ہوم << عوام اور نظام عدل - زیڈ اے قریشی

عوام اور نظام عدل - زیڈ اے قریشی

زیڈ اے قریشی تاریخ گواہ ہے کہ عدل و انصاف کا نظام دین اسلام نے چودہ سو سال پہلے اس وقت نافذ کیا جب اس کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ کا مشہور فرمان ہے کہ اگر میری بیٹی فاطمؓہ بھی چوری کرتی تو اُس کے بھی ہاتھ کاٹےجاتے“۔
اگر Priciples of Natural Justice کی طرف جائیں تو بھی ہمیں یہی فلسفہ ملتا ہے کہ All are equal before law and No one is the above Law لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ آج نہ دین اسلام پر عمل کیا جارہا ہے اور نہ ہی Man made Laws کو اپنایا جا رہا ہے. اگر ہم انہی قوانین پر عمل شروع کردیں تو ہمارے ملک میں کافی حد تک امن قائم ہو سکتا ہے لیکن اسلام کے نام پر بننے والا یہ ملک آج بھی انگریزوں کی ذہنی غلامی سے نہیں نکل سکا۔
بہت دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے نظام عدل میں جدت کی ضرورت ہے لیکن اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے. یہ کیسا نظام ہے جہاں دو دو نسلیں انصاف کے دروازے کھٹکھٹاتے دنیا سے رُخصت ہو جاتی ہیں لیکن انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ آج ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ اتنے قریب ہوتے ہیں جیسے کہ ایک ساتھ بیٹھے ہوں لیکن ہمارے نظام عدل کا حال وہی ہے جو آج سے ڈیڑھ سو سال قبل تھا، افسوس کہ کوئی اس نظام کو بدلنے کا خواہاں بھی نہیں ہے۔
آخر کیوں، وجہ کیا ہے؟
دراصل سب کے مفادات اس نظام سے جُڑ چکے ہیں اور کوئی اس نظام کو بدلنا نہیں چاہتا. ہر صاحب اختیار کا یہی ماننا ہوتا ہے کہ میں نے ہی نظام میں بہتری کا ٹھیکہ تھوڑی اُٹھایا ہوا ہے، دفعہ کرو جو کوئی نیا آئے گا، وہی نظام میں بہتری لائےگا، ہمارا عدالتی نظام پنکچر زدہ قوانین و ضوابط پر قائم و دائم ہے، کوئی بھی شخص اس نظام کو اسلامی ضابطہ اخلاق پر استوار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مغرب اپنے نظام کو بہتر کرنے میں مصروف ہے لیکن ہم پرانے انگریزی نظام کی غلامی میں ہی خوشی محسوس کرکے بےسکونی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دے رہے ہیں جس کا ناقابل تلافی نقصان ہماری آنے والی نسلوں کو اُٹھانا پڑے گا۔
اب کچھ بات ہو جائے اصلاحات کی!
اگر ہم کبھی فرصت کے لمحات میں اسلامی تعلیمات اور فقہ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بہت آسانی سے عدل و انصاف کا اسلامی نظام رائج کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی قوانین کے نفاذ سے نہ صرف معاشرہ بہتر ہوسکتا ہے، بلکہ دہشتگردی، افراتفری اور انتہاپسندی کا خاتمہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس سے
۱. عوام کا اعتماد بحال ہوگا
۲. معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ہوگا
جس نظام سے بہتری کی اُمید نہ ہو اُس کو بدل دینے میں بہتری ہوتی ورنہ محرومیاں جنم لیتی اور پھیلتی رہتی ہیں۔ اگر ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی مقصود ہے تو اس بوسیدہ نظام کو Speedy Justice System سے تبدیل کرنا ہوگا ورنہ دنیا ہمیں روندتی ہوئی آگے نکل جائے گی اور ہم فقط اپنی تباہی کا منظر بڑی بے بسی سے دیکھیں گے۔
(زیڈ اے قریشی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ، وزٹنگ لیکچرار لاء، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)

Comments

Click here to post a comment