ہوم << الیکشن 2024:اب کی بار ذرا ہوشیار-نصر اللہ گورائیہ

الیکشن 2024:اب کی بار ذرا ہوشیار-نصر اللہ گورائیہ

الیکشن کی آمد آمد ہے اور الیکشن کی آمد سے پہلے ہی میاں نواز شریف صاحب کی آمد ہو چکی ہے ۔میاں صاحب کی آمد سے پہلے جس طرح کی مصنوعی فضا تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، جلد ہی اس غبارے سے ہوا نکل گئی ،کیونکہ یہ فضا زمینی حقائق سے متصادم تھی۔ 16ماہ کی بدترین کارکردگی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ یہ فقط 16 ماہ ہی نہیں بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی عذاب الہی ہے جو روزانہ بجلی، پٹرول اور گیس کی شکل میں لوگوں پر برس رہا ہے اور گڈ گورننس کے دعوے کرنے والے اس طرح بے نقاب ہوئے کہ الامان الحفیظ! اور یاد رہے کہ اس عظیم کارنامے میں ملک کی دو نامور جماعتیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی سرفہرست تھیں باقی نمک اور مرچ برابر رکھنے کے لیے دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو بھی اس میں شامل کر لیا گیا تھاتاکہ بعد میں کوئی یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ وہ اس بر بادی میں شریک نہ تھا ۔ابھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ کہیں کہیں بلاول کی طرف سے اور کہیں شہباز شریف کی طرف سے لفظی گولہ باری کا آغاز ہو چکا ہے اور اب یہ دونوں پارٹیاں” چوٹھو چوٹھ چتالی“ کا مصداق بن کر سامنے آرہی ہیں۔ اگرچہ الیکشن کا اصل پیمانہ دنیا بھر میں کارکردگی ہی رہا ہے اور لوگ کار کردگی کی بنیاد پر ہی ووٹ دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ہمیشہ الٹی گنگاہی بہتی ہے۔ یہاں پر پی ٹی آئی ،نون لیگ پر ملبہ ڈال کر ووٹ حاصل کرتی ہے اور نون لیگ پی ٹی آئی کو برا بھلا کہ کر ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ نون لیگ کہتی ہے کہ اب ہم ووٹ کی عزت کو بحال کریں گے کیونکہ جتنی بے عزتی و بے توقیری ووٹ بیچارے کی نون لیگ کے ہاتھوں ہوئی شاید ہی دنیا کی تاریخ میں کہیں ایسا ہوا ہو یا ہو سکتا ہو۔ اب پھر جس طرح دونوں برادران ”بوٹ پالش “کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اتنی زور سے کوشش کر رہے ہیں کہ چمک ایسی ہو جو باس (Boss)کی آنکھوں کو بھلی لگے. بلکہ چھوٹے میاں نے تواب استری کرنا بھی سیکھ لیا ہے تاکہ صاحب کی یونیفارم کو اس طرح سے استری کیا جائے کہ کوئی بھی شکن نہ ہو اور جب صاحب یونیفارم زیب تن کر کے نکلیں تو صاحب کی مسکراہٹ اور تھپکی میاں صاحب کے پلیٹ لیٹس کو مزید بڑھا دے۔ جنرل جیلانی کی آشیر باد سے شروع ہونے والا یہ سفر ٓاج بھی انہی غلام گردشوں میں گھوم رہا ہے۔ جب جب صاحب نے سر سے ہاتھ اٹھا لیا بیچارے سیاسی یتیم ہوتے چلے گئے اور جب صاحب نے سر پر ہاتھ رکھ دیا تو آنکھوں اور چہرے کے رنگت بدلتی چلی گئی۔ یہ اس پارٹی کا حال ہے جو چار مرتبہ وزارت عظمی پرفائز رہ چکی ہے۔دو تہائی اکثریت سے حکومت بنا چکی ہے، جو پنجاب پر بلا شرکت غیر 25 سال سے زائد عرصہ حکومت کر چکی ہے ۔اس کے دامن میں کارکردگی کے اعتبار سے کچھ بھی نہیں ۔البتہ دعوے، وعدے ،جھوٹ، سچ، الیکٹیبلز ،پٹواری ،تھانہ، کچہری، صحافی ،چھانگا مانگا کی سیاست سے بھرپور مداری ضرور موجود ہیں اور میرا یہ دعوی ہے کہ میاں نواز شریف کو اگر آپ دوبارہ بھی وزیراعظم بنا دیں گے تو وہ ہمیشہ اپنی تاریخ کو دہرائیں گے اور اسی طرح نکالے جائیں گے جیسے لائے گئے تھے۔ وہ پھر معصومیت سے سوال کریں گے مجھے کیوں نکالا؟ ہم سوال کرتے ہیں کہ آپ لائے کیوں گئے تھے؟ آپ کی کیا کارکردگی ہے؟ آپ کی کیا نظریاتی اساس ہے؟ میاں صاحب پوچھیں گے کہ مجھے پچھلا حساب دو؟ اس لیے ہم گزارش کر رہے ہیں کہ صاحب اب بھی وقت ہے سوچ لیں،وگر نہ اب کے بچھڑے تو شاید خوابوں میں ملیں اور شاید آنکھوں میں خواب ہی نا رہیں! اس لیے ذرا سنبھل کے۔ اسی طرح پھر پیپلز پارٹی جو سمٹتے سمٹتے فقط سندھ کے چند اضلاع تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، بھی کس بنیاد پر الیکشن میں ہے حصہ لے رہی ہے؟ کار کردگی؟کیونکہ پچھلے 15 سال سے سندھ پر مسلسل حکومت پیپلز پارٹی کی رہی ہے اور جو حال سندھ کا ہے وہی حال ہے اگرکسی اور صوبے کا کرنا ہے تو دعا ہے کہ اللہ تعالی اس آزمائش سے اورکسی بھی صوبے اورملک کو محفوظ ہی رکھے ے۔ 15 سال کوئی بھی پارٹی اگر کسی صوبے پر حکومت کرتی ہے تو پھر اس کو چاہیے کہ وہ ملبہ گرانے کی بجائے، دشتام درازی کی بجائے اور جو صاحب خود 16 ماہ وزارت خارجہ کی مسند پر فائز رہے ہوںاگر وہ چاہتے تو کچھ نظر کرم سندھ کے غریب عوام پر بھی ڈال سکتے تھے لیکن چونکہ اقتدار عوام کے ذریعے تو آتا ہی نہیں اس لیے یہ پارٹیاں بھی عوام کو اتنی ہی اہمیت دیتی ہیں۔ اور جہاں سے اقتدار کے سوتے پھوٹتے ہیں وہیں پر سجدہ ریز ہوتی ہیں تاکہ گود ہری ہو سکے۔ وگرنہ کیسے ممکن ہے کہ15 سال اقتدار میں رہنے کے بعد یہ لوگ عوام میں جائیں اور عوام انہیں دوبارہ برداشت کر لے، یہ ناممکن ہے اور شعور کی جہتیں آہستہ ٓاہستہ اس طرف جا رہی ہیں۔ غلامی کی طویل سیاہ رات کو بدلنے کے لیے بہرحال وقت بھی چاہیے اور نظر بات بھی اور مقناطیسیت کی طرح اپنی طرف کھینچنے والی قیادت بھی تب کہیں جا کر قوموں کی مردہ رگوں میں زندگی کی لہر دوڑتی ہے اور اقبال نے اسی طرف شائع کرتے ہوئے فرمایا تھا

آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال
کس درجہ گراں سَیر ہیں محکوم کے اوقات!
آزاد کا ہر لحظہ پیامِ اَبدیّت
محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگِ مفاجات
آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منوّر
محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خرافات
محکوم کو پِیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندہ آزاد خود اک زندہ کرامات
محکوم کے حق میں ہے یہی تربِیَت اچھی
موسیقی و صورت گری و علمِ نباتات!
لہٰذا بظاہر آزاد نظر آنے والی مملکت اسلامیہ پاکستان ابھی حقیقت حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہے وگرنہ کیسے ممکن ہے کہ ان مداریوں کے گرد جمع ہوتے ۔علم و شعورا ور آگہی کی ایک طویل جنگ ہے جوا بھی باقی ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف نے پہلی دفعہ وفاق میں اور دوسری مرتبہ خیر پختون خواہ میں حکومت قائم کی اپنے دعووں، وعدوں کے اعتبار سے تو شاید ہی کوئی ان کا مقابلہ کر سکتا ہو لیکن کارکردگی کے میدان میں انہوں نے اپنی پیشرو پارٹیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ فقط ساڑھے تین سال میں ملک کا وہ حشر کر دیا کہ لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دیتے تھے اور گڑگڑا کر دعائیں مانگتے تھے کہ کب اس عذاب سے جان چھوٹے گی اور جب جان چھوٹی تو منیر نیازی کے بقول
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا !
پی ڈی ایم کی شکل میں ایک اور عذاب مسلط کر دیا گیا جس نے رہی سی کسر کو بھی پورا کر دیا۔ ملک کی یہ تینوں جماعتیں بری طرح ایکسپوز ہو چکی ہیں۔ کارکردگی کے اعتبار سے پوری طرح ناکام و نامراد جب کہ مقتدرہ کی حمایت اور جذبے سے پوری طرح سرشار ، مقدمات ، ایف آئی آر، نیب ، عدالتیں اور نہ جانے کیا کیا لیکن اچانک ہی تمام مقدمات سے بریت کا فیصلہ ہوتا ہے اورمیاں صاحب کی تو بہ ایسی قبول ہوتی ہے کہ ہر طرف سے اچھی اورمثبت خبریں موصول ہونا شروع ہوجاتی ہیں جبکہ اس کے برعکس دوسری طرف ناراضگی اور گلے شکووں کا دور ابھی تک چل رہا ہے ۔دیکھیں کب تک یہ چلتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کسی بھی پارٹی اور پارٹی لیڈر نے اس عرصے میں کوئی سبق نہ سیکھا۔ وہی بہانے ،وہی حیلے، وہی نعرے، وہی وعدے، وہی چہرے دوبارہ سرگرم عمل ہےں جبکہ عوام حیران اورپریشان ہے کہ جائیں تو جائیں کہاں؟
دوسری طرف جماعت اسلامی نے اس عرصے میں اپنی صفوں کو منظم کیا۔ کورونا اورسیلاب کے دونوں میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کے سامنے حکومت وقت بھی اپنے قد کاٹھ کے اعتبار سے بہت بونی لگتی ہوئی نظر آئی۔ غیر ملکی کمپنیوں نے جس طرح جماعت اسلامی کے اوپر اعتماد کا اظہار کیا وہ اس بات کا عملی اور منہ بولتا ثبوت ہے ۔اسی طرح کراچی میں جس کو پچھلے عرصے سے تباہ و برباد کر دیا گیا تھا، گوادر اور مکران ڈویژن میں حق دو کے نام سے چلنے والی تحریکوں نے عوام میں خاصی پذیرائی حاصل کی۔ بعد ازاں بلدیاتی انتخابات میں بھی اس کی واضح جھلک نظر ٓائی۔ مہنگائی کے خلاف پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں بھرپور عوامی تحریک نے اپنے بہت مثبت اثرات چھوڑے۔ فلسطین اور مسجد اقصی کے ساتھ ساتھ اظہار یکجہتی سے لے کر عملی اور مالی امداد تک غیر معمولی کارکردگی دکھائی۔اب جب کہ الیکشن کا شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے کاغذات نامزدگی جمع ہو چکے اور سکروٹنی کا عمل جاری ہے تو آئیے اللہ کے حضورحاضری سے اور دعا سے آغاز کیجئے! صفوں کو منظم کیجیے!Winning combination کے ساتھ میدان میں اتریے، کمر کس لیں ،دن اور رات ایک کر لیں ،دریا ﺅں اور صحراؤں کو پاٹ ڈالیں، پہاڑوں اورجنگلوں کو اپنے پیروںتلے روند ڈالیں، قوم کے مجرموں اور لٹیروں کو بے نقاب کردیں۔ شیر کی طرح گرجو اور بارش کی طرح برسو! راستوں کی دیواروں کو گرادو،ر کاوٹیں ہٹا دو! میڈیا اور سوشل میڈیا کا موثر بھرپور استعمال کرو۔اپنے اخلاق اور کردار کی طاقت سے مسخر کرتے چلے جاؤ! ایک زمانہ آپ کا منتظر ہے! طارق بن زیاد کی طرح پیچھے مڑ کر مت دیکھنا! انشاءاللہ ، اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوگا اور فتح و کامیابی آپ کے قدم چومے گی!!! انشاءاللہ

Comments

Click here to post a comment