عموما یہ بات کہی جاتی ہے کہ مدارس کو کچھ جوہری تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ ان میں سے عام طور چند اہم ترین یہ ہوتی ہیں،
(ا) نصاب اپ ڈیٹ کرکے دینی علوم کے ساتھ ساتھ جدید (خصوصا سماجی) علوم سکھانے کی ضرورت
(2) انگریزی زبان سکھانے کی ضرورت،
(3) فرقہ وارانہ ماحول سے ماورایت،
آج اگرچہ ایسے مدرسے کا وجود ایک خواب سے کم نہیں، مگر آئیے میں آ پ کو ایک ایسے مدرسے کا تعارف کراتا ہوں۔
1) اس مدرسے کے نصاب میں جو علوم پڑھائے جاتے ہیں، ان کی لسٹ یہ ہے:
”تفسیر و اصول التفسیر، حدیث (بمع دورہ حدیث) و اصول، سیرت و تاریخ، فقہ و اصول فقہ، تقابل ادیان، علم الکلام و علم الفرائض، عربی لغت و ادب، انگریزی لغت، منطق قدیم و منطق جدید، کمپیوٹر، اکنامکس، پولیٹیکل سائنس، سوک، سائیکالوجی، ایجوکیشن، قدیم و جدید فلسفہ، ایتھکس (چند نام مجھے یاد نہیں)
2) میڈیم آف کمیونیکیشن انگریزی و عربی ہے، (تمام امتحانات انھی دو زبانوں میں لیے جاتے ہیں)
3) مسلکی تعصبات کو ختم کرنا تو ناممکن ہے کہ یہ ایک معاشرتی حقیقت ہیں (اور انہیں ختم کرنے کی ضرورت بھی نہیں بشرطیکہ خاص دائرے کے اندر ہوں) البتہ اس کے حالات کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پچھلے تقریبا پندرہ بیس سال سے وہاں ایک ایسی شخصیت تفسیر قرآن پڑھانے (اور وہ تقریبا دس سال وہاں پرنسپل بھی رہے) پر مامور ہے جو ٹھیٹھ دیوبندی مدرسے (بنوری ٹاون) کے فارغ التحصیل ہیں، مشہور دیوبندی عالم دین مولانا یوسف بنوری (رح) کے شاگرد ھہں، مگر اس کے ساتھ ساتھ مولانا ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری قادری [جو بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مشہور عالم دین مولانا عبدالعلیم صدیقی میراٹھی (رح)، (والد مولانا شاہ احمد نورانی (رح) و شاگرد مولانا احمد رضا خان بریلوی (رح)] کے سجادہ نشین ہیں۔ اس مدرسے میں پڑھنے والے بچوں پر مسلکی اعتبار سے کوئی پابندی نہیں، کلاس رومز میں کسی بھی مسلک کی پوزیشن کے خلاف کھل کر بات کی جاسکتی ہے، اور تو اور چند طلبہ وہاں پڑھنے کے بعد اچھے خاصے ماڈرنسٹ تک ھوجاتے ہیں (راقم بھی وہاں اس دور سے گزرچکا ہے) مگر اساتذہ کسی کو اس معاملے میں مطعون نہیں کرتے اور نہ ہی انتقامی کارروائی کا نشانہ بناتے ہیں (میرے دور تعلیم تک تو یہی حالات تھے، اب کا معلوم نہیں)۔
آپ یہ جان کر مزید حیران ہوں گے کہ یہ مدرسہ آج سے پچاس سال قبل قائم کیا گیا اور اپنے عروج و زوال کی بہت سی منازل بھی دیکھ چکا (یعنی جو شے آج بھی ایک خواب معلوم ہوتی ہے، وہ ایک شخص نے نصف صدی قبل نہ صرف یہ کہ حقیقت بنا کر دکھا دی بلکہ وہ عروج و زوال سے بھی گزرچکی)۔
اس مدرسے کا نام ہے جامعہ علیمیہ اسلامیہ (مشہور بنام اسلام سینٹر)، جو شہر کراچی (نارتھ ناظم آباد بلاک بی) میں ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری قادری (رح) نے 1964ء میں قائم کیا۔ اگر آج سے پچاس سال قبل ایک شخص ایسا مدرسہ قائم کرکے کامیابی کے ساتھ چلا کر دکھا سکتا ہے تو آج یہ کیوں ناممکن ہے؟ یقینا اللہ تعالی کچھ کاموں کے لیے کچھ لوگوں کو چن لیتا ہے، یقینا فضل الرحمن انصاری صاحب کو بھی اللہ نے اس مخصوص مدرسے کے قیام کے لیے چن لیا تھا کہ یہ رہتی دنیا تک لوگوں کے لیے مثال بن جائے۔ اللہ انصاری صاحب کے درجات کو بلند فرمائے۔ آمین
تبصرہ لکھیے