ہوم << پاکستان کی باقیات - عبداللہ طارق سہیل

پاکستان کی باقیات - عبداللہ طارق سہیل

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے مزید تین رہنمائوں کو 1971ء کے ’’جنگی جرائم‘‘ پر پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہے۔ ان میں 68 سالہ رضا ء الکریم، 64 سالہ نذرالسلام اور 62 سالہ شاہد موندل شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو پے درپے پھانسیاں دینے کا سلسلہ کئی برس سے جاری ہے اور یہ اس کی تازہ کڑی ہے۔

آپ نے عمروں پر غور کیا ؟۔ 62 سالہ شاہد موندل 1971ء میں 12 سال کے ہوں گے۔ بارہ سال کا بچہ اور جنگی جرائم کا مرتکب اور جرائم بھی وہ کہ پچاس سال بعد بھی سزائے موت سے کم کا مستحق نہیں۔ یعنی بات تو بالکل واضح ہے۔ معاملہ 1971ء کے جنگی جرائم کا نہیں ہے، وزیر اعظم حسینہ واچد کی فسطائیت کا ہے۔ وہ مقابلے میں کسی جماعت کا وجود برداشت نہیں کر سکتیں۔ خالدہ ضیاء کی جماعت تو کب کی ڈھیر ہو چکی، محض جماعت اسلامی باقی ہے۔

باقی دو سزا یافتگاں بالترتیب 18 اور 14 سال کے رہے ہوں گے جب 1971ء کے واقعات پیش آئے۔ حسینہ واجد نے گزشتہ الیکشن میں دھاندلی کی لیکن اس کے باوجود، عوام میں بہت مقبول ہیں اور اپنی فسطائیت کے باوجود ان کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کامیاب معاشی پالیسیاں دیں، سیاست سے فوج کی مداخلت ختم کی اور خارجہ سطح پر بنگلہ دیش کو اہم کھلاڑی بنایا۔ ان کے دور میں غربت قریباً ختم ہو گئی۔ ہر دوسرے سال آنے والے سائیکلوں سے کبھی ہزاروں اور کبھی بیسیوں ہزار لوگ مارے جاتے تھے۔ انہوں نے اربوں کی لاگت سے ایسے بنکر بنائے جہاں سائیکلون کی آمد کی اطلاع آتے ہی ملحقہ علاقوں کے لوگ پناہ لے لیتے ہیں اور دو چار دن کی مشکل کے بعد معمول کی زندگی پر واپس چلے جاتے ہیں۔ اُن عوامل نے عوامی سطح پر حسینہ واجد کو شیخ مجیب کے بعد ملک کا دوسرا مقبول ترین لیڈر بنا دیا ہے ۔

اس وقت بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 40 ارب ڈالر ہیں (ہمارے کتنے ہیں؟) خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ 2018ء میں یہ تعداد 20 فیصد ،اب گیارہ فیصد ہے۔ بنگلہ دیش کی برآمدات ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اور یورپی یونین ، مڈل ایسٹ اور چین سے اس کے دوستانہ تعلقات ہمارے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں۔ عام تاثر کے برعکس بھارت سے بنگلہ دیش کے تعلقات اتنے اچھے نہیں۔ آسام اور دہلی میں بنگالیوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر ان کی پکڑ دھکڑ کے واقعات کے بعد سے کشیدگی بڑھی ہے، پھر بھی دوطرفہ تجارت جاری ہے۔ حسینہ واجد نے فوجی مداخلت کا سدّباب کر کے پارلیمنٹ کو بالادست بنایا جس سے ترقی کی رفتار ناقابل یقین حد تک تیز ہو گئی۔

دوسری طرف جماعت اسلامی کی مقبولیت بھی بڑھی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعت خالدہ ضیاء کی بی این پی تتر بتر ہو گئی ہے۔ اس کی سربراہ عمرقید بھگت رہی ہیں۔ اس نے جو سیاسی خلاء پیدا کیا ہے‘ اس کا ایک حصہ جماعت اسلامی نے پر کیا ہے لیکن اب بھی جماعت اور عوامی جنگ میں ووٹ بنک کا فرق اتنا زیادہ ہے کہ جماعت کوئی بڑا چیلنج نہیں بن سکتی۔ ممکن ہے‘ آنے والے الیکشن میں حسینہ واجد کی آہنی گرفت کچھ ڈھیلی پڑ سکے۔ 1971 ء کے زخم عوامی سطح پر بڑی حد تک مندمل ہو گئے ہیں اور پاکستان سے نفرت کاوہ عالم نہیں بلکہ پاکستان کے بارے میں اچھے جذبات رکھنے والوں کی تعداد بڑھی ہے لیکن حسینہ واجد کی نفرت کم نہیں ہوئی‘ عمر کے آخری حصے میں ہونے کے باوجود وہ مریضانہ حد تک پاکستان سے زیادہ نفرت کرنے لگی ہیں۔

ان کی عمر اب 75 سال ہے اور وہ ابھی تک جماعت اسلامی کو پاکستان کی باقیات سمجھتی ہیں۔ اس مسئلے کا سیاسی حل ممکن نہیں‘ قدرتی حل البتہ ناگزیر ہے۔ اور قدرتی حل سے مراد ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ تاریخ میں بہت مسئلے اس طرح بھی حل ہوئے ہیں۔ چین میں ماوزے تنگ کی پالیسیوں سے غربت بڑھتی جا رہی تھی۔ حکومت کی تمام محنت بے کار جا رہی تھی۔ ’’قدرتی حل‘‘ آتے ہی حالات بدل گئے‘ اب وہاں غربت کم ہوتے ہوئے قریباً معدوم ہو گئی ہے۔ فائنل سلوشن اکثر ناکام رہتے ہیں‘ نیچرل سلوشنز عموماً کامیاب

مظفر گڑھ کے قصبے علی پور میں ایک سبزی فروش عمران نے اپنی بیوی اور تین بچیوں کو ذبح کر کے خودکشی کر لی۔ بچیوں کی عمر 2 سے 7 سال تک تھیں۔ عمران نے ڈیڑھ سال قبل مکان کرائے پر لیا تھا۔ خبر میں وجہ قتل کھلے الفاظ میں نہیں بتائی گئی لیکن بین السطور موجود ہے۔ سبزی فروش‘ کرائے کا مکان‘ تین بیٹیاں حال کی زبوں حالی پامال مستقبل کی خبر دے رہی تھی۔ایسے واقعات روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں۔ غربت پہلے بھی تھی لیکن چار سال پہلے جو ’’آفت‘‘ مسلط ہونی پائی گئی‘ اس نے مڈل کلاس کو معذور کلاس بنا دیا اور لوئر کلاس کو قرون وسطیٰ کا شودر۔

چودھری پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ غربت اور مہنگائی نے عام آدمی کا جینا مشکل کر دیا۔ کب سے؟ دو مہینے سے؟ چودھری صاحب ’’آپ کے انصاف پرور اتحادی تھے جنہوں نے ’’ریلیف‘‘ کی ایسی چادر بچھائی کہ مت پوچھیئے:

فرش مخمل سے مرے پاؤں چھلے جاتے ہیں

شیخ رشید نے پھر ایک دلچسپ بیان داغا ہے

فرمایا: عمران خان اور مجھے آخر وقت تک پتہ نہیں تھا کہ ہماری حکومت جانے والی ہے۔ جب بلوچستان کی ’’باپ‘‘ پارٹی نے ہمارا ساتھ چھوڑا تب مجھے پتہ چلا کہ باپ کے ’’باپ‘‘ نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا‘ اب ہم گھر جانے والے ہیں۔ تب میں نے کرائے کا مکان ڈھونڈا اور سرکاری مکان خالی کر دیا۔ عمران اس وقت بھی بے خبر تھے۔

واہ۔ لیکن شیخ صاحب آپ تو فرمایا کرتے تھے کہ آپ کا گیٹ نمبر چار سے مسلسل رابطہ ہے اور میں اب بھی ان کا حامی آدمی ہوں۔ آپ کا تازہ بیان تو اس دعوے کی نفی کرتا ہے۔ حیرت ہم گیٹ نمبر 6 والوں نے آپ کو اس ’’ہونی‘‘ کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا اور آپ خر تک اسے ’انہونی‘‘ سمجھتے رہے اور اپوزیشن کے وعدوں کا مذاق اڑاتے رہے؟

مطلب آپ ’’جعلی عکس‘‘ ڈالتے رہے اور غلط بیانی سے کام لیتے رہے۔ یاد آیا‘ آپ چار سال سے ہر دوسرے تیسرے روز قوم کو یہ خوشخبری سناتے رہے کہ میں نے ’’آج‘‘ سے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ہے۔ چلتے چلتے فرما دیجئے کہ وہ ’’آج‘‘ کب آئے گی۔ نیز یہ کہ دو اڑھائی ماہ سے آپ نے یہ مذکورہ بیان دینا چھوڑ دیا ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے۔ شیخ صاحب‘ پھر سے ایک بار بھی نغمہ جاں فزا سنا دیجئے کہ ’’آج سے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ہے‘‘

Comments

Click here to post a comment