ہوم << خواہشِ ناتمام : محمد عازب

خواہشِ ناتمام : محمد عازب

میں نے جسم سکیڑا، پٹھوں کو کسا، ایک گہرا سانس لیا۔ پھر دفعتا ایک جھٹکے سے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ٹانگوں کو سیدھا کیا اور میزائل کی طرح ہوا میں اچھلا۔ پھر ایک ماہر مششاق کی طرح ہوا میں پینترا بدلا۔ ہاتھوں کو سامنے پھیلایا۔ اور لپک کر سامنے پہاڑ پہ نکلی پتھر کی ایک نوک کو اپنی انگلیوں سے مضبوطی سے تھام لیا۔ اب میں ایک ہاتھ سے انگلیوں کے بل جھول رہا تھا۔ میرے نیچے ہزاروں فٹ گہری کھائی تھی۔ ایک معمولی سی غلطی اور جنبش، ایک تکلیف دہ موت۔ میں نے ایک بار پھر گہرا سانس لیا۔ اپنی پوری قوت کو سمیٹا۔ اور مومینٹم کو استعمال کرتے ہوئے، جھول کر پہاڑ پر اپنا ایک پاؤں رکھ دیا۔ پھر جیسے ہی میں نے دوسرے ہاتھ سے پہاڑ کی ایک اور نوک تھامنے کی کوشش کی، میں یکدم پھنسلا۔ مگر دوسرے ہی لمحے میں نے دوسرے ہاتھ کو سہارے کے لئے استعمال کیا اور سنبھل گیا۔ اب بس ایک جھٹکا اور۔ اب میں دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ پر بغیر رسیوں اور سہاروں کے چڑھنے والا پہلا آدمی ہوں۔ میں ایک کامیاب راک کلائمبر ہوں۔
لمحہ لمحہ میرے ارد گرد اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ جیسے جیسے میں گہرائی میں اتر رہا تھا۔ سورج کی روشنی پیچھے رہتی جا رہی تھی۔ میرے ہاتھ اور پاؤں میں جیسے بجلی بھری تھی۔ اور میں ایک تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح سمندر کی گہرائی میں اترتا جا رہا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ کانوں پہ پانی کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ اب میرا پھیپڑے بھی اپنی آخری حدوں پہ پہنچ رہے تھے۔ میرے سامنے بس ایک رسی تھی۔ جو تاحدِ نظر پانی میں جا رہی تھی۔ میرے سامنے اگر کچھ تھا، تو بس وہ پانی میں اترتی رسی۔ اور میرے جسم کا تیزی سے سمندر کی تہہ میں اترتے چلے جانا۔ اب میرے کانوں پہ دباؤ ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ پھیپڑے لگتا تھا کہ پھٹ جائیں گے۔ میرے جسم کا رواں رواں آکسیجن کے لئے تڑپ رہا تھا۔ مگر میری منزی تھوڑی اور گہری تھی۔ میں نے پھیپھڑوں پہ زور دیا تاکہ کچھ آخری آکسیجن کے مولیکیول بھی ہوں، تو استعمال ہو جائیں۔ اب میں اپنے حواس کھونے لگا تھا۔ میں جانتا تھا اس سے زیادہ گہرائی میں جانا موت کو دعوت دینا ہے۔ میں نے پھیپھڑوں کو ایک بار پھر ٹٹولا اور ایک شاندار قلابازی کھائی اور گھوم کر اپنا رخ سطح کی طرف کر لیا۔ اب میں برق رفتاری سے سطح کی طرف جا رہا تھا۔ میں جانتا تھا چند لمحوں کی تاخیر میری موت کا سبب بن سکتی ہے۔ پانی کا دباؤ مجھے اوپر کی طرف پھینک رہا تھا اور میرا مچھلی کی طرح ہلتا جسم مجھے کسی ڈولفن کی طرح اوپر لے جا رہا تھا۔ اور پھر مجھے کچھ سائے نظر آنے شروع ہوئے۔ روشنی واضح ہوتی گئی۔ اور پھر ایک آخری ہاتھ اور میں پانی سے باہر تھا۔ میں اپنی تمام تر تاقت سے آکسیجن اپنے پھیپڑوں میں کھینچ رہا تھا۔ میں نے کر دکھایا۔ میں دنیا کا سب سے بڑا "فری ڈائور" ہوں۔
میری نظر ساکن تھی۔ ڈھڑکنیں بے ترتیب مگر پر جوش تھیں۔ میں نے مضبوطی سے بلا تھام رکھا تھا۔ سامنے سے بالر بھاگا۔ اور میری ساری حسیات اپنے سو فیصد سے زیادہ کام کرنے لگیں۔ کریز پر پہنچ کر بالر نے بال چھوڑی اور وہ گولی کی رفتار سے میری جانب لپکی۔ میں نے برق رفتاری سے بلا گھمایا۔ اور جیسے ہی بلا، بال سے ٹکرایا۔ بال فضا میں بلند ہوتے ہوتے جیسے تارا ہو گئی۔ میری ٹیم میری وجہ سے ورلڈ کپ جیت گئی۔ میں اس دنیا کا سب سے بہترین بلے باز ہوں۔
ایک زور دار جھٹکا۔ اور میرا بھیجا گیا خلائی شٹل چاند پر اتر گیا۔ میں اپنے دور کا سب سے قابل سائنسدان ہوں۔
اور آخری ٹانکے کے ساتھ آپریشن مکمل ہوا۔ یہ انسانی تاریخ میں ایک نیا سنگِ میل ہے۔ میں نے مصنوعی اعضا تیار کر لئے ہیں۔ جو عام اعضا کی طرح کام کرتے ہیں۔ میں بلاشبہ اس صدی کا سب سے بڑا ڈاکٹر ہوں۔
فون کی گھنٹی بجی۔ میں خیالوں سے نکل آیا۔ بیگم تھیں۔ "سنیے آتے ہوئے دودھ اور بریڈ لے آئیے گا۔" میں نے بے دلی سے" ہووں" کہا۔ اچانک آفس کا گیٹ کھلا، اور جھاگ اڑاتا باس اندر آیا۔ "مجھے آدھے گھنٹے میں فائل اپنی ٹیبل پہ چاہئے۔ ورنہ کل سے کام پر مت آنا۔" میں نے گھبرا کر "یس سر" کا سلیوٹ مارا۔ اسی دوران آفس بوائے اندر داخل ہوا۔ "سر، کل کی میٹنگ کے منٹس تیار ہو گئے؟ جی۔ ایم صاحب مانگ رہے ہیں۔" میں نے کہا،" ہاں بس ابھی دیتا ہوں۔"
اب میں خوابوں سے باہر ہوں۔ جلدی جلدی کام نمٹا رہا ہوں۔ ایک تو یہ میری سوچیں!!! میرا سارا وقت برباد کر دیتی ہیں۔۔۔۔

Comments

Click here to post a comment