الجھ رہا تھا۔مچل رہا تھا۔ مضطرب ہو رہا تھا۔ کچھ ہو رہا تھا، کچھ عجب، جو ہوتا ہے مجھ جیسوں کے ساتھ۔ہر اس کو جسے فطرت کچھ چاٹ لگا دیتی ہے۔ پھر انسان کا دل جھمیلوں میں کہاں لگتا ہے۔وہ کسی اور دنیا کا باسی ٹھہرتا ہے۔ اس کے گھونسلے آواز دیتے ہیں۔ وہ پنجرے سے نکلنے کو ہروقت بے تاب رہتا ہے۔وہ ’من موجی‘ ہوجاتا ہے۔ آزاد دنیا کا حقیقی شہری۔ لہذٰا پہیے دوڑ رہے تھے اور …
ہم اپنی ’نشستیں‘ پہیوں کی گردنوں پہ موجود نرم گرم صوفہ سیٹوں پہ جمائے ، آنکھوں پہ کالی عینک ٹکائے باہر کو بار بار منظر بدلتے دیکھ رہے تھے…یہ منظر بدل رہے تھے یا ہمارا واہمہ تھا، یہ آئن سٹائن کا نظریہ ئِ اضافیت کیا ہے؟ ، یہ دنیا حقیقت میں کچھ ہے یا صرف فریبِ نظر ہے؟ تو کتاب ِ حقیقت کیوں کہتی ہے کہ یہ متاعِ غرور ہے، دھوکے کا گھر ہے، کیا واقعی ایسا ہے؟آخرکار چوہے اچھلنے لگے ، مستانے نعرے بلند ہونے لگے ، احتجاج شدید ہوا تو ہمیں ہوش آئی کہ کچھ کچھ حقیقت لگتی ہے۔سیاہ کالی شیاہ گاڑی جس پہ ایک عدد کالا کپڑا بھی جھول رہا تھا (کہ نظر نہ لگے) ایک روڈ سائیڈ ریسٹورنٹ پہ آن ٹھہری…
پشاور میں کھانے کے استفسار پہ میرے اْس وقت کے میزبان نے بتا یا تھا کہ ’موٹا چھولا‘ پکا ہے۔ یقین کیجیے پنجاب میں تو یہ لفظ ہی تہذیب کے دائرے سے باہر سمجھا جاتا ہے۔ اچھی خاصی سر پھٹول ہوجاتی ہے۔حالاں کہ ہم نے بہتیرا اپنے دوست کو سمجھایا یہ ’چھولا‘ چھولے کا واحد ہے۔ پر وہ دوست میسنی مسکراہٹ سے کہتا رہا شاہ جی آپ تو بھولے ہیں۔ ان کے تیور دیکھ کے ہم نے مزید کرید سے احتیاط ہی بہتر سمجھی۔ تو …یہاں بھی ’موٹا چھولا‘ پکا تھا۔
کھا کے اٹھنے والے چنوں کا پورا بائول چھوڑ گئے تو ہم نے غلام مرتضٰی تبسم اور ارشد محمود کے اتفاق کے ساتھ پیسے ضائع کرنے مناسب نہ سمجھے اور شاہی وقار کے ساتھ اسی میز پہ براجمان ہوگئے۔ ویسے بھی وہ کھانا متبرک لگ رہا تھا کیوں کہ خواتین بچا کے گئی تھیں، پیسے بھی بچ رہے تھے اور ثواب مفت کا ۔پر…کچھ ہی دیر میں سمجھ آگئی کہ کیوں بچا کے گئی تھیں۔ ہم نے بھی آپس میں کافی باتیں سنائیں ، کچھ ہوٹل والوں کو بھی سنائیں، فیصلہ بھی سنایا کہ آیندہ یہ ہوٹل بلیک لسٹ…کھانا کھایا تو اس نے فوراََ باہر آنے کی ضد بھی کی ۔ضد پورا کرنے کے لیے ہم واش روم چلے، جو Air Tightماحول میں دو تھے۔ ایک صاحب اندر سے بے چین انتظار کے بعد برآمد ہوتے دکھائی دیے اور فرشتوں کو ہم داخل ہوتے۔ لیکن اندر سے نہ نظر آنے والی اور بے ہوش کردینے والی ’خوشبو‘ کی تیز لہر دل و دماغ چیرتی چلی گئی اور پریشر اس قدر کے قدم پیچھے ہٹنے لگے لیکن…فیصلہ کرنا نہایت ضروری تھا کہ ’اس وقت‘ ’خوشبو گھر‘ میں شکست اہم ہے یا فتح اور …فتح مقدر بنی۔
دینہ سے گاڑی کا رخ میر پور کی طرف موڑ دیا گیا۔ غلام مرتضٰی کے چہرے پہ حیران فخریہ تبسم بکھر گیاجوں ہی انہیں خبر ہوئی کہ یہ ’شہرِپناہ‘ ہماری دست بْرد سے تاحال محفوظ رہا ہے۔
’آپ کا نظریہ کشمیر کے بارے میں بدل جائے گا ثمر بھائی‘۔یہ نیا شہر جو منگلا کے عوض میں آباد ہوا تھاخاصا امیر کبیر شہر گردانا جاتا ہے۔ یہاں کے بہت کم گھرانے ایسے ہیں جن کا کوئی شخص انگلینڈ میں آباد نہ ہو۔ یہ منگلا ڈیم کے ’عوضانے‘ کے تحت ہوا تھا۔ غلام مرتضٰی کے تبصرے کے بعد ہمارے خیالوں میں گورے آنے لگے لیکن گوریاں زیادہ آئیں۔ ہم خوش تھے کہ چلو دیسی ماحول میں ولایتی ٹشن کے مزے لیں گے۔ ہم آرمی بیرئیر پہ ’سجدہ ریز‘ ہوتے، رستہ بناتے منگلا کے ساحل پہ آن دھمکے۔
یہاں دو قلعے ہیں ۔ایک آرمی کے پاس جو قریب ہی ہے۔ ہمارے ساتھ کی دونوں کشمیری کشمشیں اسی قلعے کو جانتی تھیں۔
’وہ تو بند ہوگیا ہے ثمر بھائی۔اب آرمی ہے وہاں نہیں جانے دیتے‘
’پھر بھی پوچھ لیتے ہیں‘ ۔ہم منمنائے۔ ایک مسکراتے وردی والے سے کچھ پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ قلعے پہ فوج کا قبضہ ہوچکا ہے۔ہمیں کچھ شک گزرا کہ ہمارا مطلوبہ مقام اتنا نزیک نہیں ہو سکتا جتنا یہ ’لال قلعہ‘ ہے۔ کچھ ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ فلاں قلعے میں جانا ہے تو ایوبی سپاہ کا کارندہ بولا
’اوہووووو ، وہ تو بڑی دور ہے‘۔خلا میں تو ہونہیں سکتا، پوچھا کتنی دورآخر۔ ’اٹھارہ کلومیٹر…’بحری جہاز کاسفر‘‘۔ دھت تیری کی ۔توہین کردی ہماری۔ جانتانہیں تھا کہ ابنِ بطوطہ کے قافلے کے سپاہی ہیں۔اٹھارہ کلومیٹر کی تومیں……
لشکر تیار ہوچکاتو ایک لشکری کو بزدلی کے ’دست‘ لگ گئے۔ تبسم غائب ہوگیا خالی غلام مرتضٰی رہ گیا۔
’میں کبھی کشتی پہ نہیں بیٹھا نہ کبھی بچوں کو بیٹھنے دیا۔ میں تو بنجوسہ کی مْنّی جھیل کی کشتی پہ بھی سوار نہیں ہوا۔ ڈوب جائے گی۔ ثمراور ارشد بھائی آپ چلے جائیں۔ پیسے بھی بہت مانگ رہا ہے۔ آیندہ چلیں گے۔ چلیں میں پیسے ویسے ہی ملا دیتا ہوں پر خدارا مجھے چھوڑ جائیں۔میرے دل کی دھڑکن بڑھ رہی ہے۔میں ڈوب جائوں گا۔ میری طبیعت خراب ہو رہی ہے۔‘
انکار بھی بڑھ رہا تھا اور ’موقع پرستوں‘ کا اصرار بھی۔’حقِ نمک ‘ ادا کرنے کو ارشد محمود میرے قریب بولے، چلیں چھوڑیں ثمر بھائی اگلی دفعہ سہی۔ پر ہم کرایہ سن کے کچھ لرز کے سنبھل چکے تھے اور ضدی گجر بن چکے تھے کہ یہاں سے آکے واپس چلے گئے تو پھر خاک ہے’ آوارہ گردی ‘پہ۔
ارشد محمود بھی عجب بلبل ہیں۔پورا نام ارشد محمود ارشد۔سینڈوچ سا نام ہے ۔یار یہ دو لگوانے کی کیا ضرورت ہے۔ کیوں دو دفعہ منہ کھلواتے ہو۔ ڈبل ارشد محمود کہلوا لو یا محمود ڈبل ارشد۔پر ہم نے لحاظ قائم رکھا ۔ ہم دونوں تروتازہ ہونے اور غلام مرتضٰی کو باندھنے کے ٹھیک منصوبے بنانے اس مقام میں آ داخل ہوئے جسے واش روم کہتے ہیں۔ ارشد صاحب کی ناک ’جلی‘ ہوئی تھی لہذٰا وہ اندھیرے کمرے میں نورانی آنکھیں لیے شاد کام ہوئے اور ہم نے باہر کے کھلے ٹینٹ ٹوائلٹ میں پردے کا کونہ اینٹ کے نیچے دبا کے سفید چمکتے فلش کا فائدہ اٹھایا۔یہاں کھلی فضا تو تھی، کیا ہوا گر گزرتے پرندے کچھ ’Nude Movie‘ کا نظارہ کرلیں گے۔
ہم فقیروں نے18000, 12000والی کشتیاں چھوڑیں ۔ 5000میں چھوٹی موٹر بوٹ ہمیں لینے کے لیے تیار کھڑی تھی ، جس کا ملاح ایک ایس ایس جی کمانڈو جاوید تھا جو بوقت ضرورت لاشیں نکالنے کا ماہر تھا۔ اس نے دورانِ سفر ہمیں لاشیں نکالنے کے قصے سنائے، بتایا کہ گوجرانوالہ میں ہونے والے گزشتہ سال کے نہر حادثے کی پہلی لاش بھی میں نے ہی نکالی تھی جس پہ مجھے تمغہئِ بسالت دیا گیا تھا۔یہ دنیا کی 18ممالک کی افواج کو یہیں لاشیں نکالنے کی تربیت بھی دیتا ہے۔ گویا سکہ بند تھا۔ لہذٰا ہم مطمئن ہوگئے کم از ہمارے شہید جسم مچھلیاں نہیں نگل سکیں گی۔مگر…غلام مرتضٰی کے لیے خبر اندوہناک تھی۔ ہم کھینچتے ہوئے انہیں کشتی تک لے آئے۔ وہ گویا ہوئے کہ جب کسی منتقل ہونے کا وقت قریب آتا ہے تو اس کے یار دوست ایسے ہی کرتے ہیں۔ چل بھئی ’مقتل‘ کی طرف۔کانوں کے ہاتھ لگاتے، کچھ گھبراتے بھائی صاحب گویا ہوئے
’اس میں تو ابھی سے پانی آگیاہے۔‘ اور تشریف کے لیے کھینچ لیے گئے۔
قلاچیں بھرتی موٹر بوٹ میں سحر زدہ سے بیٹھے ہم۔ منگلا کی وسعتیں حدِّ نگاہ سے آگے تک پھیلی ہوئیں ، پھر کتنی ہی حدِّ نگاہ گزر گئیں۔جھلمل کرتا سبز پانی، راستے میں آتے ہوئے چند ایکڑ کے جزیرے اور ان پہ مچھیروں کی آبادیاں، منگلا ریزورٹس کادل موہ لینے والا کنارا، پرویز مشرف کی آباد کی گئی ویران کالونی، ایک پہاڑ کے بعد کھلتا ایک اور منظر ، اڑتی بِھگاتی چھینٹیں، پانی کا سینہ چیرتی بھاگتی کشتی، بار بار پانی میں ہاتھ مار کے گلے لگ جانے کی چاہتیں، چیختے چلاتے سب اور سِند باد ہم۔
ہم سفر میں تھے ۔ہم سِند باد تھے ۔ہماری محبوبہ شہزادی کو دیو اٹھا کر لے گیاتھا۔ اس سے لڑنے ، جان پہ کھیلنے اور اپنی محبت کو بچانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگانی ضروری ہوچلی تھی۔ ہر آتا لمحہ ہمیں منزل کے قریب کر رہا تھا۔ دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگی تھیں۔جانے کیسی مخلوق سے واسطہ پڑے ، لیکن محبت کے لیے ہر بلا کا سامنا خوش دلی سے کرنا تھا اور محبوبہ کی بے عزتی اور توہین کا انتقام لینا تھا۔ہم محبت کی عظیم داستانوں کے انمٹ کردار تھے۔ محبت …جو زمین پر آسمانی چیز ہے، جس کے بغیر انسان کی تکمیل ممکن نہیں، جوزندگی کا جوبن ہے۔اور ہماری محبت کو قید کردیا گیا تھا۔ قید خانے کا نام تھاقلعہ رام کوٹ۔اسے ایک گکھڑ تْلگو نے ہندو مندرکی بنیادوں پہ تعمیر کیا۔یہ تین اطراف سے دریائے جہلم سے گھرا ہوا تھا۔یہی کچھ تفصیلات تھیں جو ہمیں اس کے متعلق فریڈرک ڈریو نے بتائیں تھیں۔اس کے ایک طرف سکھ گائوں ڈڈیال اور باقی طرف منگلا جھیل تھی۔
کشتی ساحل سے باندھ دی گئی ۔ لشکری اپنے کیمرہ نما ہتھیار اٹھائے سنبھلتے ہوئے بنی ہوئی خاموش پراسرار سیڑھیوں پہ احتیاط سے چلتے چلے گئے، دیو نگری شروع ہوچکی تھی۔جنّات جو کیڑوں کی صورت بول کر اطلاعات پہنچا رہے تھے۔ایک طرف جنگل ، دوسری طرف جنگل سے ذرا پرے دور افق تک پھیلا پانی، بیچ میں حائل ہوتے کچھ بلند پہاڑ…اچانک غلام مرتضٰی پہ اوپری اثرات شروع ہوگئے۔ باوجود بہت رازدار انہ پیش قدمی کے وہ ایک ابھرے پتھرپر کھڑے ہوگئے، ہاتھوں سے کبھی چہرہ سے، کبھی تاثرات سے کبھی گلے سے آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں تو ہم نے جپھی ڈال دی ۔ جیسے تیسے کر کے نیچے اتارا تو وہی اثرات ہم میں منتقل ہوگئے۔ ہم کبھی مجسمہئِ آزادی بنیں ، کبھی بانہیں کھول کے محبوبہ کو ترسیں، جیسے وہ ابھی ان میں سما جائے گی اور تصاویر بنانے کا حکم جاری کریں جس کی تعمیل ڈر کے مارے ارشد محمود ارشد برابر کررہے تھے…پیاس سے نڈھال افواج آگے بڑھ رہی تھیں، تھک کے بیٹھتیں اور پھر بڑھتیں۔ خوف کے سائے گہرے ہوناشروع ہوئے تو ایک لشکری کا ’مْوتر‘ نکل گیا اور آسیب درختوں نے اسے اپنی خونی آنتوں میں اتار لیا…قلعے کی بوسیدہ دیواریں شروع ہوچکی تھیں۔اچانک پاگل پن کے دورے پڑنے شروع ہوئے۔ غلام مرتضٰی پاگل نے خود کو پاگل ماننے سے انکار کردیا، ہم پاگل اس پہ ہنسنے لگے۔ میں اور ارشد محمود پاگل ہوچکنے کا اعتراف کرنے لگے۔ ارشد محمود کی ایسی شکل کیمرہ ہتھیار نے محفوظ کی جسے صدیوں تک بچے سلانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے………یہ جگہیں تو پاگلوں کے لیے ہی ہیں، عقلمندوں کا ان سے کیا واسطہ، بھلا کوئی محبت میں ہم جیسا دیوانہ بھی ہوتا ہے جو نام،مرتبہ، عزت، وقار سب کچھ دائو پہ لگانے کو آمادہ ہو؟…اپنی سلطنت میں جرات آمیز داخلے کو کیوں پسند کیا جاتا۔ہم اچانک موڑمڑے اور دیو… سامنے آگیا۔
دیو کا نام تھا ، تعصب۔ ہیں ںںںںںں۔ یہ کیا نام ہوا؟ کوئی جھینگا ہو ہو ، جبرون، دہشت سنگھ، خوفناک جٹ جیسے نام ہوتے تو مزہ بھی آتا۔ عجب عجب۔قلعے کے صدر دروازے پہ تالا تھا ، شہزادی اندر تھی اور دیو بے روزگار۔ہم نے بھی مقصد چھپائے رکھا۔ اس نے دروازہ کھولنے کا 800مانگا شاید کے بھاگ جائیں۔ ہم نے لیسیاں شروع کردیں۔ بتایا تمہاری بے روزگاری دور ہوجائے گی، ہم سفرنامہ لکھیں گے، لوگ آئیں گے، تالے کھلے رہیں گے، دھن برسے گا اور تمہیں مستقل ’خون‘ ملتا رہے گا۔ معاملہ 500میںطے ہوگیا اور ہمیں تماشائی سمجھ کر شہزادی کے درشن کے لیے دروازے وا کردیے گئے۔
داخل ہوتے ساتھ ہی شہنشاہ کی چارپائیاں پڑی تھیں ہم دراز ہوگئے اور اْکھڑی دیواروں سے راز کھوجنے لگے۔ غلام مرتضٰی نے ایسے ہمیں گود کے قریب کیا جیسے ماں بچے کو دودھ پلاتی ہے، ہم شرما گئے۔آگے اجاڑ شروع ہوا، بے حسی ، بے توجہی کے ثبوت ہر طرف بکھرے تھے، دو گہرے بڑے تالابوں میں پانی بدبو چھوڑ چکا تھا۔ ایک طرف کچھ چھوٹا مندر ادھ موا پڑا تھا…ہمارے پائوں کی دھمک نے سانپ محافظوں کو جگا دیا اور ان کی سیٹیاں ہر طرف سے سنائی دینے لگیں۔ ایک طرف توپ تھی جس سے حملے کو ہم آمادہ تھے۔ سانپوں کا خوف غلام مرتضٰی کے چہرے سے عیاں تھا۔ اوپر شیڈز پہ چلتے کھڑکیوں سے ہوائوں کا سامنا کرتے ، تصویر مشین کا پیٹ بھرتے، قید خانے کا بہانے بہانے پتہ ڈھونڈتے ہم چلتے جا رہے تھے۔ اتنی اونچی سیڑھیاں آئیں پر ہم چڑھ گئے لیکن آگے ہی سے جنّات نے شہد مکھیوں کی صورت میں حملہ کردیا۔ ہم الٹے قدموں پلٹے اور دوسرا پتھریلا راستہ ننھی سیڑھیوں کی طرف جانے والا اختیار کیا۔ عجیب ہوش رْبا تھا۔ ہر طرف خاموشیوں کے ڈیرے تھے، سورج کی چمک تھی ورنہ دہشت ہی سے روح جم جائے۔ کچھ اوپر گئے تو زندگی کے آثار دکھائی دیے، یعنی گوبر ، جو دیو کا تھا یاگائے کا کچھ معلوم نہیں۔ پر گائے یہاں کہاں سے آگئی؟ پھر یاد آیا کہ یہ تو جادو نگری ہے۔
اوپر پہنچے تو ایک اور ویران رستہ چوٹی تک جاتا نظر آیا اور یہی ہماری منزل تھی ۔وہاں قید خانے کے واضح در و دیوار تھے ۔ اندر شہزادی قید تھی۔ ہم پہنچ گئے اور غلام مرتضٰی خواہشِ نفسانی سے مجبور ہوکے شلوار کھولنے لگے۔ہم نے بچایا، کیمرہ ڈالا تو جادو کا اثر ان کے دماغ سے کم ہوا ۔
ہم پہنچ چکے تھے ۔ قید خانے میں داخل ہوچکے تھے۔ شہزادی ہمارے گلے لگ چکی تھی۔اب جو چہار طرف سحر انگیز نظارہ تھا تو یہ ہوس بھری آنکھوں نے کب دیکھا تھا۔ ہر طرف گہرا ، چمکتا، سبز پانی۔ہم نے پتھر پھینکے تو گہرائی میں جا کے غائب ہوتے رہے۔ قلعے کی بلندی پہ ہم منظروں کی ہوس پوری کررہے تھے۔ چاروں طرف پانی تھا اور پانی پہ اْگے پہاڑ، پہاڑوں کے سینے پہ کھڑے درخت اور وحشی جھاڑیاں…’آپ نہ ہوتے تو ہم زندگی بھر یہ فتح حاصل نہ کرسکتے‘۔ارشد بول رہے تھے ، ہم سن رہے تھے
کبھی یہ جگہ VIPlaceہوگی جہاں پرندے کو پر مارنے کے لیے بھی اجازت کی ضرورت پڑتی ہوگی، آج ہم فقیروں کے قدموں تلے رْل رہی تھی… اچانک خطرے کا سائرن بجنا شروع ہوا ۔ فوراََ واپس پہنچو، خبریں ہیں کہ نکلو۔خبر ہوگئی ہے ، دشمن افواج روانہ ہو رہی ہیں۔ ہم تیزی سے واپس پلٹنا شروع ہوئے ۔ نیچے آئے تو حقیقی مستی چھاگئی اور تان سین بیدار ہوگئے۔ مجھ اور مرتضٰی پہ وارفتگی چھاگئی، وجد طاری ہوگیا اور ہم نے جھومتے ہوئے گانا شروع کردیا۔
’صدا نہ باغیں بلبل بولے
صدا نہ باغ بہاراں
صدا نہ ماں پیو حسن جوانی
صدا نہ صحبت یاراں‘
(میاں محمد بخش)
ہم پاکستان کا سب سے بڑا موسمیاتی ریڈار دیکھتے ہوئے ساحل سے آن لگے جہاں اب کئی پریاں ہمارے استقبال کے لیے انگلستان سے آئی موجود تھیں۔ ماحول گلابی ہوگیا تھا، اٹھکیلیاں چل رہی تھیں، نقرئی قہقہے گونج رہے تھے۔ ہم زندہ سلامت واپس آچکے تھے۔ شہزادی ہمراہ تھی اوروہ ہمیشہ کے لیے ہماری ہو جائے گی۔
نیچے اتر کے ہم انسانوں کے جنگل میں داخل ہوگئے، خوف اترنا شروع ہوگیااور ہم امن کی خاطر اس درگاہ پہ پہنچ گئے جس نے رومی اور سعدی کو Replace کیا، یعنی درگاہِ میاں محمد بخش۔ حاضری کی سعادت ملی، دل کو آسودگی ملی ، کچھ لنگر چکھا، عقیدت کی نذر پیش کی، دعائوں کی جھولی کھولی ، کچھ کھوئے، کچھ سمندرِ اطمینان میں غرقاب ہوئے اور کھڑی شریف سے ہوٹل آکے کامیابی پہ لم لیٹ ہوئے۔
نیچاں دی اشنائی کو لوں فیض کِسے نہ پایا
کِکر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا
(میاں محمد بخش)
تبصرہ لکھیے