ہوم << ہمارا جمہوری نظام اور خلیفہ عمر بن عبدالعزیز - سید وجاہت

ہمارا جمہوری نظام اور خلیفہ عمر بن عبدالعزیز - سید وجاہت

جب اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک بیمار ہوئے تو انہوں نے اپنے وزیر رجاء بن حیوہ سے مشورہ طلب کیا کہ میں اپنا جانشین کس کو بناوں ، خلفاء بنو امیہ کی روش تو یہ رہی ہے کہ وہ اپنے بعد اپنے بیٹے کے لئے ہی وصیت کرجاتے تھے اور ان کے وزاء بھی انہیں اسی قسم کا مشورہ دیتے تھے لیکن رجاء بن حیوہ ایک جلیل القدر تابعی تھے، آپ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی سے علم حاصل کیا ، یہی وجہ ہے کہ رجاء بن حیوہ نے عام روش کے مطابق سلیمان بن عبد الملک کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ وہ اپنے بیٹے ہشام کو خلیفہ بنائے بلکہ انہوں نے عمر بن عبدالعزیز جیسے نیکوکار اور مخلص قیادت کے انتخاب کا مشورہ دیا، حضرت عمر بن عبدالعزیز کے استاذ صالح بن کیسان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ''مجھے ایسے کسی آدمی کا علم نہیں ، جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اس لڑکے سے زیادہ نقش ہو'' کتابوں میں لکھا ہے کہ جب مسجد میں خاندان بنوامیہ ، وزراء کی موجودگی میں سلیمان بن عبدالملک کی وصیت سنائی گئی تو دو لوگوں کی زبان پر اناللہ وانا الیہ راجعون کے الفاظ تھے، ایک ہشام بن سلیمان کی زبان پر کہ وہ خلافت سے محروم ہوگیا تھا اور دوسرا حضرت عمر بن عبدالعزیز کی زباں پر جو اس خلافت کو بار عظیم سمجھ رہے تھے جو کسی بھی طرح سے اس خلافت کی ذمے داری اٹھانے کے لئے تیار نہ تھے ، جب حضرت نے اپنے خلیفہ بنائے جانے کا اعلان سنا تو حضرت نے یہ الفاظ کہے:
لوگو ! میری خواہش اور عام مسلمانوں کی رائے لیے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داری میں مبتلا کیا گیا ہے اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمہاری گردن میں ہے خود اسے
اتارے دیتا ہوں، تم جسے چاہو اپنا خلیفہ بنا لو۔
یہ الفاظ سننے تھے کہ خاندان بنوامیہ سمیت تمام لوگوں نے بلند آواز سے کہا ہم نے آپ کو اپنے لیے پسند کیا اور آپ سے راضی ہوگئے۔ پھر زمین و فلک نے وہ نظارا بھی دیکھا کہ دو ڈھائی سال کے عرصے میں اس مرد قلندر نے دنیا کو امن کا گہوارہ بنادیا ، دنیا کو عمر الفاروق کی یاد دلا دی، معلوم ہوا کہ جو لوگ کام کرنے والے ہوتے ہیں وہ حکومت کی آرزو نہیں کرتے بلکہ وہ ڈرتے ہیں اس بار عظیم کو اٹھانے سے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی شخص نے عہدہ طلب کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم
یہ عہدے منصب انہیں نہیں دیتے جو ان کے طلب گار ہوں.
دوسری بات یہ کہ آج دنیا عمر بن عبدالعزیز کو تو جانتی ہے لیکن رجاء بن حیوہ جن کے مشورے کے بنیاد پر ہی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے عمر بن عبد العزیز کو منتخب کیا تھا، آج ان کے نام اور کام سے صرف اہل علم ہی واقف ہیں عوام واقف نہیں، تاریخ پڑھیں تو ایسے بہت سے کارنامے ہیں جن کا سہرا ایسے لوگوں کے سر ہے کہ جن کے نام سے ہی دنیا واقف نہیں تو کیا ہمارے ناواقف ہونے سے اللہ ان کے اجر کو کم کردے گا؟ یقینا جس قدر امیر المومنین رحمہ اللہ اجر کے مستحق ہوں گے اسی قدر رجاء بن حیوہ کو بھی اجر ملے گا ، کیونکہ الدال علی الخیر کفاعلہ ، کیونکہ نیکی کی طرف رہنمائی کرنے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے خود نیکی کی ہو۔
یہاں ہمارے لیےایک سیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ انسان اگر صحیح لوگوں سے مشاورت کی عادت ڈالے تو ایسا شخص کبھی بھی نامراد و ناکام نہیں ہوسکتا ، ہماری ناکامیوں کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم مشاورت کے بغیر یا نااہل لوگوں کی مشاورت سے کام کرتے ہیں ، ہمارے ملک میں جمہوری نظام ہے اس جمہوری نظام کی یہی سب سے بڑی
خرابی ہے کہ حکومت کے بھوکے لوگ اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادیتے ہیں ، پیسہ پانی کی طرح پہایا جاتا ہے ، اب ظاہر ہے اس قدر محنت و کوشش کے بعد لاکھوں کروڑوں کا سرمایہ خرچ کرکے اقتدار کو حاصل کرنے کے بعد بھی کوئی عوام کی حقیقی معنوں میں خدمت کرسکتا ہے؟
ہم بھی بدقسمت قوم ہیں کہ ہم نےیہ جمہوری نظام غیروں سے متاثر ہوکر اپنایا لیکن وہ اصول و ضوابط فراموش کردیئے جن کی بناء پر یہ نظام موثر ہوسکتا تھا، جمہوریت انہیں معاشرے میں کامیاب ہوسکتی ہے، جہاں شرح خواندگی مناسب حد تک موجود ہو ، جہاں کے معاشرے کے افراد منشور دیکھ کر سیاسی پارٹیوں کے اہداف کا تعین کرسکیں، جن میں موازنہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو ، بدقسمتی سے ہمارے یہاں قومیت، لسانیت، ڈھول کی ڈھاپ ، لنگر و دعوت کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ کرنے کا رواج ہے ، یہاں شرح خواندگی افسوس ناک حدتک کم ہے ، پارٹی منشور دیکھ کر موازنہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، یہی روش رہی تو اگلے پچاس سال بعد بھی تبدیلی نہیں آسکتی، مخصوص خاندان ، مخصوص برادریاں اور ان کی آل و اولاد ہی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے گے، کیونکہ ہمارا نظام ہی ایسا ہے کہ مخلص دیانت دار ، پڑھے لکھے لوگ ایوان اقتدار تک اپنی مدد آپ کے تحت نہیں جاسکتے ۔

Comments

Click here to post a comment