وزیر اعظم نواز شریف نے نو مبر 2015 ء قبا ئلی علا قوں میں اصلا حات کے لئے کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کی سر براہی انھوں نے مشیر خارجہ سر تا ج عزیز کی سپرد کی تھی۔ممبران میں اس وقت کے گو رنر خیبر پختون خوا مہتاب احمد خان،وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ،وفاقی وزیر قا نون زاہد حامد اور قومی سلا متی کے مشیر نا صر جنجوعہ شامل تھے۔سر تا ج عزیز کی سربراہی میں قا ئم کمیٹی نے سفارشارت مر تب کر کے وزیر اعظم نواز شریف کو پیش کر دی ہے۔ وزیراعظم کی منظوری کے بعد ان سفارشات کو ایوان میں بحث کے لئے پیش کر دیا گیا ہے،لیکن وفاقی حکومت اور پارلیمان کو ان سفارشات پر عمل درآمد کر نے سے پہلے اس کا عمیق جا ئزہ لینا چا ہئے۔ اس لئے کہ یہ کمیٹی دو وجو ہات کی وجہ سے متنا زعہ ہے۔ پہلا یہ کہ اس کمیٹی کا کو ئی بھی رکن قبا ئلی علا قوں سے تعلق نہیں رکھتا، دوسرا یہ کہ کمیٹی کے ارکان نے تمام قبا ئلی علا قوں کا دورہ کیا ہے، لیکن وہاں انھوں نے ـ’’عوام‘‘ کی بجا ئے ’’خواص‘‘ سے ملا قا تیں کی ہیں۔وزیر اعظم کو چا ہئے تھا کہ کمیٹی میں قبا ئلی علا قوں سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کو شامل کر تے ،لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔کمیٹی کے ارکان کو چا ہئے تھا کہ وہ قبا ئلی علا قوں کا دورہ کر تے وقت پو لیٹیکل ایجنٹ کے کمپائونڈ میں’’ مخصوص افراد‘‘ سے ملا قا توں کی بجا ئے’’ عوام‘‘کو سنتے لیکن بو جہ وہ ایسا کر نے سے قا صر رہیں۔بہر حال قبا ئلی علا قوںمیں اصلا حات کے لئے چند تجا ویز پیش خدمت ہیں۔
٭ وفاقی حکومت کو چا ہئے کہ قبا ئلی علا قوں میں اصلا حات کے لئے ’’ مدت‘‘ کا تعین کریں،کہ جس کے بعد فا ٹا میں ریفرنڈم کر ایا جا ئے کہ عوام الگ حثیت چا ہتے ہیں یا خیبر پختون خوا میں ضم ہو نا چا ہتے ہیں۔یہ مدت زیادہ سے زیادہ 10 سال ہو نی چا ہئے۔اس کے بعد وفاقی حکومت کو دس سال کے لئے عبوری انتظا میہ بنا نے کے لئے قا نون سازی کر نی چا ہئے۔
٭عبوری انتظا میہ میں گورنر خیبر پختوں خوا اور گورنر قبا ئلی علا قہ جا ت کو الگ الگ کر نا چا ہئے یعنی قبا ئلی علا قوں کا گو رنر الگ ہو ۔ ان کی مدت ملازمت 4 سال ہو نی چا ہئے،تا کہ وہ وفاق کو بر اہ راست قبا ئلی علا قوں کی مشکلات سے اگا ہ کر سکیں۔
٭فا ٹا سیکرٹریٹ اور فا ٹا ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھا رٹی(FDMA) کے دفا تر کو فوری طور پر پشاور سے قبا ئلی علا قوں میں منتقل کیا جا ئے۔ تا کہ تر قیا تی منصو بوں پر کام تیز کا جا ئیں اور قبا ئلی عوام کو پشاور نہ آنا پڑیں۔دوسرا یہ کہ ان دونوں دفا تر کی منتقلی کی وجہ سے عوام میں اعتماد بحال ہو جا ئے گا، کہ ان کی تر قی اور فلاح کے لئے قا ئم ادارے ان ہی کی سر زمین پر مو جود ہے جس کے لئے ان کو کسی دوسرے صوبے میں جا نے کی ضرورت نہیں ہے۔
٭ تمام قبا ئلی علا قوں کے پو لیٹیکل ایجنٹس کو فوری طور پر احکامت جاری کئے جا ئیں کہ وہ اپنے دفا تر متعلقہ ایجنسی میں لے جا ئیں۔(اس وقت خیبر ایجنسی کے پو لیٹیکل ایجنٹ کا دفتر پشاور ، جنو بی وزیر ستان کے پی اے کا دفتر ٹا نک جبکہ اورکزئی ایجنسی کے پو لیٹیکل ایجنٹ کا دفتر ہنگو میں ہیں)
٭ عدالت عظمیٰ اور عدالت عا لیہ کے اختیارات کو قبا ئلی تک وسعت دی جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سپریم کو رٹ اور ہا ئی کو رٹ کی مستقل رجسٹری وہاں قا ئم کی جا ئے۔سپریم کو رٹ اور ہا ئی کو رٹ کے ایک ایک مستقل جج کو بطور انچا رج تعینات کیا جا ئے، جبکہ ان کے ساتھ 3,3 ایڈ ہا ک ججوں کو 4,4 سال کے لئے تعینا ت کر نے کے لئے قانون سا زی کی جا ئے۔
٭ لیویزاور خا صہ دار فورس کو مر حلہ وار ختم کیا جا ئے۔ان کی بجا ئے پو لیس کا نظام رائج کیا جا ئے۔قبا ئلی علا قوں کے لئے الگ آئی جی تعینات کیا جا ئے۔جس کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ پو لیس کے نظام کو منظم کر یں۔اسی طر ح قبا ئلی علا قوں میں پولیس کی تربیت کے لئے تر بیتی ادارے قا ئم کئے جا ئیں۔ہر ایجنسی کے لئے ڈی آئی جی عہدے کا پو لیس آفیسر بھی تعینات کیا جا ئے۔
٭ وفاقی حکومت کو پا بند کیا جائے کہ وہ دو سال کے عر صے میں تما م قبا ئلی علا قوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کر نے کے لئے مو ٹر وے بنا ئے گی۔ 3 سالوں میں قبا ئلی علا قوں میں دو یو نیو رسٹیاں قائم کر یگی۔جس میں ایک انجینیرنگ یو نیورسٹی ہو گی۔
٭ پنجاب چو نکہ بڑا صو بہ ہے اس لئے بڑے بھا ئی کو پا بند کیا جا ئے کہ وہ دو سالوں میں قبا ئلی علا قوں میں ایک میڈیکل کالج قا ئم کر یگی۔(یا د رہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بکا خیل کیمپ کا دورہ کیا تھا جس میں انھوں نے شمالی وزیر ستان کے متا ثرین جنگ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ وزیرستان میں یو نیو رسٹی، ہسپتال،دانش سکول اور 2000 گھر تعمیر کر یں گے)
٭ پا کستان کے تینوں مسلح افواج ملک بھر میں معیاری تعلیمی اداروں کا ایک منظم اور بہتریں نیٹ ورک چلا رہی ہے اس لئے ان کو بھی پا بند کیا جا ئے کہ وہ ایجنسی کے ہر تحصیل میں ایک ایک پرائمری سکول قا ئم کر یں گے اور بتدریج اس کو اگے بڑھا ئیں گے۔
٭ خیبر پختون خوا او سند ھ حکومتوں کے ساتھ معا ہد ہ کیا جا ئے کہ وہ وفاقی حکومت کے ساتھ مشاورت سے قبا ئلی علا قوں میں فنی تر بیت کے کم از کم دو ،دو ادارے قا ئم کر یں گے۔جبکہ علا مہ اقبال اوپن یو نیورسٹی کا ایک کیمپس بھی قبا ئلی علا قہ جا ت میں قا ئم کیا جا نا چا ہئے۔ایلمنٹری ایجو کیشن کے لئے ادارے کا قیام بھی قبا ئلی علا قوں کی بنیادی ضرورت ہے۔جبکہ چند جدید ہسپتال بھی فا ٹا میں بننے چا ہئے۔
٭ اید ھی فا ئو نڈیشن اور الخدمت فا ئو نڈیشن سے قبا ئلی علا قوں میں ایمبو لینس سروس شروع کر نے کے لئے سہو لیات فراہم کی جا ئے۔ وفاقی حکومت کو چا ہئے کہ وہ ان دونوں اداروں کے ساتھ تحریری معا ہدے میں فریق بنیں۔
٭ وزارت داخلہ کو چا ہئے کہ وہ قبا ئلی علا قوں میں قا ئم نا درا کے سنٹروں کو دوبارہ فعال کریں ۔ جہاں مشینری کی ضرورت ہیں وہاں مشینری مہیا کیا جا ئے، جہاں دفا تر کے لئے جگہ کی ضرورت ہے وہاں ان کو جگہ فراہم کی جا ئے جبکہ جہاں افرادی قوت کی کمی ہیں وہاں اس کمی کو پورا کیا جا ئے۔
میر ے خیال میں اس وقت قبا ئلی علا قوں کو قومی دھا رے میں شامل کر نے کے لئے ضروری ہے،کہ وہاں تر قیاتی منصوبے شروع کئے جا ئیں۔تا کہ لو گوں کو روزگار ملیں۔تعلیمی ادار ے قا ئم کر نے کی ضرورت ہے تاکہ نو جوان زیورتعلیم سے آراستہ ہو۔ہسپتال ،سڑکیںاور پینے کے پا نی کے منصوبوں کی ضرورت ہے تا کہ لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا ہوں۔ نا درا سنٹرز کو فعال کر نے کی ضرورت ہے تا کہ وہاں بسنے والوں کے بارے میں درست معلومات اکھٹی کی جا سکیں۔
تبصرہ لکھیے