ہے وغیرہ ۔
حیا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے سے انسانی تعلقات اور خیالات میں حسن اور نکھار آتا ہے جبکہ آزادانہ اختلاط سے فرد یا معاشروں کو یا انسانی نسلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
سادہ طور پر سمجھیں تو ایتھکس کے فلسفے میں یعنی یہ طے کرنے میں اسے
Consequentialism
کہا جاتا ہے۔ یعنی معاملات کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ ان کے نتائج کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
ظاہر ہے جب انسان الہامی ہدایات کو صحیح اور غلط کے تعین میں فیصلہ کن قوت تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے تو فلسفے کا سہارا لیتا ہے۔
ایتھکس کے فلسفے میں
Consequentialism
کے علاوہ بھی اصول ہیں ۔جن میں
Deontology and utilitarianism’
بھی اہم ہیں۔
نتائج کو صحیح یا غلط کی کسوٹی ٹھہرانے والے اعتراض کرتے ہیں کہ سب شراب پینے والے تو بے حیا نہیں ہوتے، ہر شراب پینے والا بیماری سے نہیں مرتا، تھوڑی شراب سے نقصان نہین ہوتا وغیرہ۔
یہی حال لحم خنزیر کا ہے۔
اسی طرح اسلامی حیا ، لباس اور صنفی تعامل کے اصولوں پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے۔ فلاں کی داڑھی ہے، برقع پہنتی ہیں ،مگر افئر چلارہے ہیں ۔ فلاں کی ٹانگیں کھلی ہیں مگر بے حد شریف ہے وغیرہ۔اس لیے اسلامی احکامات پر اصرار کی ضرورت نہیں۔ بس خدا پر مجرد ایمان اور اظہار محبت کے انفرادی طریقے کافی ہونے چاہییں۔
گویا مذہب کا اس بنیاد پر مقدمہ لڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔
Deontology
کے مطابق اخلاقی بنیادیں نتائج کو جج کرنے پر نہیں بلکہ خود اصولوں کی بنیاد پر اعمال کا جائزہ لینے پر قائم ہوتی ہیں۔ گویا مارنا پیٹنا اپنی نہاد میں برا ہے چاہے اس کا فائدہ ہوتا ہو اور نرم خوئی ہر حال میں اچھی ہے چاہے اس کا نقصان ہوتا ہو۔
یہ اپروچ بھی نقص سے خالی نہیں ۔ کوئی آپ پر ظلم کرتا ہے تو آپ کو غصہ کرنا اور اپنا تحفظ ضروری ہے۔ اور ظالم کے ساتھ نرم خوئی مداہنت اور کمزوری بن جاتی ہے۔
Utilitarianism
کہتا ہے کہ جو اعمال اکثریت کے لئے مفید ہوں یا ان کو پسند ہوں ، وہ اچھے ہیں اور جو اکثریت کو ضرر پہنچائیں یا انہیں ناپسند ہوں وہ برے ہیں ۔ اب اس میں مسئلہ یہ ہے مغربی دنیا نشے کو قانونی کرتی جارہی ہے کیونکہ اس کی روک تھام تو ممکن نہیں اور غیر قانونی بنانے کی صورت میں بلیک مارکیٹ ہوتی ہے۔ نشے کرنے والے طبی مدد نہیں لیتے کہ پکڑے جائیں گے، حکومت کو نشے کی غیر قانونی فروخت سے نقصان ہوتا ہے، اوپر سے ریاستی وسائل خرچ ہوتے ہین وغیرہ وغیرہ ۔ لہذا پہلے شراب قانونی ہوئی اور اب کینیڈا نے چرس حلال کردی ہے اور منشیات کا علاج کرنے والے ماہرین کے حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ آہستہ آہستہ اکثر منشیات قانونی کردی جائیں گی۔
تو دیکھا آپ نے الہامی ہدایت کو منہا کردیں تو واقعی صحیح اور غلط کا تعین کرنا کتنامشکل ہوجاتا ہے اور صحیح اور غلط کا قدر
“Subjective “
شے بن جاتی ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کا سیکولر حلقے چرچا کرتے رہتے ہین اور اچھے خاصے مذہبی لوگ بھی اس اپروچ کے آگے ہتھیار ڈال کر کہتے پائے جاتے ہیں کہ یہ کون طے کرے گا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟
یہ کون طے کرے گا کہ عورت کیا پہنے اور کیا نہیں اور مرد کیسا برتاؤ رکھے اور کیسا نہیں ؟
طوالت کے سبب اس پر ہم اپنی گذارشات اگلی پوسٹ میں پیش کریں گے ان شاء اللہ
ڈاکٹر جویریہ سعید
تبصرہ لکھیے