ہوم << اے مفتیانِ زمانہ، کچھ توجہ ادھر بھی - سید اسرارعلی

اے مفتیانِ زمانہ، کچھ توجہ ادھر بھی - سید اسرارعلی

سید اسرارعلی یہ صرف کوئٹہ میں چار یا پانچ خواتین کی شہادتوں کا مسئلہ نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ میرے وطن میں بےگناہوں کا اتنا خون بہہ چکا ہے کہ شہر اقتدار اسلام آباد شریف، شہر شہسوار و سپہ سالار پنڈی شریف اور شہر داتا دربار و شیر سرکار، تینوں سمیت اپنے پر غلامِ مسند و اختیار، مجاور آستانہ و مزار اور صاحبان جبہ و دستار اس میں ڈوب سکتے ہیں۔ لیکن ہوگا کچھ بھی نہیں کہ بڑوں کو حبِ مال و زر اور چھوٹوں کو نشاطِ عیش و عشرت نے اندھا کرکے رکھ دیا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو دوش دے رہا ہے جبکہ خود ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں۔ ہر روز منوں کے حساب سے پلاسٹک کے تھیلے استعمال کرنے والی قوم، سیوریج لائن بند ہونے پر ایسے ایسے تقاریر کیا کرتی ہے جیسے خود اختر حمیدخان ہو۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اور چاروں طرف سے آوازیں آرہی ہیں کہ اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی۔
سب سے معزز اور قابل صد احترام طبقہ علمائے کرام کا یہ حال ہے کہ حصوں بخروں میں بٹے ہوئے ہیں اور تفرقہ بازی میں لگے ہوئے ہیں۔ اپنے کارکنوں کو اندھی تقلید اوربےجا تنقید سکھانے والوں نے عدم برداشت کا ایک ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر تو کیا بولان سے چترال اور خیبر سے کراچی تک کے مسلمان اکھٹے نہیں ہو پا رہے۔ ایم ایم اے اور ملی یکجہتی کونسل کے ثمرات سمیٹنے کے باوجود ایک میز پر بیٹھا نہیں جا رہا۔ سینوں سے کدورت، زبانوں سے طنز و تشنیع، اشاروں کنایوں سے نفرت اور تحریر و تحقیق سے عداوت اگل رہے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک باقاعدہ کلیہ ہے کہ دکاندارگاہکوں پر قابو پاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ صرف اسی کی دکان چلے اور کاروبار چمکے لیکن بدقسمتی سے اب ایسے رویے، دینی و مذہبی جماعتوں میں بھی امڈ آئے ہیں۔ آئے روز نت نئی ’’مذہبی دکانیں‘‘ کھلتی جارہی ہیں جبکہ اس کی روک تھام اور تدارک کا کوئی سامان دینی جماعتوں کی طرف سے نہیں ہو رہا کیونکہ ان دکانوں کو صرف صاحبانِ منبر و محراب ہی تالہ لگواسکتے ہیں۔ اس کی وجہ سے قانون ہاتھ میں لینے کا رواج زور پکڑ رہا ہے، ہر کوئی خودساختہ مفتی بنا ہوا ہے اور لوگوں کو کفر و اسلام اورگستاخ و عاشق رسولؐ کی سندیں تھوک کے حساب سے بانٹ رہا ہے۔ اصلاح کی آواز خواہ اندر سے بلند ہو یا باہر سے، اسے ’’بااحسن طریقے‘‘ سے خاموش کروانے کا بھرپور انتظام اندرون خانہ موجود ہے۔ پہلے انہیں فتووں کے زور سے خاموش کیا جاتا تھا اور اب شمشیرحق، قوتِ بازوئے مسلم اور ’’جوتے شریف‘‘سے یہ خدمت لی جاتی ہے۔
ان کے ہاں! کفر، شرک، بدعت،گستاخی اور ان جیسے بہت سارے معاملات اب بھی حل طلب ہیں، اگرچہ اس پر لائبریریاں بھر دی گئی ہیں لیکن اب بھی ہر فرقہ اسلامی اصطلاحات کی اپنی اپنی’’تعریفیں‘‘ رکھتا ہے اور اسے نہ صرف سینے سے لگائے ہوئے ہیں بلکہ اس کے بنیاد پر دوسروں پر لعن طعن کرنا اپنا ’’فرض منصبی‘‘ سمجھا جاتا ہے اور اس سلسلے میں صرف زبان سے ہی کام نہیں لیا جاتا بلکہ بوقت ضرورت قلم اور کمان بھی اٹھانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں اسلام کاغریب الدہر اور یتیم الدیار ہونا کوئی اچھنبے کی بات تو نہیں۔
اس قابل صد احترام طبقے میں اکثریت ایسے لوگوں کی ابھر آئی ہے کہ جنہوں نے قصہ گوئی اور حکایت سازی کے ذریعے دین مبین کا اصل چہرہ لوگوں کے ذہنوں سے تقریباً غائب کردیا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ اکابر اور مقابر کو ’’پوجنے والوں‘‘ میں بس پگڑی اور رومال کا ہی فرق ہے، باقی خرافات دونوں کے ہاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ داستانیں اور حکایات بیان کرنے والے ان صاحبان کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ سننے والا اس انتظار میں رہتا ہے کہ کہانی میں آگے کیا ہونے والا ہے۔ معمولی سے واقعے کو الفاظ و تراکیب کے بھڑکیلے لباس میں پیش کرنے اور سامنے والے بندے کو اپنی لفاظیت کے بوجھ تلے روند ڈالنے میں ایک عجیب لذت ہوتی ہے جو ان کو ہر محفل اور خصوصاً ان پڑھ اور کم علم لوگوں کی محفلوں میں خوب مشہور کروا دیتی ہے۔ ایسے لوگ عموماً محفلوں کی جان ہوا کرتے ہیں اور یہی لوگ اپنے تیز و طرار جملوں، شاطرانہ تجسس، شاعرانہ اظہار، دلربانہ انداز، جذباتی لفاظیت اور مصنوعی حساسیت کے ذریعے محفلوں میں لوٹ مچاتے پھرتے ہیں۔ محفلوں میں آگ لگانے والے اور مباحثوں کو لوٹنے والے یہ لوگ ہر دلعزیزی، خودپسندی اور ریاکاری جیسے بیماریوں کاشکار ہوجاتے ہیں۔ تالیوں کی گونج، سبحان اللہ کی تکرار، مکرر مکرر کی صدائیں اور معزز القابات کی بازگشت ان میں اس بات کا زعم پیدا کر دیتی ہے کہ ہم تو بڑے پہنچے ہوئے بزرگ، اللہ کے پیارے اور چہیتے لوگ ہیں، بھلا غلطی اور نسیان ہمیں کہاں چھوسکتی ہے۔ اپنے تئیں یہ لوگ زورِ قلم و قوتِ گویائی سے ہر میدان جیت لینے کا پندار رکھتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے اپنی انسانی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کرتے ہیں۔ اپنی رائے سے رجوع کرنا اور اپنی اصلاح آپ کرنا شایداسی وجہ سے نایاب ہورہا ہے۔
آج جب بہترین امت کا لقب پانے والی’’امت وسط‘‘ کو باہم دست و گریبان دیکھتا ہوں تو آقائے مدنیﷺ کے یہ احادیث بے اختیار یاد آجاتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ سرکار دوجہاں نے فرمایا کہ’’اندیشہ ہے کہ لوگوں پر ایسا وقت آئے گا کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف الفاظ رہ جائیں گے، وہ مسجدیں تعمیر کریں گے حالانکہ وہ اللہ کے ذکر سے خالی ہوں گی۔ اس زمانے کے سب سے بدترین لوگوں میں علماء (علماء سوء) ہوں گے۔ انہی سے فتنے نکلیں گے اور ان ہی میں واپس لوٹ جائیں گے۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ، نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ قرآن پڑھیں گے حالانکہ قرآن ان کے حلق سے نہیں اترے گا۔ پھر ایسا زمانہ آئے گا کہ منافق، کافر اور مشرک، مؤمن سے (دین کے بارے میں) جھگڑا کریں گے‘‘۔
پھر یاد آجاتا ہے کہ سرورکائناتﷺ نے حضرت زیاد بن لبید کو ایک خوفناک چیز کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ‘‘ایسا اس وقت ہوگا کہ جب دین کا علم مٹ جائے گا‘‘۔ جس پر حضرت زیاد بن لبید نے عرض کیا تھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! علم کیونکر مٹ جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھ رہے ہیں اور اپنی اولاد کو پڑھارہے ہیں اور ہمارے بیٹے اپنی اولاد کو پڑھاتے رہیں گے‘‘؟۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا ’’خوب اے زیاد، میں تمہیں مدینہ کا انتہائی سمجھدار آدمی سمجھتا تھا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہود و نصاریٰ تورات اور انجیل کی کتنی تلاوت کرتے ہیں پَر ان کی تعلیمات پر کچھ بھی عمل نہیں کرتے‘‘؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ دعوت دی جائے حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ، دعوت دی جائے فروعات وجزئیات سے اصول و کلیات کی طرف، نوافل سے فرائض کی طرف، مختلف فیہ سے متفق علیہ کی طرف، اعضائی اعمال سے قلبی اعمال کی طرف، غلو کی آخری حدوں سے توازن و اعتدال کی طرف، نفرت اور تنگی سے آسانی اور بشارت کی طرف، جمود سے تجدید و اجتہاد کی طرف، کلام اور جدل سے عطا اور عمل کی طرف، غیر سنجیدگی سے عملیت اور منصوبہ سازی کی طرف، تعصب سے برداشت کی طرف، جذبات سے تفقہہ کی طرف، خوابوں کی دنیا سے واقعاتی زمین کی طرف، معاشرے پر فوقیت کے بجائے اس کے لیے زندہ رہنے کی طرف اور سابقہ پر اکتفا سے مستقبل کی تیاری کی طرف، باہمی بغض سے تعاون اور علاقائیت سے وسیع عالمیت کی طرف، اپنے آپ پر فخر کرنے سے محاسبہ نفس کی طرف۔ وسعت اور رحمت کی طرف، فلاح فی الدنیا والاخرت کی طرف، قرآن وسنت کی طرف، اسلام اور ایمان کی طرف، رب کی رضا اورجنت کی طرف۔

Comments

Click here to post a comment