18 اکتوبر 2016 ء کو سعودی شاہی خاندان کے شہزادے ترکی بن سعود کاقتل کے جرم میں قصاصا سرقلم کیاگیا۔سعودی عرب کی تاریخ میں یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا، جس میں پہلی مرتبہ کسی عام شہری کے قتل میں شاہی خاندان کے کسی شہزادے کو قتل کیا گیا۔ اس سے پہلے سعودی عرب کے مشہور بادشاہ ملک فیصل کے قتل کے جرم میں شاہی خاندان کے شہزادے کو قتل کیا گیا تھا، جو ملک فیصل کا بھتیجا تھا۔ لیکن اس بار ایک عام شہری کے قتل کے جرم میں شہزادے کو پھانسی دی گئی۔ انصاف کے اس سنہر ے فیصلے کو پوری دنیا، بالخصوص سعودی عرب میں خوب سراہا گیا۔ 18 اکتوبر کی شام جیسے ہی سعودی عرب کی وزارت داخلہ کی طرف سے یہ خبر بریک ہوئی چندمنٹوں میں ٹوئٹر پر سعودی عرب کے بادشاہ ملک سلمان کے نام سے ہیش ٹیگ ”سلمان الحزم یامربقصاص الامیر“ ( سلمان الحزم شہزادے پر قصاص نافذ کرنے کا حکم دیتے ہیں) ٹاپ ٹرینڈ بن گیا، جس کے ذریعے سعودی عوام نے نہ صرف خدا کے مقررکردہ قانون قصاص کے نفاذ کا حکم دینے پر ملک سلمان کو خراج عقیدت پیش کیا بلکہ قاتل شہزادے اور مقتول عادل المحیمید کی مغفرت کے لیے بھی دعا کی۔
عوام الناس کے ساتھ سعودی شاہی خاندان کے لوگوں نے بھی ٹوئٹر پر اسےانصاف کی جیت اور خدا کے حکم کی بالادستی قرار دیا۔چنانچہ سعودی عرب کے شاہی خاندان کے امیر ترین شہزادے ولیدبن طلال نے ٹوئٹر پیغام میں قرآن پاک کی آیت ”ولکم فی القصاص حیاۃ یآاولی الباب“ (تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہےعقلمندو) لکھ کر قاتل شہزادے اور مقتول کے لیے دعائے مغفرت کی، اس کے ساتھ انہوں نے انصاف کو حکومت کی بنیاد قرار دیا۔
قتل ہونے والے شہزادے کے قریبی رشتے دار اورحکومتی اہلکار شہزادہ خالدبن سعود الکبیر نے انصاف کے اس سنہرے فیصلے پر ٹوئٹ میں لکھا کہ ”تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔پھر دعا کی کہ اے اللہ آپ نے شہزادہ ترکی بن سعود پر قصاص کی حد جاری کی، اے اللہ اس حد کو اس کے گناہوں کے لیے کفارہ بنا دیجیے اور شہزادے کو جنت میں اعلی مقام عطا کر۔ اور مقتول کے ورثاء کے لیے پیغام میں کہا کہ اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور آپ کے مرحومین پررحم کرے۔“
شاہی خاندان کی شہزادی بسمہ نے ٹوئٹ پیغام میں اس فیصلے پر ”انا للہ وانا الیہ راجعون لکھنے کے بعد کہا، جو ہوا وہ اللہ کی مرضی تھی،اور اللہ قاتل اور مقتول کے لواحقین کو صبر جمیل عطاکرے۔“
شاہی خاندان کے ایک اور فرد ڈاکٹر خالد آل سعود نے انصاف کے اس سنہری فیصلے پر ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ ”یہ اللہ کی شریعت ہے،یہی شریعت ہمارے مبارک ملک کا دستور ہے۔اللہ قاتل اور مقتول پر رحم کرے۔“
دوسری طرف مقتول عادل المحیمید کے ماموں عبدالرحمن الفلاج نے اس فیصلے پر قرآن پاک کی آیت ”ولکم فی القصاص حیاۃ یآاولی الباب“ لکھ کر اس فیصلے کو انصاف کی جیت قرار دیا۔
جس مسجد کے سامنے شہزادے کو قصاصا قتل کیا گیا اس کے امام ڈاکٹر محمد المصلوخی شہزادے کے آخری دن کے عینی شاہد ہیں انہوں نے قصاص کی پوری تفصیل ٹوئٹس کے ذریعے بتائیں۔ انہوں نے انصاف کے اس سنہری فیصلے پر ٹویٹ میں لکھا کہ ”یہ یقینا مقتول اور قاتل کے لواحقین کے لیے صبر آزما امتحان ہے۔ دونوں خاندان غم زدہ ہیں۔ لیکن یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ اللہ سے دعاہے کہ وہ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ورثاء کو صبر جمیل دے۔“ ٹوئٹر پر مشہور لکھاری نایف بن عوید کا کہنا تھا کہ ”یہ تاریخی فیصلہ ان لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے کافی جو چار سال پہلے یہ کہتے تھے کہ شہزادوں پر قانون نافذ نہیں ہو سکتا۔“ ایک اور سعودی وکیل نے کہا کہ ”شریعت کے نفاذ سے کوئی امیر بالا ہے، نہ کوئی وزیر، سعودی حکومت شریعت کے نفاذ پر بغیر کسی روک ٹوک کے عمل کرتی ہے۔“
اس کے علاوہ سعودی عوام کی طرف سے نہ صرف اس سنہری فیصلے کو انصاف کی جیت قراردیا گیا بلکہ سعودی عرب کے دستور کو سراہتے ہوئے کہا گیا کہ الحمدللہ یہاں اللہ کی شریعت نافذ ہے، یہاں کا امن وامان اور انصاف صرف اسی شریعت کی وجہ سے بلند ہے۔دوسری طرف اس فیصلے کےبعد سعودی عوام کی طرف سے شاہ سلمان کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر شئیر کی جاتی رہی۔ یہ ویڈیو دراصل شاہ سلمان کے 2015ء میں حکومت سنبھالنے کے وقت کی ہے۔ جس میں انہوں نے حکومتی شخصیات کے سامنے انصاف کی اہمیت پر زور دیا تھا اور عام شہریوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ تمام شہری برابر ہیں، کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں، ہر شہری اپنے حق کے لیے وقت کے بادشاہ یا کسی بھی حکومتی شخص کو عدالت میں کھڑا کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی شہری بادشاہ یا کسی بھی حکومتی شخص کو صرف نام سے پکار سکتا ہے، بادشاہ اور عوام میں کوئی تفریق نہیں ہے۔اس ویڈیو میں شاہ سلمان کہنا تھا کہ ”کوئی بھی شہری بادشاہ، نائب بادشاہ یا بادشاہ کے خاندان میں سے کسی کے خلاف کیس دائر کر سکتا ہے۔ میں اس پر ایک مثال دیتا ہوں۔ ملک عبدالعزیز (جو سعودی عرب کا بانی تھا) اور عام آدمی میں کوئی تنازع تھا۔ اس آدمی نے ملک عبدالعزیز سے کہا کہ میں شریعت کے مطابق فیصلہ چاہتا ہوں۔ وہ دونوں ریاض کے قاضی شیخ سعد بن عتیق کے پاس گئے۔ قاضی نے پوچھا کہ کیسے آئے ہو؟ ملک عبدالعزیز اور اس آدمی نے کہا کہ اپنے معاملے کو حل کروانے آئے ہیں۔ قاضی نے کہا کہ گھر کے داخلی دروازے پر بیٹھ جاؤ۔ پھر جب تنازع حل ہوگیا تو قاضی نے کہا اندر بیٹھک میں چلیں قہوہ پینے کے لیے۔ دیکھیے یہاں شریعت کیسے نافذ ہوئی۔ اس سب کے باوجود کہ فیصلہ ملک عبدالعزیز کے حق میں ہوا لیکن ملک عبدالعزیز اپنے حق سے دستبردار ہوگئے۔ لہذا اب بھی ہر شہری بادشاہ یا نائب بادشاہ یا ان کے خاندان میں سے کسی کے خلاف کیس دائر کرسکتاہے۔ الحمدللہ ہمارا دستور کتاب اللہ اور سنت رسول ہے۔“
شہزادے کو قصاصا قتل کرنے کاحکم دے کر شاہ سلمان نے اپنی کہی ہوئی اس بات کوثابت بھی کر دکھایا۔ یقینا انصاف کا یہ سنہری فیصلہ آج کی دنیا میں ایک شاندار تاریخی فیصلہ ہے۔ جس سے نہ صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ انسانیت کی بقاء عدل و انصاف کی آزادی میں ہے، بلکہ یہ فیصلہ اس بات کا بھی درس دیتا ہے کہ حکومت کی مضبوطی اور لوگوں کی حکومت سے محبت کا بنیادی سبب انصاف کی آزادی میں کار فرما ہے۔ سعودی عوام اپنی حکومت سے کیوں خوش ہے؟ کیوں ان کے خلاف مظاہرے اور احتجاج نہیں کرتی؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی انصاف کی بالادستی اور خدا کی شریعت کا نفاذ ہے۔ اسی شریعت اور انصاف کی بالادستی کی وجہ سے یہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں کی عوام شریعت کے معاملے میں انتہائی حساس ہیں۔ نماز جو خدا کا حق ہے، شاید ہے کوئی اسے ضائع کرتا ہو، جتنے سعودی دنیا میں نماز کے پابند ہیں، شاید ہی اتنے کسی اور ملک کے مسلمان ہوں، لوگوں کے حقوق کے معاملے میں بھی یہاں کی اکثرعوام حقوق اللہ کی طرح حساس ہے۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جو سعودی عرب کو امن و امان کا گہوارہ بنائے ہوئے ہیں۔ اگر ہماری عوام خدا کی شریعت کو ذاتی زندگیوں میں نافذ کرنا شروع کردے تو حکومتی سطح پر خود بخود خدا کے احکام نافذ ہوتے جائیں گے۔ خدا اس قوم کی حالت تبھی بدلتا ہے جب وہ خود اپنی حالت بدلنے پر تیار ہو۔ اگر عوام انصاف کی بالادستی چاہتی ہے تو اسے اپنی زندگیوں میں خدا اور بندوں کے حقوق کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا۔ دوسری طرف حکومت اگر ملک میں امن و امان اور اپنی بقا چاہتی ہے تو اسے بغیر کسی تفریق کے نظامِ انصاف کو نافذ کرنا ہوگا۔ سعودی عرب میں رقم ہونے والی انصاف کی سنہری داستان یہی درس دیتی ہے۔
تبصرہ لکھیے