آپ وہ قصہ تو پڑھ ہی چکے کہ مجھے بی بی سی میں نوکری کی کتنی چاہ تھی اور کیسے ہر بار مسترد ہوتا رہا۔اب پڑھیے کہ وائس آف امریکا اردو کی نوکری لیتے لیتے مجھ پر کیا بیتی۔بی بی سی کے علاوہ میں جن اداروں میں نوکری کرنا چاہتا تھا وہ تھے، سی این این، الجزیرہ، اور وائس آف امریکا۔
اول الذکر دو ادارے تو اپنی پہنچ سے بہت اوپر کی چیز معلوم ہوتے تھے ۔ وائس آف امریکا کی بھی بس اردو سروس ہی وہ محکمہ تھا جہاں مجھے نوکری ملنے کا تھوڑا بہت امکان تھا۔اس وقت تک اردو ٹیلے وژن چینلز پر وہ دور آ چکا تھا کہ ہر معمولی سی خبر کو بریکنگ نیوز بنا کر پیش کیا جاتا۔ ایسے میں بی بی سی، سی این این، الجزیرہ کی باوقار اسکرینز دیکھتا تو ان چینلز میں نوکری کرنے کی خواہش مزید شدت پکڑ جاتی۔
اس وقت جتنا امریکا فلموں،خبروں، یا دستاویزی فلموں میں دیکھا تھا وہ بہت ہی اچھا لگتا تھا۔ واشنگٹن ڈی سی کے مناظر جب جب ٹیلے وژن اسکرین پر دکھائے جاتے، بہت انہماک سے دیکھا کرتا۔ یہ بات خاص طور پر نوٹ کرتا کہ وہاں کی سڑکیں کیسی صاف ہیں، ہر سڑک کے کنارے پیدل چلنے والوں کے لیے جگہ بنائی گئی ہے۔ پھر سڑک اور مکانات کے درمیان کئی کئی فٹ جگہ ہے جہاں گھاس اگائی گئی ہے، درخت لگائے گئے ہیں۔ یہ سب دیکھتا تو بس امریکا جا کر بس جانے کی خواہش انگڑانے لگتی۔
جیسے بی بی سی کی ہر نوکری بی بی سی کیریئرز نامی ویب سائٹ پر آویزاں کی جاتی ہے، ایسے ہی وائس آف امریکا اردو کی نوکریاں براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کی ویب سائٹ پر مشتہر کی جاتیں۔ میں گاہے اس ویب سائٹ کا دورہ کرتا، کوئی متعلقہ نوکری نظر آتی تو درخواست ڈال دیتا۔ہوتا اس درخواست کےساتھ بھی وہی تھا جو بی بی سی کی درخواستوں کےساتھ ہوا کرتا۔یعنی درخواست دینے کی آخری تاریخ گزرتی۔ اس کے ایک ہفتے بعد ای میل آ جاتی جس میں لکھا ہوتا، ہم معذرت خواہ ہیں کہ ایک روز میں ٹیلے وژن چینل میں رات کی ڈیوٹی کے بعد سو رہا تھا کہ کسی کا فون آیا۔ وہ فون اٹھایا، بات کی، فون بند کیا۔۔ اب سونے کی کوشش کرتا ہوں تو نیند اڑ چکی ہے۔جو لوگ بھی رات کی ڈیوٹی کرتے ہیں.
وہ واقف ہوں گے کہ دن میں ایک بار آنکھ کھل جائے تو پھر نیند آنے کا نام نہیں لیتی۔ کروٹیں بدلتے بدلتے رات کو پھر ڈیوٹی پر جانے کا وقت ہو جاتا ہے۔ تب جسم ٹوٹ رہا ہوتا ہے، آنکھیں نیند سے بوجھل ہوتی ہیں لیکن ڈیوٹی پر جانا ہی پڑتا ہے۔اس روز میں نیند نہ آنےپر میں شدید کوفت میں تھا، کہ ایسے ہی وقت گزاری کو لیپ ٹاپ آن کیا۔ غیر ارادی طور پر براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کی ویب سائٹ کھولی۔ وہاں وائس آف امریکا اردو کی ایک نوکری کا اشتہار آیا ہوا تھا۔اس وقت یوں لگا، جیسے یہ سب کچھ ہونا محض اتفاق نہ تھا۔
بلکہ قدرت مجھے اس راستے پر لے کر جا رہی تھی جہاں مجھے اپنی مطلوبہ نوکری مل جانی تھی۔مجھے یوں لگا کہ اس روز وہ فون آیا ہی اس لیے تھا کہ میری نیند اچاٹ ہو، میں وہ ویب سائٹ کھولوں اور وی او اے اردو کی نوکری دیکھوں۔ لگا کہ وہ نوکری میرے نصیب میں لکھ دی گئی ہے اور دیگر واقعات بس اسے ممکن بنانے کےلیے ہو رہےہیں۔میں نے اپنا سی وی نکھار کر ترو تازہ کیا، اور نوکری کےلیے درخواست دے دی۔مقررہ وقت گزرنے کے بعد پہلا ہفتہ بہت مشکل سے گزرا۔(جب نوکری کی درخواست کےلیے مقررہ مدت گزر جاتی، تو اس کے بعد ایک ہفتے کے اندر اندر وہ ای میل آ جایا کرتی جس میں مجھے نوکری دینے سے معذرت کی گئی ہوتی)
ہر وقت یہی دھڑکا رہا کہ کہیں مسترد کیے جانے کی ای میل نہ آجائے۔جب پہلا ہفتہ گزرنے کے بعد بھی ایسی کوئی ای میل نہ آئی تو اپنے ہی یقین پر مہر لگ گئی کہ وہ نوکری تو اپنے لیے لکھ دی گئی ہے، تب ہی تو اس روز فون آیا تھا، تب ہی تو میری نیند اڑی تھی،تب ہی تو میں نے وقت گزارنے کو ویب سائٹ کھولی تھی، وہاں نوکری کا اشتہار دیکھا تھا اور اپلائی کر دیا تھا۔اس کے بعد سے میرا جسم تو لاہور میں رہا، لیکن میری روح واشنگٹن ڈی سی پہنچ گئی تھی۔ کبھی مجھے لگتا کہ وائٹ ہاؤس کے باہر کھڑا ہوں اور جنگلے کے اس طرف قید قصر صدارت کو دیکھ رہا ہوں۔ کبھی لگتا سڑک کنارے فٹ پاتھ پر ٹہلتے کسی امریکی کو دیکھ کر مسکرا رہا ہوں اور اس کے ہاتھ میں جس کتے کی زنجیر ہے اسے دیکھ کر کہہ رہاہوں، نائس ڈاگ۔کبھی لگتا انڈر گراؤنڈ ٹرین اسٹیشن سےنکلنے کے بعد تیز تیز قدم اٹھاتا وائس آف امریکا اردو کے دفتر میں جا رہا ہوں۔ کبھی خود کو کسی اسٹار بکس میں بھاپ اڑاتی کافی سامنے رکھے، قہقہوں کی جلترنگ سنتے ہوئے پاتا۔
یعنی میں اپنے شب و روز گزار تو لاہور میں رہا تھا، لیکن ذہنی طور پر امریکا پہنچا ہوا تھا۔روز نوکری پر جانا، وہاں خبروں سے جھوجھنا۔۔۔لگنے لگا کہ بس اب یہ چند دنوں کی بات رہ گئی ہے۔ پھر وی او اے اردو میں میری نوکری کا پروانہ آ جائے گا اور میں اڑان بھر لوں گا۔ کئی انتہائی ضروری چیزوں کی خریداری بھی منسوخ کر دی کہ اب یہاں سے چلے ہی جانا ہے تو خواہ مخواہ بوجھ بڑھانےکا کیا فائدہ۔ یہ ضروری چیز امریکا جا کر لے لیں گے، سنا ہے وہاں کا مال پائیدار ہوتا ہے۔میرے ساتھی جن مسائل سے نبردآزما تھے، جو خود میرے بھی مسائل تھے۔۔۔جب ان پر بات ہوتی تو میں خاموش رہتا اور بس ہنس دیتا۔ انہیں کیسے بتاتا کہ میرے لیے تو یہ مسائل بس چند روزہ ہی رہ گئے ہیں۔ پھر میں تو اس دنیا کا باسی ہو جاؤں گا جہاں ایسے معمولی سے مسائل ہوتے ہی نہیں ہیں۔
صاحبان! وقت گزرتا جا رہا تھا اور وی او اے اردو کی کوئی ای میل نہیں آ رہی تھی۔ میں اس تاخیر سے بھی کہانیاں بنتا۔ اب وہ دیگر درخواست گزاروں کو مسترد کیے جانے کی ای میل بھیج رہے ہوں گے۔ اب وہ غور کررہےہوں گے کہ عمیر محمود صاحب کی تنخواہ کتنی مقرر کرنی ہے۔ اب انہیں لاہور سے واشنگٹن ڈی سی بلانے کےلیے انتظامی معاملات پر بات ہو رہی ہو گی۔ گزرتا وقت میرے یقین کو پختہ کرتا جا رہا تھا۔
اور پھر ایک روز وہ ای میل آ گئی۔ پہلے وہ گھنٹی سی بجی جو بتاتی ہے کہ ان باکس میں کسی کا خط آیا ہے۔ دیکھا تو وائس آف امریکا کی چٹھی تھی۔ بے تابی سے کھولی، لکھا تھا۔۔ہم معذرت خواہ ہیں کہ آپ ہمارے مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترے۔ پیارو! بہت بار مسترد ہوا ہوں۔۔لیکن جیسا دل اس روز ٹوٹا تھا نا، پھر کبھی نہ ٹوٹا۔
تبصرہ لکھیے