کابل کی فضا ء آج ایک بار پھر سو گوار ہے۔ دہشت اور بارود نے اہل افغانستان کے دل چھیر کر رکھ دیئےہیں۔یہ کونسے گناہوں کا بار ہے جو اس وجود ناتواکو زمین میں دھونستا جا رہا ہے ۔ دو عالمی طاقتوں نے جہاں افغانستان پر اپنا زور بازو آمایا وہی خانہ جنگی اور حکمرانوں کی بے راہ روی نے اس کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے۔ اس کے بعد افغانستان کی سرزمین نے امن کی خواہش کی اور اس کو اپنا مقدر بنانا چاہا۔ جب یہ متعین ہوا کہ اب امن درکار ہے اور اسی کے قیام کی لگن دل میں جلانی ہےتو دہشت گردی کی غضب ناک لہر نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہر جمعۃ المبارک کو خون ناحق کی ہولی کھیلی جانے لگی ۔
کابل کے مغربی علاقے دشت برچی کے ایک تعلیمی درسگاہ میں آج خودکش دھماکہ ہوا ۔ خودکش نے عین اس وقت خود کو اڑایا جب سنوار مستقبل کے حامل طالب علم امتحان دینے میں مصروف تھے۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق دھماکے میں22افراد لقمہ اجل ہوئے، جس میں کثیر تعداد خواتین طلبہ کی ہے۔ ہنستے مسکراتے چہرے تھے جو ہمیشہ کے لئےمرجھا گئے۔
آج کے خودکش دھماکے سے اس بات کا امکان بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خاص طور پر لڑکیوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق خودکش نےخواتین طلبہ کے زیادہ قریب خود کو اڑایا۔ اس سے یہ امکان بھی سامنے آتا ہے کہ افغانستان میں اعلی تعلیم بالخصوص لڑکیوں کی دشمن سے برداشت نہیں اور وہ اس باب میں دہشت پھیلانے کے درپے ہیں۔
دھماکے کی خبر پھیلتے ہی سوشل میڈیا پر ایک بار پھر اس بحث نے جنم لیا کہ آخر یہ کون لوگ ہے جنہیں افغانستان کا سکھ برداشت نہیں؟ کیا یہ فرقہ واریت کی لہر کا بے ربط نتیجہ ہے ؟ کیا عالمی دہشتگردوں کی موجودگی اس کا اصل سبب ہے ؟ یہ معمہ ہے کہ حل نہیں ہو پا رہا۔ مگر یہ بات طے ہیں کہ پچھلے ایک عرصے سے کوئی ایک جمعہ بھی خون آلود ہوئے بغیر نہیں گزرا ہے۔
بااثر عراقی شیعہ عالم مقتدا الصدر کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں، انہوں نے طالبان حکومت کو کابل بم دھماکے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے افغان شیعہ اور "اعتدال پسند سنی"جو طالبان کے نظریے سے اختلاف کرتے ہیں اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے سعودی حکومت سے مداخلت کا مطالبہ بھی کیا۔
دیکھا جائے تو اس سے قبل 23ستمبر کو کابل کے قریب مسجد میں نماز کے دوران دھماکہ ہوا جس میں سات افراد شہید ہوئے۔یہ مسجد اہل سنت و الجماعت کی تھی۔ پھر رواں سال مزار شریف کی امام بارگاہ میں بھی دھماکہ ہوا۔ اس سے قبل سکھوں کے گردوارے کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ تمام حملے اس بات کو تقویت پہنچاتی ہے کہ یہ فرقہ واریت کا نتیجہ نہیں بلکہ فرقہ واریت پیدا کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ اس لئے دہشتگردی کو ایک خاص مسلک سے جوڑنا بذات خواد زیادتی ہے۔
طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے ایک سال بعدمعیشت کی ابتر صورتحال بہتر ہونا شروع ہوگئی ہے۔ پٹرولیم اور تیل مصنوعات میں روس کے ساتھ حالیہ معاہدہ، چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اور تجارت، پاکستان کی مختلف شعبہ جات میں مدد نے قدرے سہارا فراہم کیا۔ مگر اس کے باوجود اس وقت موجودہ حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج بڑھتی ہوئی دہشتگردی ہے۔ اب تک کے حالات کے مطابق وہ اس کو روکنے میں ناکام ہے۔
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے دھماکے اور انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ا نہیں دھماکے میں نوجوانوں کی جانی نقصان پر شدید دکھ پہنچا ہے۔ شہباز شریف نے ایک بیان میں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ اس بڑھتےہوئے چیلنج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کہا تھا کہ دہشت گردی نہ صرف افغانستان اور پاکستان بلکہ دنیا کے لئے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔
افغانستان میں ہونے والے متعدد پے درپے دھماکوں کی ذمہ داری داعش قبول کرتی رہی ہے۔ افغانستان میں داعش کی موجودگی نہ صرف افغانستان بلکہ ہمسایہ اور خطے کے ممالک کےلئے بھی ناسور ہے۔ اس لئے باہمی تعاون کے ذریعے اس نیٹ ورک کا راستہ روکنا ہوگا اور باہم حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ یہی بات ہے جس کی طرف وزیر اعظم پاکستان نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں دنیائے عالم کی توجہ دلائی۔
تبصرہ لکھیے