ہوم << اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پورکا علمی پس منظر - اسد اللہ غالب

اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پورکا علمی پس منظر - اسد اللہ غالب

خطہ بہاول پور صدیوں سے علم و تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ تاریخی قصبہ اُوچ شریف دینی تعلیمی اِداروں کا گہوارہ رہا اور مشرق وسطی اور سینٹرل ایشیا ء سے آنے والے تشنگانِ علم کی روحانی آبیاری کرتا رہا۔ سابق ریاست بہاولپور کے نوابین نے ریاست کو علوم و فنون کا مرکز بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بہاولپور کے شہروں اور قصبوں میں جا بجا جامعات، کالجز، سکولز، پولی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ اور دیگر تعلیمی اِدارے نظر آتے ہیں۔

ریاست بہاولپور نے جامعہ پنجاب، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ندوۃ العلما ء اعظم گڑھ، طبیہ کالج دہلی، اسلامیہ کالج پشاور، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کی مالی امداد اور معاونت کی۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور، صادق ایجر ٹن کا لج، صادق پبلک سکول اور صادق ڈین ہائی سکول سمیت درجنوں اِدارے اس بات کا ثبوت ہیں کہ والیانِ ریاست بہاولپور کی تعلیمی ترقی کے لیے بہت سنجیدہ تھے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی بنیاد 1879 ء میں مدرسہ صدر دینیات کے طور پر رکھی گئی۔ نواب آف بہاولپور ایک ایسی جامعہ کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے جو مصر کی جامعہ الازہر کی طرح دینی اور دنیاوی علوم کا مرکز ہو۔

1925 ء میں جامعہ عباسیہ کی بنیاد رکھی گئی اور 1963ء میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے جامعہ کا خصوصی دورہ کیا اور مستقبل کا پلان مرتب کرتے ہوئے اسے جامعہ اسلامیہ کا نام دیا۔ 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پنجاب اسمبلی کے ایک خصوصی ایکٹ کے ذریعے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ایک چارٹرڈ یونیورسٹی قرار پائی۔ جولائی 2019 ء میں حکومت نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی بطور رئیس الجامعہ ذمہ داری نامور منتظم، سائنسدان اور ماہر تعلیم انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کو تفویض کی۔ پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب پہلے ہی جنوبی پنجاب کے آخری ضلع رحیم یار خان میں صرف 3برس کے قلیل عرصہ میں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئر نگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی قائم کر کے اپنی صلا حیتوں کا لوہا منوا چکے تھے۔

جامعہ اسلامیہ بہاول پور کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد صرف 3برس کے عرصہ میں انہوں نے جنوبی پنجاب کی اس تاریخی اہمیت کی حامل یونیورسٹی کو اس کے بانیان کے وژن کے مطا بق دنیا کی پہلی ایک ہزار یونیورسٹیوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جس طرح ڈاکٹر اطہر محبوب نے جامعہ کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے یہ نا قابل یقین عزم کیا تھا کہ اسے دنیا کی پہلی 100جامعات میں شامل کرائیں گے وہ واضح طور پر اب حقیقت میں بدلتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے دور میں یونیورسٹی کا نیا وژن ترتیب دیا گیا کہ اس یونیورسٹی کو ورلڈ کلاس تعلیمی وتحقیقی اِدارہ بناتے ہوئے علاقے کی سماجی اور معاشی ترقی کا انجن بنانا ہے اور مشن قرار پایا کہ اعلیٰ معیا رکی تدریس و تحقیق کے ذریعے سے سماجی اور معاشی لیڈر شپ کے خواص سے بھر پور افرادی قوت پیدا کرنا ہے جو دیر پا ترقی اور جدت سے کمیونٹی کی خدمات سر انجام دے سکے۔پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے یونیورسٹی کی بنیا دی اقدار بھی وضع کیں جو برداشت ، ایماندار، ماحول دوست ، اور مفید ہیں۔

اگر بغور جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے گزشتہ 3برسوں میں اپنی اِن اقدار پر عمل کرتے ہوئے غیر معمولی ترقی کی ہے۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پورجامعات کی قومی اور عالمی درجہ بندی میں نمایاں پوزیشن پر آ چکی ہے۔ ٹائمز ہائر ایجوکیشن IU-Green Matrixاور سمیائیگو رینکنگ کے مطابق مختلف کیٹیگریز میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور نے غیر معمولی ترقی کی ہے۔ خاص طور پر ہائر ایجوکیشن رینکنگ میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پورایشیا ء کی پہلی 500اور دنیا کی پہلی 1000جامعات میں شامل ہو چکی ہے۔ جو لائی 2019 ء میں طلباء و طالبات کی تعداد 13500کے لگ بھگ تھی جو اب بڑھ کر 57000سے زیادہ ہو گئی ہے۔ یہ سب بہترین داخلہ پالیسی اور آن لائن ایڈمیشن پورٹل کی بدولت ممکن ہوا۔ یونیورسٹی میں ایڈ میشن ڈائریکٹو ریٹ بنایا گیا اور میرٹ پر مبنی داخلہ پالیسی اور سہل داخلہ طریقہ کار کے ذریعے ہزاروں کی تعداد میں داخلوں کو یقینی بنایا گیا۔اس وقت 85%طلبا ء و طالبات انڈر گریجویٹ اور 15%گریجویٹ سطح پر زیر تعلیم ہیں اور 60%طلباء میل اور 40%فی میل ہیں۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں اس وقت 74%طلباء و طالبات کا تعلق بہاولپور ڈویژن، 20%جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع اور 6%کا تعلق ملک کے دیگر علاقوں سے ہے جن میں شمالی اور وسطی پنجاب، گلگت بلتستان، خیبر پختونخواہ، بلوچستان، آزاد کشمیر اور سندھ شامل ہے۔ یونیورسٹی میں اس وقت کل وقتی فیکلٹی کی تعداد 1200سے زائد ہے جوجولائی 2019 ء میں 450تھی،اِن میں 700سے زائد پی ایچ ڈی کے حامل ہیں۔ آئندہ چند ماہ میں کل وقتی اساتذہ کی تعداد 1500ہو جائے گی اور ان میں 1000پی ایچ ڈی کے حامل ہوں گے۔ اساتذہ کی مناسب اور بڑھتی ہوئی تعداد تعلیمی عمل کے معیار اور طلباء کی بہترین تربیت سازی کی ضامن ہو گی۔ اس کے علاوہ 1000سے زائد جزوقتی فیکلٹی، 500کے قریب افسران اور 3000کے قریب نان ٹیچنگ سٹاف خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

وائس چانسلر کا اہم اقدام ٹیچنگ اور ریسر چ اسسٹینس کی سینکڑوں آسامیوں پر ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کی تعیناتی ہے۔ ان کی مدد سے تدریسی اور تحقیقی سرگرمیوں کے لئے یونیورسٹی کے اندر ہی افرادی قوت میسر آئی اور ریسرچ سکالرز کو عارضی طور پر متعلقہ شعبوں میں روزگار بھی میسر آیا ہے۔ اسی طرح ایسوسی ایٹ لیکچررز کی شکل میں سینکڑوں آسا میوں پر ایم فل نوجوانوں کی تقرریاں ہوئیں جن میں سے اکثریت اِس وقت لیکچرار تعینات ہو چکے ہیںاور ملک و قوم کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ۔