الیکشن کسی بھی سطح پر ہو، یہ کسی سوسائٹی کا ہو، کسی تنظیم کا، بلدیاتی الیکشن، یا عام انتخابات ہوں۔ ہر جگہ ہر موقع پر وفاداریاں بدلی جاتی ہیں، کہیں مفادات کے لیے دھوکہ دیا جاتا ہے، کہیں کوئی مالی فائدہ دیا جاتا ہے۔ کہیں کوئی اور لالچ دیا جاتا ہے اور یوں بڑھتے بڑھتے یہ سلسلہ صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ تک بھی پہنچتا ہے۔
یہ طے ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے کسی بھی سطح پر ووٹرز کے جذبات کا خیال نہیں رکھتے بلکہ ذاتی فائدے کو دیکھتے ہوئے وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ایسا صرف قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہر جگہ یہ ہوتا ہے۔ ہر سطح پر وفاداریاں تبدیل ہوتی ہیں۔ ہم بدقسمت ہیں کہ اللہ نے ہم سے وعدہ نبھانے کی طاقت واپس لے لی ہے، ہم ایسے بدقسمت ہیں کہ اللہ نے ہم سے اعلیٰ اخلاق کی خوبی واپس لے لی ہے، ہم اتنے بدقسمت ہیں کہ اللہ نے ہم سے وفاداری کی خوبی واپس لے لی ہے۔ دنیاوی لحاظ سے آپ جتنا مرضی ان چیزوں کو الٹ پلٹ کر کے دیکھیں، ہر زاویے سے جائزہ لیں، ہر پہلو پر غور کریں، کسی کو الزام دیں، کسی کو طاقت اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام دیں، کسی کی مجبوری کو عذر بنائیں، کسی کو لالچی قرار دیں یہ تمام باتیں اپنی جگہ درست ہوں لیکن سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ خوبیاں واپس لے لی ہیں اور یہ ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والے دباؤ میں آئیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا امتی ہو، ایمان رکھتا ہو کہ روز محشر اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، یہ ہو نہیں سکتا کہ قرآن پڑھنے والے کو یہ اندازہ نہ ہو وعدے کے بارے سوال ہونا ہے، یہ ہو نہیں سکتا کہ قرآن پڑھنے والا نہ جانتا ہو کہ جھوٹ بولنے والے کے بارے اللہ کا حکم کیا ہے، یہ ہو نہیں سکتا کہ رشوت لینے کے بارے تاجدارِ انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کیا فرمایا تھا۔ اس لیے ہمیں دوسروں کو الزام دینے کے بجائے خود پر نظر دوڑانی چاہیے ہم میں سے ہر کوئی وہ تمام برائیاں کرتا ہے جو ہمارے حکمران کرتے ہیں اگر ہم انہیں ٹھیک دیکھنا چاہتے ہیں تو خود کو ٹھیک کریں اور یہ معیشت معیشت کی گردان کرنے والوں کو چاہیے کہ اخلاقی ایمرجنسی نافذ کریں ملک کو معاشی نہیں اخلاقی ایمرجنسی کی ضرورت ہے۔ معیشت چلانے والے اخلاقی طور پر مضبوط ہوں گے، ٹیکس دینے والوں کو جب یہ احساس ہو گا کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور وہاں جواب دینا پڑے گا کہ کتنا سچ بولا پھر انسان کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا۔ اس لیے سب سے پہلے لوگوں کو اخلاقی طور پر مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ سیاسی قیادت اس کی اہل دکھائی نہیں دیتی کیونکہ یہ سب دل کھول کر جھوٹ بولتے ہیں، عوام کو اندھیرے میں رکھتے ہیں، وعدہ خلافی کرتے ہیں، اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ یہ کیسے عوام کی اخلاقی تربیت کر سکتے ہیں۔
اب پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب ہونا ہے۔ وہی کچھ ہو رہا ہے جو ہمیشہ سے پاکستان کی سیاست میں ہوتا آیا ہے جو اقتدار کا حصہ بنتا ہے پھر اس کا واپس جانے کا دل نہیں کرتا۔ چند ہفتے گذرے ہیں اقتدار بچانے کے لیے جو حربے پاکستان تحریکِ انصاف نے اختیار کیے ہیں ان سے بڑھ کر کام اب ن لیگ والے اور ان کے سیاسی دوست کریں گے۔ یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھے گا۔ ووٹرز بھی ذہنی طور پر اتنے ہی باشعور ہیں کہ وہ اپنے سیاسی قائد کی ہر بات کو حرف آخر سمجھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کے سربراہان سچ نہیں بولتے تو ووٹرز بھی نہ تو سچ بولتے ہیں نہ سچ سننا چاہتے ہیں۔ جو سچ بولتا ہے اسے پاگل کہا جاتا ہے یا پھر اسے نامناسب شخص قرار دے کر دور کر دیا جاتا ہے۔ اب جو کچھ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے پہلے یا اس دن ہو گا یہی مجموعی طور پر ہماری اخلاقی کیفیت ہے اور ہم چلے ہیں دنیا کی قیادت کرنے اور ملک کو عظیم تر بنانے۔ ایسے نہ تو مسائل حل ہوں گے نہ سمت کا تعین ہو گا نہ منزل کی طرف بڑھیں گے جیسے عظیم شاعر منیر نیازی مرحوم نے کہا تھا
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
بس ہماری حرکتیں سب کو نظر آ رہی ہیں اور سفر کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ جو آج جمہوری رویوں پر عمل کرنے کے بیانات دے رہے ہیں کیا انہوں نے خود جمہوری رویہ اختیار کیا تھا اگر نہیں کیا تو یہ کیسے ممکن ہے جو انہوں نے خود نہیں کیا کوئی ان کے ساتھ کرے۔ تیار رہیں اور قوم کو جمہوریت کے نام پر دل کھول کر بے وقوف بنائیں۔ قوم بھی یہی چاہتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی پنجاب الیاس چنیوٹی کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کی طرف سے دس کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی۔ میں حج سے آیا ہوں حمزہ شہباز کی کامیابی کے لیے بھی دعا کی۔ سعودی عرب میں بھی رابطے کی کوشش کی گئی، ہوائی اڈے پر اترا تب بھی مجھے کالز آ رہی تھیں۔
سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپنی ہی جماعت کے رکن پنجاب اسمبلی مسعود مجید پر چالیس کروڑ روپے لیکر بیرون ملک جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضمنی انتخابات میں ن لیگ اور ان کے بارہ اتحادیوں کی شکست فاش ہوئی۔ پنجاب کے عوام کا فیصلہ ہے کہ تخت لاہور تحریک انصاف کا حق ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے تین ارکان پنجاب اسمبلی نے صوبائی وزیرداخلہ عطا تارڑ پر فون کالز کے ذریعے پیسوں کی پیشکش کا الزام لگایا ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا فیصلہ ہونا ہے۔ ان حالات میں وزیر اعلیٰ کوئی بھی بنے ملک کے بنیادی مسائل پر کوئی کام نہیں ہو گا۔ سب اپنے اپنے کاموں میں لگے رہیں گے۔ دہائیوں کی سیاست کے بعد بھی نہ بدلے تھے نہ بدلے ہیں اور نہ ہی بدلنے کے امکانات ہیں۔
تبصرہ لکھیے