ایک بادشاہ کی رعایا اپنے ذاتی مفادات کے حصول کیلئے اتنا مشغول اور مصروف ہو گئی کہ انہیں حلال و حرام نیک و بد، اچھے و برے غرض ایک دوسرے کے حالات کی کچھ خبر نہ رھی ۔بادشاہ کو تعجب ہوا توبادشاہ سلامت خود ان کی حالت زار معلوم کرنے کیلئے ریاست میں تشریف لے گئے تو عوام اتنا مصروف تھے کہ انہیں اس بات کا بھی پتہ نہ چلا کہ جہاں پناہ ان کے پاس موجود ہیں ۔یہ سب دیکھ کر بادشاہ کے مشیر کو بے حد غصہ آیا تو مشیر نے بادشاہ کو اپنی رعایا کو احساس دلانے کیلئے کوئی ترکیب کرنے کا مشورہ دیا۔
بادشاہ نے دیکھا کہ ایک دریا کے کنارے بہت لوگ جمع ہیں اور وہ کشتیوں کی مدد سے دریا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف آ جا رہے ہیں۔ بادشاہ نے اپنے مشیر کو حکم جاری کیا کہ کشتیوں کی تعداد کم کر دی جائے تو ھو سکتا ہے کہ وہ اس مشکل کے حل کیلئے بادشاہ کے دربار میں پیش ہوں ۔کافی عرصہ گزر گیا مگر کوئی بھی شکایت لے کر بادشاہ کے دربار میں پیش نہ ہوا بادشاہ کو غصہ آ یا تو اس نے حکم جاری کیا کہ کشتی پر آنے جانے والوں پربھاری ٹیکس لگا دیا جائے تو ممکن ہے رعایا بادشاہ کے دربار میں شکایت لے کر حاضر ھو ۔کافی عرصہ گزر جانے کے بعد جب پھر بھی کوئی نہ آیا تو بادشاہ آگ بگولا ہو گیا اور فرمان جاری کیا کہ دریا کے دونوں طرف ایک ایک اہلکار تعینات کیا جائے جو آنے جانے والوں کی چھترول کرتا رھے۔ کچھ وقت گزرا تو بادشاہ سلامت کے دربار میں کچھ فریادی حاضر ہوئے۔بادشاہ خوش ہو گیا اور ان سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ چھترول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے کیونکہ چھترول کھانے کیلئے لوگوں کا ھجوم لگ جاتا ھے اوراس طرح سے ان کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔
یہ کہانی موجودہ دورکی بھر پور عکاسی کرتی ہے لوگ اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں ارد گرد کی کوئی پروا نہیں ۔اب آس پاس میں کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو لوگ سرسری طور پر حال پوچھتے ہیں اس کے بعد یہ حادثہ ایک چھوٹی سی خبر کی صورت اختیار کر لیتا ہے جس کو لوگ ان سنی کر دیتے ہیں۔ اب اگر کوئی بڑا حادثہ رونما ہوتا ہے تو لوگ اس حادثے میں خود کو مدد کے طور پر پیش کرنے کے بجائے کیمرہ چلا کر ان کی ویڈیوز اور تصاویر بناتے نظر آتے ہیں۔ بیشتر کے پاس تو اتنا بھی وقت نہیں ہوتا کہ وہ رک کر حادثے کی نوعیت کو جان سکیں۔ ایک شاعر فرماتے ہیں۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
مذہبی،تعلیمی ،سماجی،کاروباری غرض جس سطح پر جس زاویے سے دیکھ لیجئے بے حسی ہی منڈلا رہی ہے ۔مذہب تو لوگوں کی فلاح کیلئے اترا تھا مگر یہاں بھی مختلف مکتبہ فکر کے لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خاطر دوسرے کے نقطہ نظر کو غلط کہتے ہیں۔ آپ صحت کی بات کر لیجئے ڈاکٹر مسیحا تھے مگر ڈاکٹروں میں بھی وہ مسیحائی نہ رھی ۔استاد معاشرے میں عظمت کی علامت تھا مگر استاد بھی کاروباری سوچ کے حامل ہوتے جا رہے ہیں۔ہمارے سامنے کوئی بھی حادثہ ہو جائے تو ہم اس کی خبر گیری کیئے بغیر کندھے اچکائے ہوئے گزر جاتے ہیں مگر جب اپنے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ جائے تو ہم لوگوں کی بے مروتی کا رونا روتے نہیں تھکتے جبکہ ہم خود بھی تو بے حسی و بے مروتی کی حدیں پار کر چکے ہوتے ہیں ۔ارد گرد کے غریب لوگوں کی ،بیماروں کی، بوڑھے ونادار لوگوں کی ہمیں کوئی پرواہ تک نہیں ہوتی۔
حدیث قدسی میں حضرت ابو ھریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا اللہ پاک قیامت کے دن فرمائے گا اے ابنِ آدم میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہیں کی وہ کہے گا اے پروردگار میں تیری عیادت کیسے کرتا تو تو رب العالمین ہے اللہ فرمائے گا توں نہیں جانتا میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا‘اے ابنِ آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا وہ کہے گا اے میرے پروردگار تو تو رب العالمین ہے میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا اللہ فرمائے گا فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا‘ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو تو مجھ کو اس کے پاس پاتا پھر اللہ کہے گا اے ابنِ آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا وہ کہے گا اے پروردگار میں تجھے پانی کیسے پلاتا تو اللہ فرمائے گا فلاں شخص نے تجھ سے پانی مانگا تھا اگر تو اس کو پانی پلاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔
اس حدیث قدسی سے انسان کی عظمت ظاہر ہوتی ہے مگر آج کے دور کا جدید انسان عظمت انسان کا قائل ہی نہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زندہ انسا ن کی کوئی قدر نہیں کرتا وہ بیمار ہو جائے تو کوئی عیادت نہیں کرتا نہ بیمار کی کوئی مناسب دیکھ بھال کی جاتی ھے۔مگر وھی انسان اگر فوت ہو جائے تو لوگ اس کی جھوٹی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ لوگ اب مل جل کر نہیں بیٹھتے ایک دوسرے کا حال چال نہیں پوچھتے‘ایک دوسرے کا دکھ سکھ نہیں بانٹتے ایک بستی‘ بلکہ ایک ہی گھر میں رہنے والے لوگ بھی ایک دوسرے کے دکھ سے نا آشنا ہیں۔اگر اس بے حسی اور سماجی دوری کو ختم نہ کیا گیا تو ھر کوئی تنہا ہوتا جائے اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو کر بیمار ہوجائے گا ۔
اب انسان کی تعظیم کو یقینی بنا کر بیمار پرسی،میل جول اور باھمی ربط کو پروان چڑھانا ہو گا ورنہ وہ بے حسی و بے مروتی جنم لے گی کہ دفنانے کیلئے بھی چار کندھوں کا سہارا ممکن نہ ھو سکے گا۔نفرتیں،عداوتیں،بغض،حسد ختم کر ڈالیئے میل جول کے صحت مند نظام کو پھر بحال کیجئے ،وہ چوپال، وہ سردیوں میں آگ جلا کر مل بیٹھنا، وہ قصہ گو دور کو پھر بحال کیجئے ،یقین کیجئے زندگی پھر سے لوٹ آئے گی اور اردگرد صحت مند اور خوش نما ماحول پیدا ھوتا جائے گا جس سے غم کی بیمار فضا میں کمی ممکن ھو سکے گی۔
آدم کی کسی روپ میں تحقیر نہ کرنا
پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کر
تبصرہ لکھیے