بھارت کی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف دائر23 درخواستوں پر سماعت مکمل ہو گئی ہے۔ بھارتی عدالت اعظمیٰ نے 16 دن تک فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
سپریم کورٹ آف انڈیا کے آئینی بنچ نے بھارتی دستور کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے کی درخواستوں کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی۔ یہ آئینی بنچ میں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس سوریہ کانت شامل تھے۔
مودی حکومت نے 5 اگست 2019 کو ایک متنازعہ فیصلے کے ذریعے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم اور ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں (جموں کشمیر اور لداخ ) میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ جس کے خلاف مارچ 2020 میں متعدد درخواست گزاروں نے بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ ابتدائی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل "آئینی بنچ" کے سامنے درخواستوں کو مقرر کیا گیا تھا۔ حالانکہ کئی درخواست گزاروں کی استدعاء تھی کہ اسے سات ججز پر مشتمل آئینی بنچ کے سامنے مقرر کیا جائے۔
دو اگست 2023 کو سماعت کے آغاز کے موقعہ پر ہی بھارتی چیف جسٹس، دھننجے یشونت چندر چوڑ نے اعلان کیا کہ جنوبی ایشیا کے اس اہم اور حساس ترین ایشو کی صرف 60 گھنٹے سماعت کی جائے گی۔ جس سے ایسا محسوس ہوا تھا کہ وہ اگست کے مہینے کے دوران ہی یہ سماعت مکمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن کیس کی سماعت ستمبر میں اپنے اختتام کو پہنچی۔
واضع رہے کہ سماعت سے قبل ہی جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے بیوروکریٹ فیصل شاہ اور دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی سابق یونین لیڈر شہلا راشد نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں تھیں۔ جبکہ سماعت کے آغاز میں ہی بھارتی عدالتِ عظمیٰ نے مودی حکومت کے اُس بیان حلفی کو خارج کر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کی وجہ سے جموں و کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوئی، اور امن اور ترقی کا دور شروع ہوا،
بھارتی اعلیٰ ترین عدالت میں سماعت کے دوران ہزاروں صفحات پر مشتمل دستاویزات پیش کی گئیں ہیں دی ٹرانسفر آف پاور ان انڈیا اور آرٹیکل 370اے کانسٹی ٹیوشنل ہسٹری آف جموں اینڈ کشمیر اور دیگر کئی کتابیں بطور ریفرنس عدالت کے حوالے کی گئیں۔ مقدمے میں بھارتی حکومت کی نمایندگی اٹارنی جنرل اور سالیسٹرجنرل نے کی۔
ہندوستان کے نامور وکیل کپل سبل نے 2 اگست 2023 کو بحث کا آغاز کیا۔ ان کا تھا کہ جموں و کشمیر کے لیے ایک علیحدہ دستور ساز اسمبلی کی تشکیل کی وجہ ہی یہ تھی کہ الحاق کی شرائط کے تحت بھارتی پارلیمنٹ ریاست جموں کشمیر کے لیے دستور سازی کا اختیار نہیں رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنے دلائل میں تاریخی نظائر کا جائزہ لیتے ہوئے بیع نامہ امرتسر سے لے کر 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ کی بھارت سے الحاق کی دستاویزکے اہم نقاط عدالت کے گوش گزار کیے۔ اُنہوں نے بھارت کے پہلے گورنر جنرل کا وہ خط عدالت میں پڑھ کر سُنایا جس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ریاست جموں وکشمیر کے مستقل الحاق کو کشمیری عوام کی رائے کے ذریعے طے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ آرٹیکل 370 کو ایک "عارضی انتظام” قرار دیتے ہوئے اُن کا استدلال تھا کہ بھارت کی آئین ساز اسمبلی نے اپنی سات سالہ مدت میں آرٹیکل 370 پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اور نہ ہی جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے اپنی تحلیل سے قبل ایسا کوئی فیصلہ کیا تھا۔ اس لیے اس کے بعد آرٹیکل 370 کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اب کسی آئین ساز اسمبلی کا وجود باقی نہیں ہے۔
بھارتی چیف جسٹس نے ریماکس دیا کہ آئین کا آرٹیکل 370 (ون) کی شق (بی) بھارتی پارلیمنٹ کو ریاست جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کا اختیار نہیں دیتی۔ اس موقعہ پر کشمیری پنڈت کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے جج جسٹس کول نے ریماکس دیا کہ آرٹیکل 370 (ون - بی) کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون سازی کے لیے ہندوستانی پارلیمنٹ کا اختیار صرف دو نقاط تک محدود ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ جموں و کشمیر کے حوالے سے صرف اور صرف "مرکز سے تعلق” اور "کنکرنٹ لسٹ” کے معاملات کی حد تک قانون سازی کر سکتی ہے۔ اور مزید یہ کہ ایسی قانون سازی بھی ریاست جموں و کشمیر کی منتخب حکومت کے ساتھ مشاورت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کیوں کہ الحاق کی دستاویز کے مطابق ریاست جموں و کشمیر سے متعلق کسی بھی معاملے میں قانون سازی کے لیے منتخب ریاستی حکومت کی رضامندی اور مشاورت ضروری ہے۔
ایک موقعہ پر جسٹس کول نے سوال اٹھایا کہ اگر آرٹیکل 370 مستقل نہیں تھا، تو پھر اس کے خاتمے کا آئینی طریقہ کار کیا ہو سکتا ہے؟
جو طریقہ کار اپنایا گیا، وہ درست تھا؟
جسٹس چندر چوڑ نے نے ریماکس دیا کہ پارلیمنٹ اور آئین ساز اسمبلی دو الگ الگ ادارے ہیں۔ پارلیمنٹ خود کو آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرنے کی مجاز نہیں ہے۔
راجیہ سبھا کے رکن اور سنیئر وکیل کپل سبل نے موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے وقت جموں و کشمیر میں گورنر راج نافذ تھا اور ریاست کا گورنر وفاق کا مائندہ تھا۔ اُس سے مشاورت کی بنیاد پر "ریاست کی خصوصی حیثیت” کو کلعدم قرار دیا گیا۔ اس فیصلے اور طریقہ کار کے عواقب کی نشاندہی کرتے ہوئے اُنہوں نے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی 11 اگست 1952 کی تقریر کا حوالہ دیا۔ جس میں شیخ عبداللہ نے کہا تھا کہ آرٹیکل 370 ہندوستان کے ساتھ ہمارے (کشمیریوں کے) تعلقات کی بنیاد ہے۔ یہ دو حکومتوں کے درمیان معاہدے کی طرح ہے۔ اس سے چھیڑ چھاڑ، ریاست جموں کشمیر کی ہندوستان کے ساتھ وابستگی پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ ایسی کوشش کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔
بحث میں حسہ لیتے ہوئے سینئر وکیل گوپال سبرامنیم نے دلیل پیش کی ہندوستانی آئین کی طرح ریادت جموں و کشمیر کا بھی اپنا الگ آئین ہے۔ جو 1957 میں جموں کشمیر کی اپنی آئین ساز اسمبلی نے تشکیل دیا تھا۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 بھارتی اور جموں کشمیر کے آئین کے درمیان پل یا رابطے کا ذریعہ ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت بھارت میں ضم ہونے والی دیگر تمام ریاست سے مختلف ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کا 1939 سے اپنا الگ آئین تھا۔ ہندوستان کے ساتھ الحاق سے پہلے "پرجا پریشد” کے نام سے اپنا پارلیمانی نظام تھا۔ اُنہوں نے موقف اختیار کیا کہ جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی وجہ سے ہی ہندوستان کے صدارتی احکامات کا جموں کشمیر میں نفاذ ممکن ہوا تھا۔ اگر ریاست جموں کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے آرٹیکل 370 کو منسوخ نہیں کیا۔ تو پھر دوسرا کوئی ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے جس کے ذریعے ہندوستانی حکومت یا پارلیمنٹ آئین کی آرٹیکل 370 کو منسوخ کر سکے۔
جموں و کشمیر کے سرکردہ قانون دان اور شعبہ قانون کے اُستاد ظفر احمد شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 370 نے دراصل "الحاق کی دستاویز" میں درج اختیارات کو برقرار رکھا ہے۔ کیوں کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے جموں و کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ مگر انضمام کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنے دلائل میں الحاق اور انضمام کی سیر حاصل تشریح کی، اُن کا موقف تھا کہ چونکہ جموں و کشمیر کے بھارت میں انضمام کے حوالے سے کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے، اس لیے جموں و کشمیر کی ‘آئینی خود مختاری’ برقرار ہے۔ بھارت کو جموں و کشمیر کے حوالے سے صرف دفاع، خارجہ امور اور مواصلات سے متعلق قانون سازی کے اختیارات حاصل ہیں۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ کو جموں کشمیر کے لیے محدود قانون سازی کے لیے بھی دوسرے فریق کا رضامند ہونا لازمی شرط ہے۔
یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی رضامندی ہوگی، جو منتخب اسمبلی یا کسی ہنگامی صورت میں بھی کم از کم منتخب کابینہ دے سکتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ آئینی طور پر یہ تصور ہی محال ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ جموں و کشمیر کے حوالے سے کوئی یکطرفہ فیصلہ کر دے۔
بینچ کے رکن جسٹس کھنہ نے ریمارکس دیے کہ مجھے مکمل انضمام کے لفظ کے استعمال پر تحفظات ہیں۔ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 1 کے لحاظ سے جموں کشمیر کا ہندوستان میں مکمل انضمام ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مہاراجہ جموں و کشمیر کے الحاق کے مسودہ پر دستخط کرنے کے بعد انضمام کی بحث ختم ہو جاتی ہے۔
لیکن وکیل ظفر شاہ ججز کے اس استدلال سے متفق نہیں ہوئے، اُنہوں نے کہا کہ ریاست جموں کشمیر کی خود مختاری الحاق کی دستاویز کے ذریعے بھارت کو منتقل نہیں کی گئی۔ جو ریاست کی جانب سے انضمام کے معاہدے کے ذریعے ہی مکمن تھا۔
اس پر بھارتی چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 1 کہتا ہے کہ ہندوستان ریاستوں کی ایک یونین ہوگی جس میں ریاست جموں و کشمیر بھی شامل ہے۔ اس انداز سے دیکھیں تو جموں کشمیر کی خود مختاری خود بخود بھارت کو مکمل طور پر منتقل چکی ہے۔ ہم ہندوستانی آئین کو اس انداز سے نہیں پڑھ سکتے کہ آرٹیکل 370 کی وجہ سے جموں و کشمیر کی خود مختاری برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اس کے جواب میں ظفر شاہ ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 253 جو بین الاقوامی معاہدوں، معاہدوں اور کنونشنز سے متعلق ہے، اس میں بھی یہ شق شامل ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے اختیار کو متاثر کرنے والا کوئی فیصلہ ریاستی حکومت کی رضامندی کے بغیر ہندوستاتی حکومت نہیں کرسکتی۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 306 اے کہتا ہے کہ ریاست جموں کشمیر کا حتمی فیصلہ زیر التواء ہے۔ بی جے پی سے ہی تعلق رکھنے والے سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے 2005 میں سری نگر میں کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ ’مسئلہ کشمیر کو انسانیت اور جمہوریت کے دائرے میں حل کیا جائے گا۔
ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون نے اپنے دلائل میں کیا کہ ہندوستان ایک ملک کے بجائے ایک برِصغیر ہے۔ ریاستوں کی خود مختاری کی ہندوستانی آئین میں بنیادی حیثیت ہے۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کے لیے کوئی بہت انوکھے اختیارات پیش نہیں کرتا۔ ایسے ہی حقوق آرٹیکل 371 کے تحت کئی دیگر بھارتی ریاستوں کو بھی حاصل ہیں۔
ان کا کہنا تھا الحاق اور انضمام کے حوالے سے بینج کی رائے سے مکمل اتفاق کر لیا جائے تو بھی اس کے نتیجے میں یہی ثابت ہوگا کہ الحاق کی دستاویز کی وجہ سے جموں کشمیر کی "بیرونی خودمختاری” ختم ہوگئی تھی۔ اور صرف اندرونی خود مختاری باقی رہی۔ اُنہوں نے دلیل پیش کی کہ جموں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے 1947 میں ہندوستان کے بجائے پاکستان کے ساتھ معاہدہ قائمہ (standstill agreement) کیا تھا۔ بعد ازاں جموں کشمیر ہائیکورٹ کے جسٹس پریم ناتھ نے اپنے ایک عدالتی فیصلے میں آرٹیکل 370 کو اسٹینڈ اسٹل معاہدے کا متبادل قرار دیا تھا۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 3 کے علاوہ 1954 کے بھارتئ صدارتی حکم نامے میں بھی واضع طور پر کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے رقبے میں کمی/ زیادتی یا ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے کا کوئی بھی بل جموں و کشمیر اسمبلی کی پیشگی رضامندی حاصل کیے بغیر ہندوستانی پارلیمنٹ میں پیش ہی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے واضع کیا کہ متعدد اوقات میں ہندوستانی حکومت نے کشمیری عوام کے ساتھ وعدے کیے ہیں کہ ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا۔ کئی مواقعوں پر ہندوستانی رہنما اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ رائے شماری کے ذریعے جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی جاننے کے لیے پابند ہیں۔
ایڈوکیٹ دشانت دوئے نے کہا 5 اگست 2019 کے احکامات تضادات کا مجموعہ اوربھارتی آئین کے ساتھ فراڈ کے مترادف ہیں۔ آرٹیکل 370 ہندوستان کے لیے کبھی بھی عارضی نہیں تھا۔ یہ جموں و کشمیر کے عوام کے لیے اس حیثیت میں عارضی تھا کہ وہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کر سکتے تھے۔ مہاراجہ ہری سنگھ اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے درمیان کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ مشروط الحاق کے معاہدے کی تشریح آرٹیکل 370 کے تناظر میں ہونی چاہیے۔ آرٹیکل 370 کی تشریح آرٹیکل 370 کے اندر ہی موجود ہے۔ اس آرٹیکل میں کوئی بھی ترمیم صرف آئین میں درج طریقہ سے ہی ہو سکتی ہے۔
سینئر وکیل کپل سبل نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے وقت پر بھی سوال اٹھایا۔ اُنہوں نے کہا کہ مودی حکومت کا یہ فیصلہ پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے چند دن بعد آیا تھا۔ بی جے پی حکومت نے اس حملے کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا۔
ایک موقعہ پر کپل سبل نے آئینی پینچ کو بتایا کہ اسی سماعت میں چند منٹ کے دلائل دینے والے کشمیری اُستاد ڈاکٹر ظہور احمد بھٹ کو عدالت میں پیش ہونے کے فورا بعد سرکاری ملازمت سے معطل کر دیا گیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہر کسی کو عدالت میں پیش ہونے کا حق ہے۔ اس بنیاد پر انتقاما اُس کے خلاف کاروائی نہیں کی جا سکتی۔ اگر ایسا کیا گیا ہے تو بہت افسوس ناک ہے، اُنہوں نے سرکاری وکیل کو ہدایت کی کہ لیفٹیننٹ گورنر سے بات کریں اور معلوم کریں کہ کیا واقعی ایسا ہو ہے۔ اگر اس عدالت میں پیشی کی وجہ سے انہیں معطل کیا گیا ہے تو براہ کرم اس پر غور کریں۔
بھارتی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا آرٹیکل 370 کی منسوخی کا دفاع کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 ایک عارضی شق تھی۔ ماضی میں بھی اس حوالے سے متعدد بار اس میں ترمیم کی گئی ہے، جب بھی آرٹیکل 370 میں کوئی لفظ عملا بے معنی (otiose) بن گیا، اُسے بدل دیا گیا۔ جیسا کہ جموں کشمیر کے لیے صدر کے لفظ کو گورنر نے تبدیل کیا تھا۔ اس آرٹیکل کی منسوخی جموں و کشمیر کو ملک کے باقی حصوں کے برابر لانے کے لئے ایک ضروری قدم تھا۔ ریاست جموں و کشمیر میں صدر راج کے دوران آرٹیکل 3 کی معطلی انتظامی معاملہ تھا۔ اس سے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ دفعہ 370 کی منسوخی سے جموں و کشمیر کے لوگوں کو سرمایہ کاری اور سیاحت میں اضافہ جیسے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ اس معاملے کو جموں و کشمیر کے لوگوں کے نقطہ نظر سے دیکھیں۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام نے انہیں ملک کے دوسرے لوگوں کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ اب جموں کشمیرکے لوگوں کو یقین آ گیا ہے کہ آرٹیکل 370 اور 35A انکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں رہے۔ اب سرمایہ کاری آرہی ہے۔ سیاحت شروع ہو چکی ہے۔ اب تک 16 لاکھ سیاح جموں کشمیر آ چکے ہیں۔ عوام کے لیے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ جن ججز کا جموں و کشمیر کی ہائی کورٹ میں تقرر ہوتا تھا، وہ ریاست کے آئین پر حلف لیتے تھے۔ حالانکہ وہ بھارتی آئین کے تحت ڈیوٹی انجام دے رہے تھے، لیکن ان کا دوبارہ حلف ریاست کے آئین پر ہوتا تھا۔
سماعت کے باوہویں روز بھارتی سپریم کورٹ نے مودی حکومت سے کہا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کے لئے روڈ میپ اور ٹائم فریم کی وضاحت کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مرکزی حکومت کے لئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ریاست کا درجہ کب بحال کیا جائے گا اور جموں و کشمیر میں انتخابات کب ہوں گے۔ عدالت نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا پارلیمنٹ کو کسی ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے کا اختیار حاصل ہے؟
اس پر سالیسیٹر جنرل مہتا کا کہنا تھا کہ جلد ہی ایک مثبت بیان عدالت میں جمع کروا دیا جائے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کی یونین ٹریٹری والی حیثیت مستقل نہیں ہے۔ مرکزی حکومت کا ارادہ ریاست کا درجہ بحال کرنا اور وہاں انتخابات کروانے کا ہے۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ "لداخ بدستور ایک یونین ٹریٹری ہی رہے گا"۔
سینئر وکیل راکیش دویدی نے دلیل دی کہ جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کو منسوخ کرنا کوئی ایگزیکٹو فیصلہ نہیں تھا۔ اس فیصلے کو جموں و کشمیر کے ممبران پارلیمنٹ سمیت پوری ہندوستانی پارلیمنٹ کی منظوری حاصل تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آرٹیکل 70 کی موجودگی میں بھی جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کے پاس محدود اختیارات تھے۔ وہ قانون سازی کے لیے ہمیشہ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے برعکس ہندوستانی آئین کی پیروی کرتی ہے۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بھارتی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں پالیسی بیان جمع کرایا کہ وہ جموں و کشمیر کے مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے کے لئے کوئی ٹائم فریم نہیں دے سکتی۔ صرف یہ کہا گیا کہ جموں و کشمیر کا یونین ٹریٹری کا اسٹیٹس عارضی ہے۔ عدالت میں مہتا نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر میں تشدد کے واقعات مثلا دہشت گردی، دراندازی، پتھراؤ اور سیکورٹی اہلکاروں میں ہلاکتوں میں کمی آئی ہے۔
اس پر چیف جسٹس چندرچوڑ نے ریماکس دیے کہ یہ عدالت آرٹیکل 370 کی منسوخی کا فیصلہ مودی حکومت کے پیش کردہ اعداد و شمار کے بجائے آئینی دلائل کی بنیاد پر کرے گی۔
سماعت کے آخری حصے میں اُس وقت دلچسب صورتحال پیش آئی جب بھارتی خٖفیہ ایجنسیوں سے تعلقات کی شہرت رکھنے والی کشمیری پنڈتوں کی تنظیم " روٹس ان کشمیر" کی ایک غیر متعلقہ متفرق درخواست کو اچانک عدالت نے سماعت کا حصہ بنا دیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے رہنما اور کیس کے مرکزی درخواستگزار محمد اکبر لون نے فروری2018 کو مبینہ طور پر مقبوضہ جموں کشمیر اسمبلی میں پاکستان کے حق میں نعرے لگائے تھے لہذا دفعہ370 کے حوالے سے انکی درخواست نہیں سنی جاسکتی۔
اس درخواست پر اظہار خیال کرتے ہوئے بھارتی حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ حکومت چاہتی ہے کہ محمد اکبر لون 2018 میں جموں و کشمیر اسمبلی میں ‘پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرنے پر معافی مانگیں، "جموں کشمیر میں اعلیحدگی پسند" اور (بقول اُن کے) پاکستان کی اسپانسر عسکری جدوجہد کی مذمت کریں۔ بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے حکم دیا کہ لون کو ایک حلف نامہ داخل کرنا ہوگا کہ وہ غیر مشروط طور پر ہندوستان کی خود مختاری کو قبول کرتے ہیں، وہ بھارتی آئین کی پاسداری کرتے ہیں، اس کی وفاداری کے پابند ہیں۔ اور یہ کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے۔
کشمیری رہنمامحمد اکبر لون اپنے حلد نامے میں کہا کہ ہندوستان کے آئین کی جزباتی تشریح نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ جموں و کشمیر نہ تو مکمل طور پر ہندوستان سے منسلک ہے اور نہ ہی دیگر ریاستوں کی طرح جموں وکشمیر کو انضمام کے معاہدے پر دستخط کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس حلف نامے پر بینچ کی جانب سے سخت ناگواری اور تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
آخری روز کی سماعت میں سینئر وکیل ظفر شاہ نے دلیل دی کہ آرٹیکل 370 نے 1950 میں جموں و کشمیر کو نمایاں خود مختاری فراہم کی تھی۔ جسٹس کھنہ نے ریماکس میں کہا کہ آئین کے دیباچے میں 'ہندوستان کے عوام' کو اپنانے کا اعلان کیا گیا ہے جس میں جموں و کشمیر کے لوگ بھی شامل ہیں۔
چیف جسٹس چندرچوڑ نے بنیادی حقوق کو نافذ کرنے کے لئے عدالت تک رسائی کی اہمیت پر زور دیا۔ اُنہوں نے اس طرح کی درخواستوں کو بھارتی حکومت، میڈیا اورسیاسی جماعتوں کی جانب سے علیحدگی پسندی کا ایجنڈا قرار دینے پر تشویش کا اظہار کیا۔
درخواست گزاروں کی جانب سے جواب الجواب میں اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان ریاستوں کی یونین ہے۔ جموں و کشمیر کے شہریوں کو اُن بنیادی حقوق سے بھی کسی صورت محروم نہیں کیا جا سکتا جو بھارت کی دیگر ریاستوں کے رہائشیوں کو حاصل ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ ریاست کے مستقبل کے لیے اس اہم ترین فیصلے سے پہلے آئین کی روح کے مطابق عوامی مشاورت اور اعتماد سازی کا عمل نہیں ہوا۔ سینئر ایڈوکیٹ گوپال سبرامنیم کی دلیل تھی کہ الحاق کی دستاویز کی روح سے ریاست جموں و کشمیر کی مکمل خودمختاری بھارت کو منتقل ہی نہیں ہوئی، اس لیے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بھارتی صدر جمہوریہ کے احکامات ناقص ہیں۔
بھارت کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کا آئین ہندوستانی آئین کے مساوی یا برتر نہیں ہے۔ سینئر وکیل سبرامنیم نے زور دے کر کہا کہ جموں و کشمیر کا آئین قانونی طریقہ کار پر عمل کیے بغیر ختم نہیں ہوسکتا ہے۔
سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون کا موقف تھا کہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے مودی حکومت کے فیصلے میں جمہوریت، معقولیت اور وفاقیت جیسے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ بھارت حکومت اس عدالت کے سامنے بھی جموں کشمیر کی ریاست کا درجہ بحال کرنے کے لئے واضح روڈ میپ کی پیش کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
سینئر وکیل دشینت دوے نے بحیثیت جموریہ بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کے عوام سے کئے گئے متعدد بار کے وعدوں کو پورا کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ اُنہوں نے کشمیری عوام سے کیے گئے وعدوں کی عدم تکمیل کی روشنی میں بھارت کے آئینی اخلاقیات کے زوال پر تشویش کا اظہار کیا۔
اطراف کے دلائل اور بحث مکمل ہونے پر بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا، جو رواں سال دسمبر میں سُنایا جانا متوقع ہے۔
واضع رہے کہ ریاست جموں کشمیر کی خود مختاری کی ضمانت دینے والے آرٹیکل 370 کو آئین سے ہذف کرنا بی جے پی کے اہم ترین نعروں میں شامل رہا ہے۔ پھر 2019 کے بعد سے اس کے خاتمے کو مودی حکومت کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جاتا رہا ہے۔
بھارت میں اگلے سال ہونے والے انتخابات میں نریندر مودی حکومت کی عدالت میں ہار ایک سیاسی دھچکہ ہو سکتی ہے۔
بادی النظر میں عدالت کے روبرو ہونے والے دلائل اور جوابی دلائل کے بعد زیادہ قرین القیاس امر یہی ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف مقدمے میں جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کا حکم جاری کرسکتی ہے۔
البتہ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہر طرح کے عدالتی فیصلے کو بی جے پی آئیندہ الیکشن کے اسٹنٹ کے طور پر استعمال کرے گے۔ آرٹیکل 370 کی بحالی کی صورت میں انتخابات میں یہ مدعا رکھے گی کہ 2019 جیسے دوبارہ اقدام کے لیے اسے ووٹ دیے جائیں۔
تبصرہ لکھیے