وقت پر لگا کر کب ،کہاں غائب ہوجاتا ہے، پتہ ہی نہیں لگتا۔ جیسے سمندری ریت سے مٹھی بھریں اور مٹھی خوب بھینچ لیں، لیکن جونہی مٹھی کھول کے دیکھا تو چند ذرات کے سوا ہاتھ میں کچھ نہیں بچتا۔
ابھی کل کی بات لگ رہی ہے، میں اور بادشاہ گاڑی میں بیٹھے ہوائی اڈے کی جانب رواں تھے۔
آہ!
انسان واقعی خسارے میں ہے۔۔۔ کاش کہ وہ سمجھ سکے۔
تو بھیا!
بات کچھ یوں ہے کہ جیسے پہلے عرض فرمایا تھا، پلان حقیقتاً اسکینڈینیویا جانے کا تھا مگر حالات کے جبر نے سوئس کی راہ دکھا دی۔ بادشاہ بھائی کے دلفریب خراٹوں کے آہنگ میں جو دو راتیں جاگ کر گذری تھیں، شاید قدرت کو اب میری حالت پر رحم آگیا تھا، اسی لیے موسم سرما کی چھٹیوں پر وسطی یورپی ممالک کی سیر کا قصد پورا کروا دیا تھا۔
تو خیر، ہم جو نکلے اپنے گھر سے، پہنچے لندن گیٹ وک، تو یہ تو ہو نہیں سکتا کہ عام انسانوں کی طرح ہمارا کام آسانی سے ہو جائے، کہ ہم نے کام نہیں ہمیشہ کارنامہ کیا ہے۔ ہوائی اڈے تک تو گو کہ تمام مراحل خوش اسلوبی سے طے پاتے گئے، پر حیف کہ ہماری فلائٹ اٹینڈینٹ کو اسید بھائی کچھ اتنے پسند آئے، کہ انہوں نے اسید بھائی کو طیارے پر چڑھنے سے ہی روک دیا، حالات کہ جبر کے آگے ہم جیسا مطلب پرست اور کر بھی کیا سکتا تھا۔۔۔ اسید بھائی کو دروازے سے ہی فی امان اللہ کہا اور آرام سے آکر طیارہ میں سکون کا سانس لیا۔
سفر کچھ گھنٹے سوا گھنٹے کا رہا ہوگا، لیکن دو راتوں کی بے خوابی کی باعث اڑان بھرتے ہی نیند نے آلیا۔ زیورخ پہنچے، امیگریشن کروائی اور میرا بھائی یہ جا وہ جا۔۔۔
بقول پریش راول، "گونگا بہرا بھی گیا، بیوقوف سے بھی جان چھوٹی اور ناؤ بھی مل گئی۔۔۔۔ پکڑ لیا!!!!"
(مزید معلومات کیلئے 'چھپ چھپ کے' مووی دیکھیں)
لیکن بقول جون ایلیا کہ،
تیرے بغیر مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
مرے بغیر تجھے نیند کیسے آتی ہے
بادشاہ بھائی نے 'دل جلے' پکچر کا شاکا بن کر موت کا پیچھا کرنے کی بجائے میرا پیچھا شروع کردیا۔ اور آ پہنچے آسٹریا کے کیپیٹل ویانا۔ اب تو کوئی ٹوپی مزید فٹ نہیں ہوسکتی تھی، چار و ناچار منہ بسور کر ویانا کی طرف گاڑی موڑ دی کہ اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
سوئس کی سرسبز وادیوں کا تو بچپن سے سنتے آئے تھے البتہ 'آسٹریا' نامی بلا کا پہلا تعارف ایک رائفل کے بارے میں پڑھتے ہوئے ہوا تھا۔ بہر حال، سوئس جغرافیائی لحاظ زمیں بند یا لینڈ لاکڈ ملک ہے۔ اس کے جنوب میں اٹلی، مغرب میں فرانس، شمال میں جرمنی اور مشرق و شمال مشرق میں آسٹریا ہے۔ ان کے پاس نہ دنیا کی 'لمبڑ ون' ہے نا سب سے ہینڈسم وزیر اعظم، اس کے باوجود ان کے اپنے پڑوسی ممالک سے مثالی تعلقات ہیں۔ نا صرف مثالی تعلقات ہیں، بلکہ شینجن معاہدے کا حصہ نہ ہونے کے باوجود آپ بغیر کسی مشکل و پریشانی کے بارڈر کراس کرسکتے ہیں اور پڑوسی ممالک میں آ جا بھی سکتے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کے مشرق میں واقع 'وادی گالان' سے گذر کر آپ آسٹریا میں داخل ہوتے ہیں۔ صاف ستھری سڑکیں، گاڑیاں، مکان و مقامات دیکھ کر لمحہ بھر کو مجھے خیال ہوا کہ شاید یہ کوئی مسلم اکثریتی ملک ہوگا۔۔۔۔ پھر یکایک اپنے اندر ایک قہقہہ سنائی دیا اور میرے نفس نے مجھے میرے ہی کمرے کی تصویر ذہن کے پردے پر دکھاتے ہوئے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔
آپ سوچ سکتے ہیں میرا جواب کیا ہوگا۔
گستاخ!!!
خیر!
یوں تو ویانا جاتے ہوئےجرمنی سے گذر کر جانا زیادہ مناسب رہتا ہے کہ آپ کو تقریباً آدھے رستے پر آٹوبان (جرمنی میں موٹروے کو آٹوبان کہتے ہیں) مل جاتی ہے تو آپ 'خالی سیڈ باہر و باہر' ٹاپ گئیر پہ گاڑی نکال سکتے ہیں۔۔۔
لیکن ہم جو ٹھہرے 'خطروں کے کھلاڑی'، لہذا فیصلہ کیا کہ آٹوبان سے تو ساری دنیا جاتی ہے ہم 'الپ' پہاڑی سلسلہ کہ سنگلاخ و برف پوش پہاڑوں کو سر کرتے ہوئے ویانا جائیں گے۔
۔۔۔
سبحان اللہ
۔۔
کیا خوبصورت وادی، اور اس کے چاروں طرف برف پوش پہاڑ جن کی ایک حد پہ سڑک گذر رہی ہے جبکہ دوسری جانب کوہ پیما اپنا اسکئینگ کا سامان اٹھائے پا پیادہ یا چئیر لفٹ میں بیٹھے اوپر جا رہے ہیں۔ چلتے چلتے میں جس ٹاون میں پہنچا اسے
St Anton Am Arlberg
کہتے ہیں، یہ اصل میں دو چھوٹے چھوٹے ٹاونز ہیں جنہیں ایڈرینالین جنکیز کا مرکز بھی کہا جاسکتا ہے۔ سردیوں میں سنو بورڈنگ، سکیئنگ ، اور ٹریکنگ کے ساتھ ساتھ گرمیوں میں بھی یہاں ٹریکنگ، ہائیکنگ اور بنجی روپ جمپنگ وغیرہ کیلیے بڑی تعداد میں سیاح جمع ہوتے ہیں۔ اپنی زندگی میں اس سے زیادہ برف میں نے صرف مردہ خانے میں یا فلموں میں ہی دیکھی تھی۔ لیکن سبحان اللہ۔ ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے پہاڑوں پر چاروں طرف چاندی کے ورق لگا کر انہیں سجایا ہو۔ حیف کہ سارے رستے بارش اور ایم آرلبرگ میں ہڈیوں کو جما دینے والی سرد ہوائیں برف کی برکھا پیروں پہ لا لا کر نچھاور کرتی رہیں چناچہ ایک آدھ تصویر سے زیادہ نہیں بنا سکا۔ اور سفرِ ویانا چونکہ لمبا تھا لہٰذا چلتے رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ ایک اندر کی بات یہ بھی ہے کہ جب تک برف گٹھنوں جتنی رہے تو اچھی لگتی ہے، لیکن جیسے جیسے اونچائی پہ جائیے، برف کی مقدار گاڑی جتنی اونچی ہوتی جائے تو ایک عجیب و غریب سا احساس خدا کی ہیبت کا اعلان شروع کردیتا ہے ۔ جسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے سنا یا سمجھا نہیں جاسکتا۔
ارادہ تو ایم آرلبرگ سے اگلے شھر انزبرک یا
InnsBruck
میں رکنے کا بھی تھا اور انز برک سے آگے
Zell Am See
میں ٹھہر کر تصویر کشی اور مختصر ویڈیو بنانے کا بھی تھا۔۔۔۔
لیکن دل جلے کا شاکا ویانا پہنچ کر دارا کا انتظار کررہا تھا، ایسی صورتحال میں بغیر کوئی خطرہ مول لیتے ہوئے میں نے ملز میں استراحت کا ارادہ کیا۔
سروسز پہنچا، تو تجربات میں ایک اور خوشگوار باب کا اضافہ ہوا۔ ملز کی سروسز آج تک پچھلے دور کے یورپی سرائے کے نقوش سے مزین ہے اور یہاں جدید و قدیم کا دلچسپ امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً ویسے ہی پرانا لکڑی کا کام، کرسمس کی مناسبت سے سرائے کی تزئین و آرائش۔ خواتین روایتی ملبوسات پہنے مسافروں کو کھانا پینا فراہم کرتی نظر آتی ہیں۔ ملز پر پہنچ کر میں نے ڈیڑھ دو گھنٹہ آرام کیا اور گرما گرم کافی خرید کر ، ٹھنڈی کر کے پی۔ گاڑی میں لیٹتے ہی میری آنکھ لگ گئ تھی اور کافی جوں کی توں پڑی رہی۔
دن تیزی سے ڈھل رہا تھا اور منزل ہنوز دور تھی، کچھ ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد آنکھ کھلی تو فی الفور کافی کا ٹھنڈا کپ زہر مار کیا،
کہ
'پینا' بھی ضروری تھا،
نہ 'پینا' بھی ضروری تھا۔
اور رخت سفر باندھا۔
اسکے بعد میرا بھائی، جو آپ کا بھائی گاڑی منڈھتا ہوا آیا ہے۔۔۔
اوئے ہوئے۔۔
قلندر پروگرام!
آسٹریا میں اس حوالے سے آسانی ہے کہ حدِ رفتار نہیں ہے، صرف کہیں کہیں ٹریفک کا نظام بہتر رکھنے کیلیے سو، ایک سو بیس یا ایک سو چالیس کی حدود سکرینوں پر لکھی آجاتی ہیں۔ورنہ
اندھیری راتوں میں۔۔
سنسان راہوں پر۔۔۔
خان جی گاڑی کا گھوڑا بگٹٹ دوڑاتے ہوئے رات قریباً نو بجے ویانا پہنچ رہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ قارئین کو شاید یہ ادا پسند نا آئے کے چار گھنٹے کہ سفر کیلیے ہزار الفاظ اور چھے گھنٹے کہ سفر کیلیے فقط چند سطور، لیکن یقین مانیے کہ الپ پہاڑی سلسلہ کے دامن میں دوڑتی سواری کو اگر کہیں روکا تو وہ صرف اور صرف۔۔۔
چھوٹا دو روپے ، بڑا پانچ روپے کیلیے ۔
اس کے علاوہ ٹائم تھا نہ موقع۔ ہاں شاید ایک بار کافی خریدی تھی، لیکن خیر۔
ویانا میں داخل ہوتے ہوئے ایک بات تو بخوبی سمجھ آگئی تھی، ترک کاردشلار کی رال، ویانا پر یونہی نہیں ٹپکی تھی، صاف ستھرے بروج سے آراستہ، اور قدیم عمارتوں کے جھرمٹ میں گھنٹی بجاتی ٹرام اور ڈبل ڈیکر ٹرینوں سمیت قدیم آسٹرو ہنگری ریاست کے اس دارالحکومت میں کوئی تو ایسی خاص بات ہے کہ جو اسے دیکھ لے اس کا دیوانہ ہوجائے۔
اکثر لوگ جو برلن یا جرمنی کا کوئی شہر دیکھ کر آتے ہیں انہیں اس حوالے سے سخت ندامت ہوتی ہے کہ برلن میں سبھی کچھ نیا ہے اور تاریخی اعتبار سے برلن چاہے جتنی بھی اہمیت کا حامل ہو، آثار سے خالی ہے۔
میں ان سے یہ گذارش کروں گا کہ جرمن قوم اور اس کے ماضی کو ٹٹولنے اور پھرولنے کیلیے آپ ویانا جائیں ۔
کہ تاریخ کے اکثر اسباق میں ملنے والے حوالوں کا مشاہدہ آپ خود کر سکیں۔
ہمارے شاکا، میرا مطلب ہے بادشاہ بھائی نے رہائش کا انتظام ایک آن لائن ٹریول فورم کے ذریعے ایک آسٹریائی میزبان اسٹیفان کہ گھر پر کردیا تھا۔ گھر پہنچے تو یہ جان کر دل خوش ہوگیا کہ بھائی اسٹیفان جس فلیٹ میں رہتے ہیں اس عمارت میں لفٹ نام کی کوئی شے نہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔۔۔ لیکن اس کا آخری فلیٹ تھا چوتھے فلور پر۔
مرتا کیا نا کرتا، رینگتا رینگتا، ایک ایک سیڑھی چڑھتا جب فلیٹ میں داخل ہوا تو دل خوش ہوگیا۔
بادشاہ بھائی نے میزبان کو مشرقی، خاص طور سے پاکستانی کلچر سے روشناس کروانے کیلیے عمدہ چکن بریانی پکائی تھی، استفسار پر بتایا کہ ویانا میں ترک نژاد مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی سکونت پذیر ہے اور حلال'گونس'(گوشت) اور 'مجید' (مسجد) ڈھونڈنا کوئی بڑی بات نہیں۔
بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھایا اور خوب کھایا، کچھ موسم کا اثر تھا کچھ شاکا بھائی کی شاندار کاریگری۔ بریانی کھا کر توانائی بحال ہوگئی.
اسٹیفن سادہ مزاج لیکن گرم جوش انسان لگا۔ اس نے گھر پر دو مزید یوکرینی لڑکیوں کو بھی بیک وقت ہوسٹ کیا ہوا تھا، جن کہ خیالات کافی منفرد اور دلچسپ لگے، خود اسٹیفن سے بات کر کے معلومات میں کافی اضافہ ہوا۔ مثلاً انہوں نے بتایا کہ آسٹریا پہلی یورپی ریاست ہے جس نے مسلمانوں کو آزاد اور فیصلہ سازی کیلیے پرسنل لاء کا قیام کیا۔ یہاں تک کہ ایک وقت میں پورا یورپ اس حوالے سے حیران ہوا کرتا تھا کہ ترکی مذہب کے ماننے والوں کو کیونکر برابری کی بنیاد پر تسلیم کیا جاسکتا ہے، اسی طرح یہ بھی کہ کیسے ترک اور آسٹریائی ریاستیں ایک دوسرے کے قریب آئیں۔
وہ اور بات کہ بھائی نے اپنی انتہا کی پھیکی جگتیں سنا سنا کر حال بے حال کردیا تھا۔
خیر، باہمی دلچسپی کے امور پر مختصر تبادلہ خیال کے بعد ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کی بکواسیات پر لڑکیاں ہنسیں گی اور میری مزید سڑے گی، اس لیے بہتر بھی اور حقیقت بھی، یہی ہے کہ دن بھر کی تھکان اور سفر کی تگ و دو کے بعد اب آرام کیا جائے۔
جاری ہے ۔
تبصرہ لکھیے