ہوم << جب حق نمائشی بن جائے - سید اسرارعلی

جب حق نمائشی بن جائے - سید اسرارعلی

Media News concept

سید اسرارعلی بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہر بندہ خبروں میں رہنا چاہتا ہے۔ ججز صاحبان سے لے کر جرنیلوں تک اور عام سیاسی کارکنان سے لے کر پارٹی سرخیلوں تک، سب کے سروں پر ایک دھن سوار ہے کہ کسی طرح مشہور ہوا جائے۔گمنام سپاہی بننا کوئی پسند نہیں کرتا بلکہ ہر بندہ یہی چاہ رہا ہوتا ہے کہ مناسب وقت پر وافر الفاظ میں ایک پروقار طریقے سے ان کا ذکر خیر ہو۔ تاکہ اس کے ثمرات بعد میں سمیٹے جائیں۔ بلکہ یہاں تو اب باقاعدہ بیانات کے ذریعے پیغام رسانی ہوتی ہے اور اپنی قیمت دوسرے کو بتادی جاتی ہے۔ کچھ خواہ مخواہ کی تردید چھپوا کر اصل پیغام پہنچا دیتے ہیں۔
عوامی جلسوں میں دیکھیے، ہر بندہ سٹیج پر جانا چاہتا ہے اور قائدین کے ساتھ تصویریں کھینچنا چاہتا ہے۔ لیڈر تقریر کریں تو پیچھے کھڑا ہونا اب ایک نیا اور عجیب ٹرینڈ بن گیا ہے حالانکہ تقریر کے دوران لیڈر کے پیچھے کھڑے ہونے کی کوئی منطق بظاہر نظر تو نہیں آتی۔ بعض لوگ تو پروگرام ختم ہونے کے بعد خالی ڈائس کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں کھینچتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیتے ہیں۔ سیاسی جلسوں کے بعد اب یہ ٹرینڈ مکہ اور مدینہ تک پہنچ گیا ہے، اور لوگ احرام میں بھی احتراماً تصویر کا شوق فرما دیتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت سند رہے۔
مشہور ہونے کے لیے کھینچی گئی تصویروں اور خبروں میں ’’اِن‘‘ رہنے کے لیے دیےگئے بیانات کو لوگ ایک پل میں پہچان لیتے ہیں۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کارکن جو کام فیلڈ میں کررہے ہیں وہ شاید بہت ہی شاندارہو لیکن جو سوشل میڈیا پر دکھارہے ہیں وہ نمائش، خودستائی، خودنمائی اور شوداپن کہلاتا ہے۔ معروف اینکر و صحافی آصف محمود صاحب نے کیا خوب لکھا ہے، ’’پاپولر ازم اور شہرت کا عارضہ صرف شوبز میڈیا یا اہل سیاست ہی کو نہیں بہت ساروں کو لاحق ہو چکا ہے‘‘۔
یہ ذہن میں رکھیے کہ کام کرتے ہوئے تصویر اور تصویر کے لیے کام میں مصروف ہونے کی ایکٹنگ میں زمین آسمان کاہوتا ہے اور لوگ اس فرق کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور لائک مارتے ہوئے دل میں کہتے بھی ہیں’’ڈرامہ باز، یہ نہیں سدھرنے والا‘‘۔ مجھے کوئی شک نہیں اور نہ کوئی بدگمانی ہے آپ کی حق پرستی پر مگر مرشد انعام الرحمن میاں کی بات میں وزن کچھ زیادہ محسوس ہورہا ہے۔ ’’حق پر اس سے برا وقت اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ نمائشی بن جائے‘‘۔

ٹیگز