ہوم << دورِ حاضر کا یہی عدلِ جہانگیری ہے- فیض اللّٰہ خان

دورِ حاضر کا یہی عدلِ جہانگیری ہے- فیض اللّٰہ خان

اس دلخراش اور مذھبی جہالت سے لتھڑی کہانی کا آغاز آج سے انتالیس سال قبل یعنی 1983 میں اسوقت ہوتا ہے جب اسے پڑھنے والے بیشتر افراد پیدا نہیں ہوئے تھے یا پھر بنشکل دو چار برس کے تھے
سندھ کے ضلع بدین کی ایک درگاہ کا گدی نشین پیر گل حسن رضائے الہی سے انتقال کر گیا ، گدی کے حصول کیلئے دو گروہ بنے ایک پیر فیض محمد کو تخت نشین دیکھنا چاھتا تھا دوسرا نہیں بات باتوں سے نکلی گالیوں اور وہاں سے گولیوں تک پہنچی اور پلک جھپکتے میں سات مجاور قبروں میں اتر گئے متعدد زخمی ہوئے
اب کھیل کا دوسرا اور شاید انسانی قتل سے بھی زیادہ سنگین مرحلہ شروع ہوا اور وہ تھا عدالتی میدان ۔۔۔
جس گروہ کے لوگ قتل ہوئے وہ پولیس تھانہ کچہری پہنچا بتیس افراد نامزد ہوئے اور ایسا عدالتی گھن چکر چلا کہ پندرہ افراد کو نچلی عدالتوں سے سزائیں سنا دی گئیں ملزموں نے سزا کیخلاف اپیل کی مگر اس سے پہلے کے اپیل پہ کچھ ہوتا ٹرائل کے دوران گیارہ ملزمان طبعی موت کا شکار ہوگئے سزا پانے کے بعد دو جیل میں انتقال کر گئے سترہ برس ٹرائل کورٹ میں پیشیاں بھگتائی جاتی رہیں اور تئیس برس پائی کورٹ کو اپیل کا فیصلہ کرنے میں لگ گئے اس دوران پولیس پراسیکیشن اور وکلاء کے گٹھ جوڑ اور رشوت نے مقدمہ کا ریکاڈ طویل پیچیدہ اور پرپیج بنادیا غیر ضروری طویل جرح تاریخیں اور تماشوں کے نتیجے میں مقدمہ فٹ بال بن گیا انتالیس برس بعد کل سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس عمر سیال نے مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے قتل کے الزام میں سات افراد کو شواہد کی روشنی میں بری کردیا (ملزمان پہلے بھی ضمانتیں کراچکے تھے ) جسٹس عمر سیال نے ملزمان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ سسٹم ہی ایسا ہے کہ آپ اور آپکے وکلاء نے طویل پیشیاں کاٹیں ساتھ انہیں دشمنی ترک کرنے اور بچوں کو تعلیم دینے کا کہا اور ملزمان کے وکیل محمود اے قریشی کی بھی تحسین کی
سوال البتہ معزز جج اور عدالتوں سے یہ ھیکہ انتالیس برس پہلے ناکردہ جرم میں مارے گئے سات انسانوں کو کون واپس لائیگا ؟ انکے بچوں کیساتھ انصاف کون کرے گا ؟ ملزمان میں جو بے گناہ تھے انکے ساتھ تو واقعی زہادتی ہوئی ہمارے معاشرے میں بدلہ لینے کے لئیے بے گناہوں اور گناہگاروں کو ایک ساتھ رگڑا دیا جاتا ہے مگر ان سات لوگوں کو کسی نے تو قتل کیا ہوگا نا اسکا کیا بنا ؟؟؟؟
پاسپورٹ کیطرح عدالتیں نچلے نمبروں میں سب سے اوپر ہیں اور دلچسپ بات یہ ھیکہ ان سارے محکموں میں لکھے پڑھے ڈگری یافتہ ہی پائے جاتے ہیں ۔
نوحہ ہے اور بےپناہ ہے ۔۔۔