پاکستان تحریکِ انصاف میں سابق وزیراعظم اور جماعت کے چیئرمین عمران خان کا نقطہ نظر تو یہی ہے کہ موجودہ اسمبلیوں میں واپس نہیں جانا چاہیے، کسی صورت اسمبلی کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور اسمبلی سے باہر رہ کر ہی موجودہ حکومت کے خلاف اپنے ووٹرز کو متحرک کرنا چاہیے.
لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایک سو اکتیس اراکین قومی اسمبلی میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو دوبارہ قومی اسمبلی کا حصہ نہیں بننا چاہتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک سو اکتیس میں ایک سو انتیس اراکین دوبارہ قومی اسمبلی کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف میں اس سوچ کے حمایتی زیادہ ہیں اکثریت یہ بھی سمجھتی ہے کہ جلد بازی یا جذباتی انداز میں قومی اسمبلی سے استعفوں کا فیصلہ غلط تھا اور اس اجتماعی غلطی کے ازالے کے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ دوبارہ پارلیمنٹ جانے کا ہے۔ اس حوالے سے اندرونی طور پر بات چیت ہو رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ قومی اسمبلی سے باہر رہ کر متحدہ حکومت کے لئے میدان خالی چھوڑنا عقلمندی ہرگز نہیں ہے۔ اگر اپوزیشن بھی کرنی ہے تو اس کیلئے بھی سب سے بہتر اور موثر فورم قومی اسمبلی ہے۔ عوامی سیاست اپنی جگہ ہے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو متحرک رکھنے کیلئے احتجاجی سیاست بھی ساتھ ساتھ کی جائے تو مضائقہ نہیں لیکن صرف احتجاجی سیاست پر توجہ دے کر پارلیمنٹ سے دوری اختیار کرنا کسی صورت فائدے کا سودا نہیں ہے۔ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے اور ہم جتنا اسمبلی سے دور رہیں گے عوامی سیاست میں بھی اس سے نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی میں بات چیت ہو رہی ہے اور باخبر دوست یہ بھی بتاتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو قائل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ عمران خان کو بھی احساس ہو رہا ہے کہ وہ سیاست دان جن کے خلاف وہ عوام کو متحرک کر رہے ہیں ان کے لئے قومی اسمبلی کو خالی چھوڑنے کا نقصان ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے فیصلے کا ازسر نو جائزہ لے رہے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں عوام کو ایک اور یو ٹرن دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ اس صورت حال میں ایک اہم نقطہ نظر ثانی کے حوالے سے ہے۔ عمران خان کو قائل کرنا مشکل کام ہے لیکن اگر وہ قائل ہوتے ہیں تو اس سے پاکستان تحریکِ انصاف کو یہ فائدہ ضرور ہو سکتا ہے کہ پارٹی چیئرمین سے مستقبل میں اہم فیصلوں کے حوالے مشاورت کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ یقیناً اہم فیصلوں کے معاملے پر پاکستان تحریکِ انصاف میں مشاورت کا نہ ہونا بڑا مسئلہ تھا۔ اگر پی ٹی آئی میں یہ عمل شروع ہوتا ہے اور اسے ہر سطح پر شروع کرنے کے بعد اس عمل کو جاری رکھا جاتا ہے تو یہ ملکی سیاست میں اچھا اضافہ ہو سکتا ہے۔
یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ عمران خان کو احساس ہو رہا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہ کی اور قومی اسمبلی میں واپسی کا فیصلہ نہ کیا تو راجہ ریاض کے ساتھیوں میں اضافہ ممکن ہے۔ یعنی چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف اس حوالے سے بھی بہت اچھی اور مضبوط پوزیشن میں نہیں ہیں ان کے لیے ہر طرف مشکلات ہیں۔ سیاسی پرندوں کی ممکنہ اڑان انہیں اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ جب یہ صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ لوگ واپس جا سکتے ہیں یا واپس نہیں جاتے اور راجہ ریاض کے ساتھ ہی کھڑے ہو جاتے ہیں تو پاکستان تحریکِ انصاف کے جذباتی کارکنان یہ کہیں گے کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا سب "خان" کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
ایسے جذباتی کارکنوں کے لیے پیغام ہے کہ ذرا سوچیں جو جماعت حکومت میں ہوتے ہوئے متحد نہیں رہ سکی یا اپنے لوگوں کو اپوزیشن کے ساتھ ملنے سے نہیں روک سکی اس کے اراکینِ قومی اسمبلی کتنے دن اور جماعت کے ساتھ کھڑے رہ سکتے ہیں۔ ایسے جذباتی لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے حالیہ لانگ مارچ ہی کافی ہے کیا پی ٹی آئی کی ساری قیادت دل و جان سے لانگ مارچ کے لیے نکلی اور اگر انہوں نے کپتان کے جوش و جذبے کے مطابق لانگ مارچ کی تیاری نہیں کی تو پھر کیا ضمانت ہے کہ یہ سب لوگ کسی وجہ کے بغیر ہر دوسرے روز سڑکوں پر نکلیں گے یا اپنے حمایتیوں کو بھی احتجاج اور مظاہروں کے لیے سڑکوں پر لائیں گے۔
جماعت کے رہنماؤں کو پاپولر ووٹ لینے کی عادت ہے ان کا خیال تھا کہ عمران خان نے تقریر کر دی ہے اور یہ تقریر سننے کے بعد قوم سڑکوں پر ہو گی اور یہ موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر اسلام آباد پہنچیں گے، عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہو گا، سب کپتان کی تقریر سن کر جذباتی نعرے لگائیں اور کوئی اسلام آباد سے واپس نہیں جائے گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور یہ ثابت ہوا کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کا عوام سے تعلق نہایت کمزور ہے۔ ایسے حالات ہوں تو عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کا صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
حلقہ بندیوں میں بھی تبدیلیاں ہو رہی ہیں یہ پاکستان تحریکِ انصاف کیلئے اور بری خبر ہے اگر پی ٹی آئی مسلسل احتجاجی سیاست میں مصروف رہی تو آئندہ عام انتخابات تک اس کے مسائل میں خطرناک حد تک اضافہ ہو جائے گا کیونکہ تنظیمی طور پر مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی مضبوط سیاسی جماعتیں ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے امیدوار تنظیمی اعتبار سے عام انتخابات لڑنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ حلقوں کی تبدیلی کا سب سے زیادہ نقصان تحریکِ انصاف کو پہنچے گا کیونکہ ان کے لوگوں کو علم ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور حلقوں کی تبدیلی کے بعد کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ معزز چیف الیکشن کمشنر نے بھی کچھ باتیں کی ہیں اب ہم ان کے پہلے بیان کو درست سمجھیں یا گذشتہ روز کی گفتگو کو سنجیدہ مانیں۔
تبصرہ لکھیے