جب لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اسلام نے ہمیں کوئی نظام ِحکومت دیا ہے؟ یہ اسلامی معیشت کیا ہوتی ہے؟ تو بچپن میں اسلامیات کی کتاب میں پڑھا ہوا ایک جملہ ذہن کے دھندلکوں میں بے اختیار چمکنے لگتا ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔
اللہ جانے یہ فصیح جملہ آج کل اسلامیات کی نصابی کتب میں شامل ہے یا نہیں! بہرحال میں سوچنے لگتا ہوں کہ یہ سب پڑھے لکھے لوگ (جو یہ سوال کرتے ہیں) واقعی ضابطہِ حیات کے معنی سے نا آشنا ہیں یا وہ اس حقیقت کو قبول کرنے سے نظریں چرا رہے ہیں؟
آپ کا تعلق جس بھی مکتبہِ فکر، جس بھی فقہی مسلک سے ہے، آپ کو اس سوال کا جواب جاننے کے لیے کسی بھی کتب خانے یا کسی بھی عالم یا مفتی صاحب کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ بس ذرا سی زحمت کیجے اور گھر میں موجود کوئی بھی پنج سورہ، وظائف کی کتاب کی فہرست کا مطالعہ کرلیں، اس میں ”مسنون دعائوں“ پر ایک نظر دوڑائیں تو کم و بیش درج ذیل دعائیں نظر آئیں گی۔
سو کر اٹھنے کی دعا
بیت الخلا جانے کی دعا
بیت الخلا سے باہر آنے کی دعا
مسجد میں داخل ہونے کی دعا
مسجد سے نکلنے کی دعا
لباس پہننے کی دعا
نیا لباس پہننے کی دعا
آئینہ دیکھنے کی دعا
کھانا کھانے کی دعا
کھانے کے بعد کی دعا
گھر سے نکلنے کی دعا
سواری پر بیٹھنے کی دعا
سواری سے اترنے کی دعا
گھر میں داخل ہونے کی دعا
ہمبستری سے قبل دعا
سونے کی دعا
ٹھندے دل سے تعصب کی عینک اتار کر دیکھنے والا ایک عام علم و فہم کا شخص بھی یہ نتیجہ اخذ کر لے گا کہ جو اسلام (ایک مکمل ضابطہِ حیات ہے) اپنے ماننے والے فرد کو سونے، جاگنے، کھانے پینے حتٰی کہ بیت الخلا جانے اور ہمبستری کرنے کے آداب تک سے آگاہی دیتا ہے اور ان مواقع کی دعائیں تک سکھلاتا ہے، وہ اسلام معیشت، معاشرت اور نظام ِحکومت ایسے اہم معاملات میں اپنے پیروکاروں کو شُترِ بےمہار کی مانند دشتِ دنیا کی سیاہی میں بھٹکنے اور در در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے کیسے چھوڑ سکتا ہے؟
تبصرہ لکھیے