ہوم << سی پیک میں شمولیت کی ایرانی خواہش، کیا یہ ممکن ہے؟ اوصاف شیخ

سی پیک میں شمولیت کی ایرانی خواہش، کیا یہ ممکن ہے؟ اوصاف شیخ

اوصاف شیخ پاکستان کو کمزور سمجھنے، خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے اور سُپر پاور بننے کے خواہشمند پا کستانی طاقت سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود فطری حسد کی وجہ سے اسے کوئی نہ کوئی نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں. وزیراعظم میاں نوازشریف کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت اور خطاب کے بعد وہاں قیام کے دوران بہت سے ممالک کے سربراہوں سے ملاقات ہوئی۔ ایرانی صدر نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی اور دنیا کے بڑے اور اہم معاشی منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا اور اس کے صلے میں سرحد پار یعنی ایرانی علاقہ میں پاکستان کی بجلی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے پاور پلانٹ لگانے کی پیشکش بھی کی. اقتصادی راہداری منصوبے سے نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ دنیا کی 3 ارب سے زائد آبادی کو فائدہ پہنچےگا، اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ ایشیائی اور افریقی ممالک کے لیے اہم اور فائدہ مند منصوبہ ہے۔
چین روزانہ 60 لاکھ بیرل تیل باہر سے لیتا ہے جس کے لیے اُسے بارہ ہزار کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے، گوادر پورٹ اور اقتصادی راہداری کے ذریعے یہ سفر کم ہو کر تقریباً 3ہزار کلومیٹر رہ جائےگا، اس سے چین کو ایک محتاط اندازے کے مطابق 20 بلین ڈالر کی سالانہ بچت ہوگی، پاکستان کو راہداری کی مد میں اربوں ڈالر سالانہ ملیں گے. اس راہداری پر روزانہ ہزاروں ٹرک، ٹریلر اور کنٹینر گزریں گے جو ٹول ٹیکس کی مد میں اربوں روپے دیں گے. راہداری پر ہوٹل، پٹرول پمپ، سی این جی پمپ، ٹائر، پنکچر کی دکانیں، اسٹور، ڈسپنسریاں، چائے خانے اور دیگر سٹور سینکڑوں کی تعداد میں بنیں گے، صنعتی زون بنیں گے، نئے شہر وجود میں آئیں گے جس سے پاکستانیوں کو بڑے پیمانے پر روزگار ملےگا. اس شاہراہ کا سلسلہ بہت سے ایشیائی اور افریقی مما لک سے ملے گا، اسی تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ دنیا کی نصف سے زائد آبادی مستفید ہوگی. روس بھی اس منصوبے میں دلچسپی رکھتا ہے، اس کی افادیت اور روس کے لیے اس کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے۔
امریکہ اور بھارت اپنے مذموم عزائم کے ساتھ پاکستان کے خلاف برسر پیکار ہیں. امریکہ روس اور چین کو نیچا دکھانا چاہتا ہے جبکہ بھارت کا ہدف پاکستان اور چین ہیں، اس وقت بھارت حسد میں مبتلا ہے اور معاہدے کے خلاف اور پاکستان کو کمزور کرنے کی ناپاک سازشوں میں مصروف ہے۔ بھارت روس کا پرانا دوست رہا ہے، متعدد مرتبہ روس نے بھارت کا ساتھ دیا، ایک مرتبہ اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے پاکستانی قرارداد کو بھی بھارت کے حق میں ویٹو کر چکا ہے، مگر ہندو بنیا ازل سے ہی بےوفا اور مفاد پرست ہے، اسی فطرت کے تحت جب دنیا میں طاقت کا توازن امریکہ کے حق میں دیکھا تو اس سے پینگیں بڑھانا شروع کر دیں۔
ایرانی صدر کی وزیراعظم سے ملاقات میں اقتصادی راہ داری میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار اور اس میں شریک کرنے پر پاکستان کو بجلی بنا کر دینے کی پیشکش مثبت ہے، کسی بھی ملک کے اس معاشی و اقتصادی منصوبہ میں شامل ہونے پر اعتراض نہیں، بات نیت کی ہے، کیا ایران نیک نیتی سے یہ سب کچھ کر رہا ہے؟ گزشتہ کچھ عرصہ سے ایران کا رویہ پاکستان کے حوالے سے مناسب نہیں ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے اور گوادر پورٹ کو ناکام بنانے کے لیے بھارتی اشیرباد سے چاہ بہار بندرہ گاہ کا منصوبہ شروع کیا گیا، اور پھر بھارت، افغانستان اور ایران نے مل کر ایک لحاظ سے پاکستان کے خلاف محاذ بنانے کی کوشش کی. نیک نیتی کے ساتھ چاہ بہار بندرگاہ بھی بننی چاہیے لیکن اس کے تانے بانے گوادر بندرگاہ کی بھارتی مخالفت سے ملتے ہیں. چاہ بہار کی اوسط گہرائی 11 میٹر جبکہ گوادر دنیا کی تیسری گہری بندرگاہ ہے۔گوادر اور چاہ بہار کا درمیانی فاصلہ تقریباً 250 کلومیٹر ہے. بھارت چاہ بہار میں بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے، ساری توجہ اور زور لگار ہا ہے. ایک اہم بھارتی جاسوس جو ایران سے پاکستان داخل ہوتے ہوئے پکڑا گیا، کلبھوشن یادیو، عرصہ سے چاہ بہار میں ہی ایک تاجر کی حیثیت سے مقیم تھا اور وہاں سے اقتصادی منصوبے اور گوادر بندرگاہ کے خلاف سازشیں کر رہا تھا اور بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کا مرتکب ہو رہا تھا۔
ان حالات میں شکوک و شبہات دور کیے بغیر پاک چائنا اقتصادی راہداری میں شمولیت کی خواہش کا اظہار درست ہے نہ اس کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارت کی معاونت اور کلبھوشن یادیو جیسے ایجنٹوں کی آمد و تخریب کاری کے حوالے سے تحفظات دور کرنے ہوں گے۔ بھارت کا ہم نشین ہوتے ہوئے ان اہم منصوبوں میں شمولیت کیسے ممکن ہے۔