وہی ہوا جس کے بارے میں خان صاحب کا خیال تھا کہ نہیں ہو گا۔ توہین عدالت کیس میں ان کا نظرثانی شدہ موقف بھی مسترد ہو گیا اور عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ /22 ستمبر کو ان پر فرد جرم لگا دی جائے گی۔ خان صاحب نے برسر جلسہ ایک خاتون مجسٹریٹ کو ان کا نام لے کر ایکشن کرنے کی دھمکی دی تھی۔ خاتون مجسٹریٹ پر خان صاحب اس لیے برہم تھے کہ انہوں نے ان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کا دو روز کے لیے جسمانی ریمانڈ کیوں دیا تھا۔
عدالت نے جب کارروائی کی تو خان صاحب نے ا پنا موقف عدالت میں پیش کیا اور ’’اگر‘‘ کے لاحقے کے ساتھ کہا کہ موصوفہ کو رنج پہنچا ہے تو معذرت چاہتا ہوں۔ عدالت نے فراخدلی سے انہیں پیش کش کی کہ یہ بیان قابلِ قبول نہیں، اسے ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لکھیں۔ اس فراخدلی کا مطلب خان صاحب نے اپنے طور پر یہ سمجھایا ان کے لائق اور فائق وکلا نے سمجھایا کہ کچھ بھی نہیں ہو گا چنانچہ خان صاحب نے کم و بیش وہی موقف دوبارہ لکھ کر پیش کر دیا جس پر عدالت کی طرف سے برہمی آمیز ریمارکس آئے۔ اب خان صاحب پھنس گئے ہیں۔ غیر مشروط معافی مانگنا ہو گی ورنہ سزا یقینی ہے، 5 سال کے لیے نااہل ہوں گے اور جب پھر سے اہل ہوں گے تب ان کی عمر 75 یا 76 سال ہو چکی ہو گی۔ اب تک انہیں ’’جوان قیادت‘‘ کا اعزاز حاصل ہے، تب شاید یہ نہ رہے، بلکہ شاید اور بہت کچھ بھی نہ رہے۔
پیشی کے لیے عدالت آتے وقت خان صاحب کی حالت دید کے قابل تھی۔ یوں لگا جیسے سکندر دنیا فتح کرنے کے بعد گھر لوٹ رہا ہے یا دنیا فتح کرنے کے لیے گھر سے روانہ ہو رہا ہے۔ تن کے چل رہے تھے اور ٹھن کے بول رہے تھے۔ ایک سوال کسی صحافی نے پوچھا تو فرمایا، مجھے کچھ لوگ جیل بھجوانا چاہتے ہیں لیکن جیل گیا تو اور بھی خطرناک ہو جائوں گا۔ عدالت میں فضا بدلی ہوئی تھی، ماجرا ہی کچھ اور تھا۔ سخت ریمارکس نے کچھ کس بل ڈھیلے کئے اور جب فرد جرم عائد ہونے کا فیصلہ سنایاتو پیشانی سے عرق کشید ہو رہا تھا۔ باہر نکلے، حسب سابق اخبار نویسوں نے گھیر لیا۔ ایک کے بعد ایک سوال کئے لیکن خاں صاحب کو چپ لگ گئی تھی۔ یا پتہ نہیں خود ہی لگا لی تھی۔ کسی کا جواب نہیں دیا، حتیٰ کہ یہ بھی نہیں کہا کہ مزید خطرناک ہو جائوں گا۔
صرف اتنا ہی نہیں، رات ملتان کے جلسے سے خطاب کیا تو اس میں بھی بجھے بجھے نظر آئے۔ ’’خطرے ناکی‘‘ والی بات کی نہ نوجوانوں کو تیار رہنے کا حکم دیا کہ کال دینے والا ہوں۔ اب تک کے ہر جلسے میں کال دینے کا اعلان وہ تسلسل کے ساتھ کرتے رہے، ملتان میں نہیں کیا۔ایک دن پہلے چشتیاں میں بھرے ہوئے جلسے سے خطاب کیا، ملتان کا جلسہ ادھ بھرا تھا حالانکہ ملتان چشتیاں سے کہیں بڑا شہر ہے۔
جیل جا کر خطرناک ہو جانے والی بات سبھی اخبارات نے شہ سرخی بنائی۔ لیکن یہ فقرہ انہوں نے عدالت جاتے ہوئے کہا تھا جب وہ اس گمان میں تھے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ اب کچھ ہونے کا خطرہ سامنے ہے۔ کچھ لوگ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ خان صاحب غیر مشروط معافی مانگ لیں گے اور معاملہ رفع رفع ہونے کا امکان ہے۔ عدالت مناسب سی سرزنش کر کے معافی قبول کر لے گی۔ ایک صاحب نے کہا ہے کہ معافی مانگنے سے انسان کا کچھ نہیں جاتا بلکہ انسان کا قد بلند ہی ہوتا ہے‘ لیکن یہ بات تو انسانوں کیلئے ہے۔ خان صاحب دیوتا ہیں۔ دیوتا معافی نہیں مانگا کرتے۔ دیومالائی تاریخ کے ہزارہا برس میں ایک بھی دیوتا ایسا نہیں ہے جس نے معافی مانگی ہو۔ خان صاحب تو دیوتائوں کے دیوتا ہیں۔ معافی مانگی تو ان کے پیروکاروں کے سامنے بت ٹوٹ نہیں جائے گا؟
لیکن خان صاحب کے پیروکار بھی انہی کی طرح ’’ناقابل شکست‘‘ ہیں۔ معاملہ اس کروٹ ہو یا اُس کروٹ۔ چٹ اور پٹ دونوں انہی کی ہے۔ معافی کا خیال رکھنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ خان نے معافی نہ مانگ کر انہیںشہ مات دے دی اور اگر معافی مانگ لی تو کہیں گے دیکھا‘ خان نے معافی کا ٹرمپ کارڈ استعمال کرکے دشمن کے چھکے چھڑا دیئے۔ ایسا ماسٹر کارڈ کھیلا کہ دشمن کے چھکے چھوٹ گئے دیئے۔ پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔ واہ واہ کیا ماسٹر سٹروک مارا ہے۔ خان جی کے پاس ہے ہر تالے کی چابی!
پختونخوا حکومت کے سرکاری ہیلی کاپٹر کے بارے میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے کہ اس میں مختلف اوقات میں اب تک 18 سو افراد سفر کر چکے ہیں اور سب سے زیادہ سفر خود خان صاحب نے کئے ہیں۔ ہر آ دمی کے کئی کئی سفر گنے جائیں تو یہ ہیلی کاپٹر ہزاروں اڑانیں ’’پبلک ٹرانسپورٹ‘‘ کے طورپر بھر چکا ہے۔ سرکاری ہیلی کاپٹر ہے یا خان ٹرانسپورٹ کمپنی؟ خان صاحب اکثر اپنے جلسوں میں کہا کرتے ہیں کہ خدا نے ہمیں پر دیئے ہیں‘ اڑنا چاہتے ہیں پر رینگنا نہیںچاہتے۔ یہاں ’’پروں‘‘ سے مراد یہی ہیلی کاپٹر کے پنکھے کے پر ہیں۔
اکائونٹس کمیٹی نے کہا ہے کہ خان صاحب نے سرکاری ہیلی کاپٹر کا نجی استعمال کرکے 9 کروڑ روپے سے زیادہ کا سرکاری نقصان کیا ہے۔ اس لئے ان سے 9 کروڑ وصول کئے جائیں۔ توبہ کیجئے صاحب۔ خان صاحب نے کبھی دس روپے والی قلفی کے پیسے اپنی جیب سے نہیں دیئے۔ وہ 9 کروڑ کیسے دیں گے۔ درویشی آدمی ہیں۔ اس لئے اپنی جیب میں کبھی رکھا ہی نہیں۔ ممتاز عالم دین اور مذہبی سکالر مفتی منیب الرحمن نے ایک خطاب میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ایک سیاسی رہنما مذہبی امور میں مداخلت کر رہا ہے۔ اسے یہ مداخت نہیں کرنی چاہئے۔
انہوں نے ’’ایک سیاسی لیڈر‘‘ کا نام نہیں لیا‘ لیکن اشارہ واضح ہے۔ مفتی صاحب کا احترام اپنی جگہ‘ لیکن ان کا الزام غلط ہے۔ اس لئے کہ مذکورہ لیڈر کسی کے مذہب میں مداخلت نہیں کر رہے۔ وہ تو بذات خود ’’انا الحق‘‘ بن چکے۔ بار بار فرما چکے کے حق و باطل کا فیصلہ میں کرتا ہوں۔ جو میرا ساتھ نہیں دے گا‘ باطل پر ہوگا اورخدا کی نافرمانی کرے گا۔ قبر اور حشر میں میرا ساتھ دینے نہ دینے کے بارے میں سوال ہوگا اور جو میری مخالفت کرے گا‘ وہ شرک کا مرتکب ہوگا۔ ایک ’’انا لحق‘‘ پر کسی مذہب میں مداخلت کا الزام پس ثابت ہوا کہ سراسر غلط ہے۔
تبصرہ لکھیے