بابا بابا! مجھے یہ والے کھلونے چاہیے۔ معاذ نے میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ ڈالے کھلونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اچھا میرے بیٹے کو کون سا کھلونا چاہیے؟
یہ جہاز والا اور یہ گن بھی۔ معاذ نے خوشی سے کہا۔
آپ ان کا کیا کرو گے؟میں نے تجسس سے پوچھا۔
بابا! میں جہاز اڑا کر گن سے سارے دشمنوں کو ختم کر دوں گا۔ ایسے ٹھیشا ٹھیشا۔ اس نے ہاتھ سے گن بناتے ہوئے ٹھیشا ٹھیشا کرتے ہوئے کہا۔ مجھے اس کی معصومیت پہ بےاختیار پیار آیا تھا۔
آج معاذ چھ سال کا ہوگیا ہے۔ کل ہی کی بات لگتی ہے جب میں نے اسے پہلی بار گود میں اٹھایا تھا۔ وقت بھی کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ معاذ کی امی تو اس کی پیدائش کے وقت ہی وفات پا گئی تھی۔ تین سال تک اس کی خالہ نے اس کی دیکھ بھال کی۔ میں نے بھی سب کے کہنے کے باوجود دوسری شادی نہیں کی اور اپنے بچے کا خود خیال رکھا۔ آج بھی کھلونے دیکھ کر مچل اٹھتا ہے۔ اللہ اسے ہمیشہ خوش رکھے۔ نیک بنائے۔ آمین۔ رشید صاحب نے ڈائری بند کرتے ہوئے سوچا تھا۔
سنیں بابا! ہوم ورک کرتے ہوئے معاذ نے پکارا تھا۔
بابا! آج سر کلاس میں پوچھ رہے تھے کہ آپ بڑے ہو کر کیا بنو گے۔ میں نے کہا۔ فوجی۔۔ تو سر ہنسنے لگے۔ کہتے بیٹا، آپ ایک چوٹ سے رونے لگتے ہو۔۔ وہاں کیسے رہ پاؤ گے۔ میں ہنس پڑا۔
بابا آپ بھی ہنس رہے۔۔ آپ دیکھنا میں یونیفارم میں کتنا اچھا لگوں گا۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ چہرے پہ خوشی کے رنگ تھے تو آنکھوں میں خوابوں کا عکس۔۔
اللہ اسے نظر بد سے بچائے۔ میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی۔
معاذ اتنا بڑا ہوگیا ہے۔ کل تک میں اسے ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھاتا تھا۔ آج وہ ہاتھ پکڑ کر اٹھاتا ہے۔ میرے کام کر دیتا ہے۔ کل کہہ رہا تھا، بابا! آپ سست سے ہوگئے ہیں۔ بوڑھا ہو گیا ہوں۔ اللہ میرے بچے کو زندگی دے۔ آمین۔ تنہائی میں ان کی ڈائری ہی ان کی دنیا ہوتی تھی۔
آج سیکنڈایئر کی الوداعی تقریب تھی۔ والدین نے بھی شرکت کی تھی۔ معاذ کی نمایاں پوزیشن تھی۔ محنتی وہ ہمیشہ سے تھا۔ استاتذہ سے ملتے اور اسٹیج پہ چلتے پھرتے میرا بچہ بہت پیارا لگ رہا تھا۔ آج اسے انٹر کی ڈگری بھی مل گئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسے یونیورسٹی میں داخل کروا دوں۔ کل میں نے پوچھا بھی تھا معاذ سے۔ وہ فوج میں جانے کا کہہ رہا تھا۔ میرا ایک ہی تو بیٹا ہے۔ میں اسے اپنے سے دور کیسے بھیج سکتا ہوں۔ سمجھاؤں گا اسے۔ چھوٹا ہے نا ۔۔ اسی لیے سمجھ نہیں آتی اسے۔
بابا گھر چلیں ۔۔ کہاں گم ہیں آپ؟ معاذ نے مجھے ہلاتے ہوئے کہا اور میں نے سوچوں سے نکل کر سر ہلا دیا۔
معاذ بیٹا! یہیں داخلہ لے لو۔ میں تمہیں دور کیسے بھیج سکتا۔ ہم دونوں کے علاوہ ہمارا ہے ہی کون۔ میں نے معاذ کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔ وہ سن رہا تھا۔
بابا آپ ہی تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہم ان کی امانت ہیں ۔۔ جب چاہے لے لیں ۔۔ ہمیں بس اللہ کی رضا میں راضی رہنا چاہیے، اسی میں ہماری بھلائی ہی ہوتی۔ ہمیں کبھی نا امیدی اور مایوسی کو پاس نہیں آنے دینا چاہیے۔
وہ بول رہا تھا۔ میں سن رہا تھا۔ میں کیوں یہ بھول گیا۔ ہم پہلے اولاد کو سارے سبق پڑھاتے ہیں ۔۔ اور جب وہ سیکھ جاتے تو ہم بھول جاتے ہیں۔ میں سوچوں میں گھرا تھا۔
کیا سوچ رہے بابا ۔اگر آپ کا دل نہیں مان رہا تو نہیں جاتا۔ اس نے اداسی سے کہا تھا۔ نظریں میرے چہرے پہ ٹکی تھی۔ میں نے فیصلہ کر لیا۔
ٹیسٹ کب ہے تمہارا۔ میں نے سنجیدگی سے کہا تھا اور وہ خوشی سے میرے گلے لگ گیا۔ اس کی خوشی ہی میری خوشی تھی۔
معاذ ٹریننگ کے لیے جا چکا ہے۔ میرا دل بہت اداس ہو رہا اس کے بغیر۔ کل اس کا فون آیا تھا تو کہہ رہا تھا بابا اپنا خیال رکھا کریں۔ میں نے کہا کہ اب کی بار تم آؤ گے تو اپنا اور تمہارا خیال رکھنے والی پیاری سی بیٹی لے آؤں گا۔۔ ہنس کر کہنے لگا۔۔ میں اپنے لیے مما ڈھونڈتا ہوں ۔۔ اور آپ بیٹی ۔۔ اللہ اس کی عمر دراز کرے۔
وقت بھی کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ معاذ کہ نوکری کو بھی کافی سال ہو گئے ہیں۔ فون پر بتا رہا تھا کہ بارڈر پہ تعیناتی ہوگئی ہے۔ بھارتی فوجیوں کی جانب سے معصوم لوگوں پہ فائرنگ کی کوشش کی جاتی ہے۔ میرا خون کھول اٹھتا ہے۔ بس نہیں چلتا کہ ختم کر دوں ۔۔ وہ بول رہا تھا ۔۔ میں پریشان ہو گیا۔ حالات بھی تو ایسے ہیں۔ اللہ اس کی حفاظت کرے۔ آمین
بریکنگ نیوز ۔۔ بھارتی افواج کی جانب سے دو فوجی اور کئی شہری زخمی ۔ پاکستانی فوج کی بھرپور جوابی کاروائی۔ وزارت خارجہ کو طلب کر لیا گیا۔
آج پھر وہی خبر چل رہی تھی، یہ تو اب روز کا معمول تھا۔ ہر ایسی خبر پہ میرا دل کسی بچے کی طرح روتا اور معاذ کی خیریت کی اطلاع ملتے ہی خاموش ہو جاتا جیسے بچے کو ماں نے پیار کیا ہو ۔۔ میرا دل بہت پریشان ہو رہا تھا۔ فون کی گھنٹی پر میں نے فورا ریسیور اٹھایا۔۔
معاذ بیٹا ۔۔ میں نے اٹھاتے ہی بےساختہ کہا تھا۔
بولنے والی آواز کسی گولی کی طرح میرے سینے کے پار ہوئی تھی۔ ٓآپ کے لیے فخر کی بات ہے کہ آپ کا بیٹا بھارتی افواج کی جانب سے فائرنگ پہ اک شخص کو بچاتے دشمن کو گولیوں کا نشانہ بن گیا۔
اللہ آپ کو صبر کی تو فیق دے۔ خبر تھی کہ گولی۔۔؎۔۔ میرا دل چھلنی ہوگیا۔۔ درد تھا بےانتہا درد ۔۔ اپنے لخت جگر کی موت پہ دل نے سسکنا چاہا۔ میں گم صم سا بیٹھ گیا۔میرے دماغ میں اس کی باتیں گونج رہی تھی۔۔ اور پھر جیسے رب کی رحمت نے مجھے اپنے سائے میں لیا ہو ۔۔ یہ قربانی تھی ۔۔ شہادت تھی ۔۔ اس وطن کے لیے جسے پانے میں ہم نے ایک دن میں لاکھوں لوگ گنوائے ۔۔ میرے اللہ نے اس کی خواہش کو پورا کر کر اسے ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا تھا ۔۔ بےشک ہم سب اللہ کی امانت ہیں ۔۔ میرا بیٹا شہید ہوا تھا۔دل و دماغ خالی ہو رہے تھے۔ میں نے خود کو سنبھالا ۔۔ آنسوؤں پہ بھلا کس کا اختیار؟
انہی آنکھوں نے اسے بڑا ہوتا دیکھا تھا.. اس کی میت پہنچا دی گئی تھی.. لوگوں نے نعرہ لگاتے، اسے رخصت کیا تھا ۔۔ میں اسے اس کی آخری آرام گاہ میں پہنچا آیا ۔۔ اب روز وہاں جاتا ہوں اور مسکرا کر آنکھ میں آئے آنسو صاف کر کر کہتا ہو ں ۔۔گواہ رہنا۔۔
وطن کی مٹی گواہ رہنا ۔۔ اس کے کتبے پہ بڑے واضح لفظوں میں لکھوایا گیا تھا۔
وطن کی مٹی گواہ رہنا
کہ تمہاری آس میں
بہت کچھ لٹایا ہے
تم سے بے لوث محبت میں
بہت سوں کو گنوایا ہے
وطن کی مٹی گواہ رہنا
تبصرہ لکھیے