ہوم << سید مودودی:حیات و خدمات-سیف ولہ رائے

سید مودودی:حیات و خدمات-سیف ولہ رائے

مولانا مودودی ، کا آج 120 واں یومِ پیدائش ہے ۔ 25 ستمبر 1903 کو انہوں نے حیدر آباد دکن کے شہر اورنگ آباد کے ایک با وقار اور با علم خاندان میں آنکھ کھولی۔
ان کا سلسلہِ نسب معروف صوفی بزرگ خواجہ سید قطب الدین مودود چشتی سے جا ملتا ہے۔ ان کے آبا افغانستان کے شہر چشت میں آباد تھے، اور سکندر لودھی کے عہد میں برصغیر آئے۔

سید مودودی نے دینی و دنیاوی تعلیم کئی جید علماء سے حاصل کی، جن میں مولانا عبد السلام نیازی، مولانا شریف اللہ ، مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی شامل ہیں ۔

سید مودودی ایک ہونہار شائقِ علم تھے، اور صرف 11 برس کی عمر میں انہوں نے قاسم امین کی کتاب المرہ الجدیدہ کا عربی سے اردو ترجمہ کیا۔ اسی برس سید مودودی نے مدرسہ فوقانیہ المشرقیہ میں داخلہ لیا ، جس کی بنیاد علامہ شبلی نعمانی نے رکھی تھی۔
اس کے بعد مولانا مودودی حیدر آباد کے دار العلوم میں داخل ہوئے۔
16 سال کی عمر تک مولانا مروجہ دینی و دنیاوی تمام علوم کا مطالعہ کر چکے تھے، اور نا صرف برصغیر بلکہ مغربی فلسفہ ، ادب ، ادیان سب پر آپ کی گرفت تھی۔

اسی دوران انہوں نے 17 برس کی عمر میں معروف ہفتہ وار اردو اخبار "تاج" کی ادارت سنبھالی، اور روائتی اسلامی تعلیم کی سند "اجازہ" بھی حاصل کی۔
1924 تا 1927 سید مودودی نے جمعیت علمائے ہند کے اخبار الجمعیہ کی ادارت سنبھالے رکھی۔
1926 کے اواخر میں سید مودودی نے صرف 23 برس کی عمر میں وہ کتاب تصنیف کی، جس پر علامہ اقبال نے کہا کہ اس موضوع پر ایسی محققانہ و غیر معذرت خواہانہ کتاب آج تک نہیں لکھی گئی۔ وہ کتاب تھی، الجہاد فی الاسلام ۔ یہ کتاب سوامی شردھانند کی شدھی تحریک کے جواب میں لکھی گئی تھی ، الجہاد فی الاسلام نے نا صرف ہندوؤں ، بلکہ ہر مذہب کے ہر معترض کو لاجواب کر دیا۔

1932 میں سید ترجمان القرآن نامی علمی و تحقیقی رسالے سے وابستہ ہوئے، اور وہیں سے اپنی فکر اور نظریے کی ترویج کرتے رہے۔ اس دوران علامہ اقبال سے بھی خط و کتابت جاری رہی۔
1937 میں انہوں نے دو قومی نظریے کی ترویج کی، یعنی مسئلہ قومیت تحریر کیا، جس کے مطابق ، مسلمان اپنی الگ شناخت کے باعث زندہ ہیں اور کسی اور مذہب یا دین سے ہر اعتبار سے الگ ہیں، چنانچہ اسلام کو اپنی مکمل آب و تاب حاصل کرنے کے لیے الگ اور خودمختار حیثیت حاصل ہونا لازمی ہے۔ اس کتابچے کا شایع ہونا تھا کہ ایک طوفانِ بد تمیزی برپا ہو گیا۔ کانگریس کے حامی علمائے سو نے چہار جانب سے سید مودودی پر دقیق حملے شروع کر دیے ۔

سید مودودی اس عرصے میں ناصرف ترجمان القرآن کے ذریعے اسلامی نظریہِ حیات کی ترویج کر رہے تھے، بلکہ مختلف تعلیمی اداروں اور جامعات میں اعزازی لیکچرز کے ذریعے بھی اپنے پیغام کو عام کر رہے تھے ۔
پھر 1941 میں انہوں نے باقاعدہ اپنے نظریے کو ایک تنظیم میں پرونے کا فیصلہ کیا اور جماعت اسلامی ہند کی بنیاد رکھی ۔

اس دوران ان کے قائد اعظم کے ساتھ روابط بھی رہے اور نواب بہادر یار جنگ کے توسط سے بانیَ پاکستان سے ان کی بات چیت جاری رہی.
قیامِ پاکستان کے بعد سید مودودی نے بھارت کے شہر پٹھان کوٹ سے پاکستان کے شہر لاہور کی جانب ہجرت کی. اور لاہور ہی ان کی دعوتی، علمی اور تحقیقی خدمات اور جماعت اسلامی کا مرکز بنا.
پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد ہی آمروں نے اس کواپنی جاگیر سمجھنا شروع کر دیا. سید مودودی کا ہر آمر سے ٹکرا جانا فطری بات تھی. چنانچہ ان کے 1948 میں قائدَ اعظم کی وفات کے بعد، کئی برس تک مولانا کا جیل آنا جانا لگا ہی رہا. 1953 میں قادیانی مسئلہ نامی کتابچہ تحریر کرنے پر قادیانیت نواز حکمرانوں نے سید مودودی کو سزائے موت سنا دی تو پوری دنیا میں ہنگامہ ہو گیا. کم و بیش ہر اسلامی ملک نے یہ مطالبہ کیا کہ اگر پاکستان کو سید مودودی کی ضرورت نہیں رہی تو باقی امت کو ان کی بہت ضرورت ہے. لہٰذا انہیں ہمارے ملک بھیج دیا جائے. کچھ اندرونی اور بیشتر بیرونی دباؤ کی بنیاد پر بالآخر سید مودودی کی سزائے موت کو پہلے عمر قید اور پھر چند برس کی قید میں بدل دی گیا.
البتہ اس دوران ان کا تحقیق اور تحریر کا کام بخوبی جاری رہا. جیل میں ہی انہوں نے قرآن کی تفسیر، تفہیم القرآن کا بڑا حصہ مکمل کیا، جو بلا مبالغہ اردو زبان میں قرآن کی سب سے موثر تفسیر ہے. دوسری جانب انہوں نے تفہیم احادیث بھی لکھی، جس کا اپنی جگہ ایک خصوصی مقام ہے. سید مودودی نے سیرت سرورِ عالم ﷺ کے نام سے سیرت النبی ﷺ بھی مرتب کی.
جبکہ سید مودودی کی مجموعی دینی،علمی و ادبی خدمات کا اندازہ لگانا مشکل ہے. ان کی چند معروف کتب میں دینیات، خطبات، تعلیمات، تجدید و احیائے دین، خلافت و ملوکیت، تنقیحات، پردہ، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، سود، اسلامی معیشت، یہودیت قرآن کی روشنی میں، عیسائیت، حقیقتِ اسلام، حقیقتِ حج، حدیث اور قرآن، سنت کی آئینی حیثیت، حقوق الزوجین، دکن کی سیاسی تاریخ، اسلام اور ضبطِ ولادت، اسلامی ریاست، تحریکِ آزادیِ ہند اور مسلمان، سلاجقہ، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی، حوادثِ سمرنا، سانحہِ مسجد اقصٰی، رسائل و مسائل، قادیانی مسئلہ اور اُس کے مذہبی‘ سیاسی اور معاشرتی پہلو،مسئلہ جبر و قدر .
سید کی تصانیف کی مجموعی تعداد تو سو سے کہیں زیادہ ہے.
سید مودودی 1972 تک جماعت اسلامی کے امیر رہے، پھر علالت کے باعث انہوں نے امارت سے معذرت کر لی.
1979 میں سید مودودی کو عالمِ اسلام کا سب سے بڑا اعزاز، شاہ فیصل ایوارڈ ملا. اسی برس علاج کی غرض سے امریکہ تشریف لے گئے ، مگر جانبر نہ ہو سکے اور 22 ستمبر 1979 کو اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے. اخبارات کی ایک سرخی یہ تھی کہ مشرق کا آفتاب، مغرب میں‌غروب ہو گیا.
سید مودودی 1979 میں وفات تو پا گئے، مگر دنیا بھر میں اقامتَ دین کی اسلامی تحاریک کی جو داغ بیل وہ ڈال چکے ہیں، وہ اپنے نظریات میں سیدمودودی کے نام کو بڑی دیر تک زندہ رکھیں گی.